تحریر:مفتی عبدالمجید ندیم…برمنگھم اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیھم السلام کو معجزات سے نوازاجو اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے کافی تھے کہ یہ شخص کو ئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ساری قوتیں شامل ہیں۔ اس کے ہاتھ سے ان نا ممکن چیزوں کا صدور ہوسکتا ہے جس کے بارے میں دوسرے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو بھی مختلف معجزات عطا فرمائے جن میں سے آپ کا زندہ و تابندہ معجزہ ’’قرآنِ مجید‘‘ ہے لیکن قرآنِ مجید کے بعد آپ ﷺ کو ایک ایسا منفرد معجزہ عطا فرمایا گیا جس کی نظیر تاریخِ انسانی میں کہیں نہیں ملتی۔ اور یہ معجزہ ’’ معراج‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ معراج النبی ؐ کا واقعہ انسانی عظمت اور سربلندی کا نقطہ عروج ہے۔یہ واقعہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت کا وہ منفرد ترین واقعہ ہے جسے عقل سے نہیں ایمان اور عشق کی طاقت سے سمجھا جا سکتا ہے۔اس لئے کہ عقل کی پرواز ہمیشہ سے ہی محدود رہی ہے۔انسان نے جب بھی معجزات کو محض عقل سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس نے ہمیشہ ہی ٹھوکر کھائی ہے اسراء و معراج کے پورے واقعے پرمادیت ’’ عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی ‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہے لیکن ایمان و عشق اسے ہمیشہ سے سچ ہی سمجھتے آئے ہیں اورتا قیامت اس کی صداقت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ معراج کا واقعہ یہ سبق دیتا ہے کہ آسمان کی بلندیاں اور وسعتیں حضرتِ انسان کی دسترس میں ہیں۔یہ واقعہ مستقبل کے با رے میں اللہ تعالیٰ کے منصوبوں اور اسلام کی ترویج و اشاعت کا غماز بھی ہے روایات کے مطابق معراج کا واقعہ مکی زندگی کے بالکل اواخر میں پیش آیا ۔یہ وہ مرحلہ تھا جب مکہ ظلم کی ایک ایسی وادی بن چکا تھا جہاں پر مسلمانوں کیلئے مزید رہنا انتہائی دشوار ہو رہا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کے دو مادی سہارے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ یکے بعد دیگرے انتقال فرما چکے تھے۔ پھر کیا تھا جیسے کفارِ مکہ نے یہ ایکہ کر لیا ہو کہ وہ نبی اکرم ﷺ اور اہلِ ایمان کو ایسی پرتشدد زندگی سے گزاریں گے کہ ان کی طاقت ختم اور ان کی برپا کردہ اسلامی تحریک بے جان ہو جا ئے گی۔ مکے والوں سے مایوس ہو کر حضور ﷺ طائف گئے لیکن وہاں کے باشندوں نے بدسلوکی، بربریت اور ظلم کی وہ داستان رقم کی کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں واقعہ معراج پیش آیا جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اے محمد ﷺ گھبرانے کی کو ئی ضرورت نہیں۔ اگر وقتی طور پر فرش والے آپ کے ساتھ نہیں ہیں تو کوئی با ت نہیں ہے، عرش والا تو ہر حال میں آپ کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کفارِ مکہ اور سردارانِ طائف کو یہ بتانا چا ہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت، حضرت محمد ﷺ اور ان کی برپا کردہ تحریک کے ساتھ ہے۔ وہ اللہ جو انہیں ایک رات میں مکۃ المکرمہ سے بیت المقدس اوربیت المقدس سے ملاء اعلیٰ تک لے جاسکتا ہے اس کی طاقت کے سامنے تمہاری طاقت ایک رائی کے دانے کے برابر حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ جلد ہی تمہاری طاقت کا طلسم توڑ کر اپنے پیارے نبیؐ کو سرخرو اور فاتح کر دے گا۔ اس واقعے کے اندر حضرت محمد ﷺ کیلئے بھی بہت زیادہ تسلی و تشفی کا سامان تھا۔ اس واقعے سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ جس اللہ نے آپ ؐ کوکائنات کیلئے ہادی و رہنما بنا کر مبعوث فرمایا ہے اس کی مدد قدم قدم پر آپ ؐکے ساتھ ہے وہ مشکل کے لمحات میں آپ کو اپنے ہاں شرفِ باریابی عطا فرما کر ساری کائنات کو آپ کی عظمت سے آگاہی دے رہا ہے اور یہ بتا رہا ہے کہ جہاں پر آپ کے قدمِ مبارک پہنچے ہیں وہاں پر نہ تو کوئی نبی پہنچا ہے اور نہ ہی کو ئی نورانی فرشتہ اور نہ ہی کوئی جن و انس وہاں تک جانے کی سکت رکھتا ہے۔