موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین کو لاحق خطرا ت اور اس کے بچاؤ سے متعلق آگاہی کیلئے آج دنیا بھر میں اَرتھ آور منایا جائے گا۔ ہر سال دنیا بھر میں مارچ کے آخری ہفتے کی شب ساڑھے آٹھ تا ساڑھے نو بجے تک اَرتھ آور منایا جاتاہے۔ پاکستان میں بھی اس کی مناسبت سے مختلف شہروں میں برقی بتیاں بجھا کر موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ کُرہ اَرض کو بچانے کی کوشش میں عالمی سطح پر اس ایونٹ کا آغاز ورلڈ وائڈ فنڈ(WWF)نے کیا۔اَرتھ آور کو منانے کا مقصد لوگوںکو یہ بتاناہے کہ توانائی کو ضائع نہ کریں، خاص طورپر بجلی کی توانائی، جس کا بحران روز بروز بڑھتا جارہاہے۔ واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کرہ ارض کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات پڑر ہے ہیں۔ انٹرنیشنل اَرتھ آور اس حوالے سے دنیا بھر کے لوگوں کو آگہی فراہم کرتا ہے۔
اَرتھ آور کی تاریخ
ابتدائی طور پر2007ء میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں اَرتھ ڈے کی تحریک شروع ہوئی، جو اب7ہزار سے زائد شہروںاور قصبوںتک پھیل چکی ہے اور اسے سپورٹ کرنے والوں کی تعداد کروڑوں تک جاپہنچی ہے۔2013ء میں ارجنٹائن نے اپنے تین ملین ہیکٹر سمندری علاقے کے تحفظ کیلئے سینیٹ میں اَرتھ آور کا بل پاس کیا۔29مارچ 2015ء بروز اتوار 172ممالک نے اس ایونٹ میں حصہ لیا، جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے 10ہزار سے زائد مشہور مقامات اور عمارات پر ایک گھنٹے کیلئے روشنیاں بُجھا دی گئیں۔ اسی برس دنیا بھرمیں ا س ایونٹ کو 50ہزار مختلف مقامات پر منعقد کرتے دیکھا گیا، جس میں کرہ ارض پر مضر ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے سب نے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
اَرتھ آور کی روایت
اَرتھ آور ایونٹ میں حصہ لینے والے ہر فرد کو اپنے گھر، دفتر یا کام کی جگہ پر روشنیاں اور برقی آلات وغیرہ ایک گھنٹے کیلئے بند کرنے ہوتے ہیں۔ آپ بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں، جس کیلئے آج رات ساڑھے آٹھ بجے آپ کو ایک گھنٹے کیلئے برقی آلات کو بند کرنا ہوگا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک گھنٹے سے کیا فرق پڑتا ہے! یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی احتجاج یا سوگ کیلئے بازو پر سیاہ پٹی باندھتے ہیں۔ اس میں جو لوگ حصہ لیتے ہیں،ان کی توجہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس سے وابستہ خطرات اور حد سے بڑھتی آلودگی کی طرف ضرور جاتی ہے۔ ایونٹ میں زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال میں لایا جاتاہے۔ اس ضمن میں آپ نے محض سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر شیئر نہیں کرنی بلکہ ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنیوالی اپنی دھرتی کے تحفظ کیلئے سوچ بچار اور اس کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کا حصہ بننا ہے۔
پاکستان میں اَرتھ آور
ہمارے ملک میں بھی مشہور مقامات، سرکاری اور نجی عمارتوں سمیت پارلیمنٹ ہائو س کی روشنیاںبھی ایک گھنٹےکیلئے بند کردی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اس ایونٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ بڑے ذوق و شوق سے اس ایونٹ کو مناتے ہیںاور کرہ ارض سے اپنی محبت کا اظہا ر کرتے ہیں۔
دنیا بھر کے مشہور مقامات
رات ساڑھے آٹھ بجتے ہی آسٹریلیا کے ہاربر برج اور اوپیرا ہائوس، لندن میں بکنگھم پیلس، ٹاور برج اور دیگر اہم مقامات، پیرس کا ایفل ٹاور، جاپان کا ٹوکیو ٹاور،چین میں بیجنگ کا اولمپک اسٹیڈیم ، تائیوا ن کا تائی پی ٹاور، اہرام مصر، ملائیشیا کے شہر کوالا لمپور کا پیٹروناس ٹاور، سنگاپور میں گارڈن بائے بے ، روس کے دارالحکومت ماسکو کا کرائسٹ دی سیور کیتھڈرل، بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں اوپرا اور بیلے تھیٹر، اٹلی کے دارالحکومت روم کا کولوزیئم، یونان کے دارالحکومت ایتھنز کا پارتھینون ٹیمپل، دبئ کا برج خلیفہ اور لاہور میں مینار پاکستان ایک گھنٹے کے لیے اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔
موسمی تبدیلیوں کے خطرات
عالمی برادری گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیارہ زمین کو لاحق خطرات بھانپ چکی ہے۔ ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ اور انگلینڈ کے چیف سائنٹیفک ایڈوائزر ڈیوڈ کنگ، ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ ورلڈ میٹرولوجیکل ایسوسی ایشن، نیشنل اکیڈمی آ ف سائنس اور آئی پی سی سی اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرا ت سے نمٹنے کی ضرورت پر عالمی سطح پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
انگلینڈ کے نجی ادارے ویرسک میل کرافٹ کی رپورٹ کہتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے متعدد شہر تباہی کے دہانے پر ہیں۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے1.4ارب انسانوں کو سیلاب اور زلزلوں کا سامنا کرنا ہوگا اور ان آفات سے پاکستان کی70فیصد آباد ی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان کا شمار، ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ملکوں میں ہوتا ہے۔