صحیح طرح سے یاد نہیں کہ یہ کس سن کی بات ہے البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ صدر ایوب خان کے آخری دور یعنی 1968ء تک کراچی کی سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں، اس زمانے کا کراچی، آج کے کراچی سے بہت مختلف اور محدود تھا، یہاں پاکستان کے دوسرے شہروں سے آبادی کی یلغار کاسلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، لیکن اس کے باوجود پاکستان کا سب سے بڑا شہر یہی تھا، سڑکیں، پرہجوم تھیں، ٹریفک بھی بہت تھا، کراچی کی ایک اہم سواری ٹرام تھی جو اندرون شہر چلتی اورآمد ورفت کا ایک بہترین ذریعہ تھی، لانڈھی، کورنگی، ملیر، سعودآباد، نیو کراچی، فیڈرل بی ایریا وغیرہ، کراچی کے مضافاتی علاقے شمار ہوتے تھے، ان علاقوں میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بہت گھمبیر تھا، لوگ گھنٹوں، گھنٹوں بسوں کا انتظار کرتے اور بڑی مشکلوں سے اپنے کام کی جگہ پر پہنچا کرتے تھے تقریباً یہی حال پرانے کراچی کا تھا، بسیں اور ٹرام کھچا کھچا بھری ہوا کرتی تھیں، الاحسان اور ہوکنا نامی دو نجی ٹرانسپورٹ کمپنیاں تھیں جن کی بسیں سڑکوں پر نظر آتی تھیں، ٹھیک سے یاد نہیں کہ کراچی میں ڈبل ڈیکر بسیں کس نے متعارف کرائیں، لیکن ان بسوں کے آنے سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کس حد تک حل ہوگیا، قدیم طرز کی یہ بسیں صرف بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح) روڈ پر چلتی تھیں، بس کی پچھلی جانب، اوپری حصے میں جانے کیلئے سیڑھیاں ہوتی تھیں، مسافر، بڑی خوشی خوشی دوسرے حصے میں بیٹھ کر سفر کرتے تھے، جب یہ بسیں شاہرائوں پر گزرتی تو کھڑکیوں سے باہر کی طرف دیکھنے کا ایک عجب ہی لطف ہوتا تھا، سڑکوں پر، گاڑیوں کے درمیان سے جب یہ بس گزرتیں تو ایسا محسوس ہوتا جیسے ہم یورپ کے کسی شہر میں سفر کر رہے ہیں، جن روٹس پر یہ ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں، ان پر دوسری بسیں ہونے کے باوجود، زیادہ تر مسافر ان ہی بسوں میں سفر کرنے کوترجیح دیتے تھے، خصوصاً نوعمر بچوں کی تو یہ پسندیدہ سواری تھی، یہ بسیں زیادہ تر صدر سے میری ویدر ٹاور کے درمیان چلتی تھیں، ان بسوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی صرف دس بارہ ہی بسیں تھیں، ان بسوں نے خاصے عرصے تک کراچی کے شہریوں کی خدمت کی پھر رفتہ رفتہ یہ سڑکوں سے غائب ہوتی چلی گئیں پھر ایک وقت آیا کہ ایک بس بھی نہ رہی، اب صرف ان کی یاد ہے اور کچھ پرانی تصاویر، جنہیں دیکھ کر کراچی کے سنہری دن یاد آجاتے ہیں اور ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کرنے کو جی مچلتا ہے۔