اس واقعے نے حضو ر ﷺکو عملی طور پر امام الانبیاء کے رتبے پر بھی فائز کر دیا اس لئے کہ معراج ہی کی رات تمام انبیا علیھم السلام نے آپ ؐ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیاتھا۔واقعہ معراج کی تفاصیل قرآنِ مجید کے علاوہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں منقول ہے لیکن میرے نزدیک اس کے دو پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کا ایک پہلوتو وہ تحائف ہیں جو حضور ﷺ کو اپنی امت کیلئے عطا ہو ئے اور دوسرے وہ مشاہدات ہیں جو نبیﷺ کو اس لئے کرائے گئے تاکہ مسلمان ان کی روشنی میں اپنی زندگی کا نظام استوار کرسکیں۔ واقعہ معراج کے دوران، نبی اکرم ﷺ کے مشاہدات مسلمانوں کے اعمال و افعال کی اصلاح میں بہت زیادہ ممد و معاون ہو سکتے ہیں یہ مشاہدات یہ درس دیتے ہیں کہ نیک اعمال کرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ،عنایتیں اور برکتیں اس دنیا سے لے کر عالمِ آخرت تک جاری و ساری رہتی ہیں جب کہ بُرے اعمال کا ارتکاب کرنے والے دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔یوں تو حضور ﷺ کو معراج کی رات بہت زیادہ تحفے عطا ہو ئے لیکن اس امت کے حوالے سے چارتحفے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ان میں سے پہلا تحفہ اس اعلان کا ہے کہ آپ کی امت میں سے جو شخص بھی توحیدِ الٰہی پر قائم رہے گا اور اسی پر اس کی موت آئے گی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور اس کی مغفرت فرما ئے گا دوسرا تحفہ اس رحمت کے اعلان کا ہے کہ جو بھی نیکی کا ارادہ کرے گا اس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جا ئے گی اور اگر وہ اس نیکی کو کر لے گا تو اس پر دس گنا ثواب دیا جا ئے گا، اس کے بالمقابل جو برائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے نامہ اعمال میں کچھ بھی نہیں لکھا جاتا لیکن اگر وہ برائی کر لیتا ہے تو ایک ہی برائی اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائے گی اور توبہ کرنے کی صورت میں اسے بھی بخش دیا جا ئے گا۔تیسرا تحفہ پچاس نمازوں کا ہے جو حضرت موسیٰؑ کی بار بار کی تلقین کے بعد بارگاہ ِ ایزدی میں پیشی کے بعد کم ہو کر صرف پانچ رہ گئیں اور چوتھا تحفہ سورہ بقرہ کی آخری آیات کا ہے جو براہِ راست حضورﷺ پر نازل فرمائی گئیں۔اگر دیکھا جائے تو یہ چاروں تحفے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔توحید پر مبنی زندگی اور اسی پر موت قابلِ رشک ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ابدی جنت اور اس کی ہمیشہ کی رضا کا باعث ہے۔ نیکی کے ارادے پر ہی اجر اور اسے اختیار کرنے پر بے انتہا ثواب اور اس کے بالمقابل برائی کے ارادے پر کسی بھی سزا سے توقف اور برائی پر اتنا ہی گناہ جتنی اس کی مقدار ہے۔ یہ اللہ کے کرم کی وہ شان ہے جس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیات کی شان ہی نرالی ہے کہ وہ بغیر کسی واسطے کے براہِ راست عطا ہوئیں جیسے محب اپنے محبوب سے ملاقات کے وقت اسے کوئی نرالا تحفہ پیش کرتا ہے۔ سبحان اللہ اس کی عظمت کا کیا کہنا ! اور جہاں تک پانچ نمازوں کا تعلق ہے کہنے کو تو وہ پانچ ہی رہ گئی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ جو بھی انہیں خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے گا اسے ثواب پچاس ہی کا دوں گا یاد رکھئے کہ معراج کا سب سے بڑا تحفہ نماز ہے جو مخلوق کو اللہ سے جوڑنے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس پیغام کو بھول چکی ہے۔ معراج کی شب حضورﷺ نے جنت اور جہنم میں جو مشاہدات کئے اگرچہ وہ تمثیلی انداز میں تھے لیکن ان کے اندر ہماری روزمرہ کی زندگی کے لئے بہت سے اسباق ہیں ۔