• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کے پی ٹی ہیڈ آفس کی عمارت بندرگاہ کو شہر سے ملانے والے پل کے ساتھ جو پہلے نیٹی جیٹی کہلاتا تھا اور جس کا نام اب جناح برج ہے، واقع ہے۔ نصف دائرے کی شکل میں بنائی جانے والی اس عمارت کو بمبئی حکومت کے آرکیٹکچر جارج وائٹٹ نے ڈیزائن کیا تھا عمارت کی تعمیر 1912ء میں شروع ہوئی جو 1916ء میں مکمل ہوگئی۔ اس کا افتتاح بمبئی کے گورنر لارڈ ویلنگڈن نے 5؍جنوری 1916ء کو کیا۔ عمارت کی تعمیر پر 9؍لاکھ 74؍ہزار 990؍روپے لاگت آئی تھی۔ یہ دو منزلہ عمارت تقریباً 14؍سو مربع گز پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی مرکزی دروازہ ہے۔ اس کے کمرے نہایت کشادہ اور چھتیں اونچی ہیں جس کی وجہ سے کمرے گرم موسم میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔یہ عمارت کراچی کی چند خوبصورت تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ کے پی ٹی اگر گیٹ وے آف پاکستان ہے تو بحری راستے سے کراچی میں داخل ہوتے ہی یہ پہلی عمارت تھی جو مسافروں کا استقبال کرتی تھی، لیکن اب اس کے آس پاس متعدد بلند و بالا عمارتیں قائم ہوچکی ہیں۔عمارت کے دروازے محرابی طرز کے ہیں جو مہنگی لکڑی ساگوان سے بنائے گئے ہیں۔ پوری عمارت سرخ رنگ کے پتھروں سے تعمیر کی گئی ہے۔ برطانوی دور میں اکثر عمارتوں کی تعمیر میں زیادہ تر یہی پتھر استعمال ہوتے تھے۔ 1986ء کے آس پاس کے پی ٹی کی انتظامیہ کے کچھ بدذوق افسران نے جو تاریخی نوعیت کی عمارتوں کی اہمیت سے ناواقف تھے، پوری عمارت پر ڈسٹمپر پھروا دیا تھا جس سے اس عمارت کا قدرتی حسن برباد ہوگیا اور یہ بھدی نظر آنے لگی بعدازاں دس بارہ سال بعد پھر کسی کو اسے اصل شکل میں بحال کرنے کا خیال آیا تو سینڈ بلاسٹ کے ذریعے اس رنگ کو اکھاڑا گیا جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے لیکن عمارت کی اصل خُوب صورتی بحال ہوگئی۔دوسری جنگ عظیم کے دوران اس عمارت کو برطانوی حکومت نے اپنی تحویل میں لے کر پانچ سو بستروں کا فوجی اسپتال قائم کردیا تھا جس کا نام انڈین نیشنل اسپتال تھا۔ 6؍مئی 1917ء کو یہ اسپتال ختم کرایا گیا اور عمارت کے پی ٹی کے حوالے کردی گئی۔

پندرہ بیس سال پہلے تک اس عمارت کے اطراف بڑی تعداد میں مال بردار ٹرک، فورک لفٹر اور بھاری کرینیں بے ہنگم طریقے سے پارک کی جاتی تھیں، جس کی وجہ سے عمارت کی خوبصورتی متاثر ہورہی تھی پھر بتدریج اقدامات کے ذریعے صورت حال کو بہتر بنانے کے اقدامات کئے گئے۔ عمارت کے اطراف میں حد بندی کرکے گاڑیوں کی آمدورفت ختم کردی گئی، درخت لگائے گئے۔ عمارت کے سامنے والے حصے پر کبوتروں کے جھنڈ اترنے لگے پھر کچھ عرصے بعد فیصلہ ہوا کہ ایڈل جی ڈنشا روڈ کو جس پر کے پی ٹی کی عمارت ہے، ٹریفک کیلئے بند کرکے اسے پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص کردیا جائے، چناں چہ اب کے پی ٹی بلڈنگ اور اس سے متصل کسٹم ہائوس کے سامنے والے علاقے کو بہترین اور دیدہ زیب روپ دے دیا گیا ہے جسے دیکھ کر طبیعت خوش ہوجاتی ہے اور یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں بھاری گاڑیوں کی بھرمار نے پورے ماحول کو پراگندہ کررکھا تھا اور یہاں سے گزرنے والے مستقل اذیت کا شکار رہتے تھے۔ اب اس جگہ کو دیکھیں تو یہ کراچی کے بجائے یورپ کے کسی شہر کا منتظرنامہ دکھائی دیتا ہے۔

تازہ ترین