آپ ؐنے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگوں کی کھیتیاں سدا بہار ہیں جو خزاں سے آشنا نہیں ہیں، ان میں ہر وقت اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مجاہدینِ فی سبیل اللہ ہیں جن کا اجر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے پھر دیکھا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے سر ایک بھاری بھرکم پتھر سے کچلے جا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ تو بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازوں میں سستی کرتے تھے۔کچھ اور لوگوں کا مشاہدہ کرایا گیا جن کے کپڑوں پر پیوند ہی پیوند لگے ہو ئے تھے۔بتایا گیا کہ یہ وہ بدبخت ہیں جو اپنے مال سے زکوٰۃ و صدقات تک بھی نہیں دیتے تھے۔پھر ایک ایسے شخص کا مشاہدہ کرایا گیا جو لکڑیوں کا ایک بھاری بھر کم گٹھا اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اور جب اسے نہیں اٹھا سکتا تو اس میں سے کچھ کم کرنے کی بجائے اس میں مزید ڈال دیتا ہے پوچھا یہ کون احمق ہے ؟ بتایا گیا یہ وہ شخص ہے جس کے پاس پہلے ہی امانتوں کا وزن زیادہ تھا جنہیں وہ پورا نہیں کر سکتا تھا لیکن وہ انہیں کم کرنے کی بجائے ان میں اور اضافہ کرتا جاتا تھاکچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ تیز قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے معلوم ہوا کہ یہ آگ لگانے والے فتنہ باز خطیب اور مقررین تھے۔ آپؐ نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ایک بڑا سا بیل ایک باریک سے سوراخ میں گھسنے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ نا ممکن سی بات ہے۔ پوچھا یہ کیا ماجرا ہے عرض کیا گیا یہ اس شخص کی مثال ہے جو غیر ذمہ دارانہ بات کرتا ہے جس سے ہر طرف فتنہ برپا ہو جاتا ہے لیکن بعد میں نادم ہو کر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے جو ممکنات میں سے نہیں ہےایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ معلوم ہوا یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو طعنے دیتے تھے۔پھر ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو اپنے تانبے کے لمبے لمبے ناخنوں سے اپنے منہ اور سینے کے گوشت کو نوچ رہے تھے؟ پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی پیٹھ پیچھے برائیاں بیان کرتے تھے۔ایسے بدبخت بھی دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کی طرح تھے اور وہ آگ کھا رہے تھے جبرائیل ؑ نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ناجائز طور ہڑپ کر جاتے تھے۔ایسے لوگوں پر بھی گذر ہوا جن کے پیٹوں میں لاتعداد سانپ موجود تھے اور وہ اپنی جگہ سے حرکت بھی نہ کر سکتے تھے۔ ہر گزرنے والا انہیں اپنے پاؤں تلے روندتا تھا ۔یہ سود کا کاروبار کرنے والے تھے ۔کچھ ایسے لوگ بھی نظر آئے جن کے سامنے تازہ اور نفیس گوشت بھی ہے اور بدبودار اور پُرتعفن گوشت بھی لیکن یہ تازہ گوشت کو چھوڑ کر بدبودار گوشت کھا رہے ہیں۔ بتایا گیا کہ یہ وہ مرد وخواتین ہیں جنہیں حلال بیویاں اور شوہر حاصل تھے لیکن انہوں نے حرام کی وادی میں قدم رکھ کر اپنی خواہشات پوری کیں۔پھر ایسی عورتوں کو بھی دیکھا جنہیں ان کی چھاتیوں کے بل لٹکا دیا گیا تھا۔بتایا گیا یہ وہ بدبخت عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے خاوندوں سے ایسے بچے منسوب کر دیئے جو ان کے نہیں تھے۔یہ حقیقیت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ سائنس جس قدر ترقی کر رہی ہے اسی انداز سے معراج کے واقعے کی صداقت سامنے آ رہی ہے اور علم و فلسفہ کے ماہرین خالقِ کائنات کی طاقتوں کو سمجھنے میں آسانیاں محسوس کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس معجزے کی برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرما ئے ۔(آمین)