• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مقدورہو‘توخاک سے پوچھوں کہ‘ اے لئیم!
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیئے!
پروفیسرغفور کے بعد قاضی حسین احمد کی رحلت سے نہ صرف دنیا میں دو نیک اور پرہیزگار لوگوں کی کمی ہوگئی ہے بلکہ ہم پاکستانی دو اچھے تجربہ کار‘دیندار اورمخلص سیاستدانوں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ میری دعا ہے بلکہ پوری قوم کی بھی یہی دعاہے کہ خداانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطاکرے اور پاکستانی قوم کوان کے نعم البدل نیک اور پاکباز سیاست دان عطاکرے۔بزرگوں کی موت کاغم توہے ہی اس کے ساتھ نوجوان شاہ زیب کے سفاکانہ قتل نے بھی ہرذی شعور کو ہلاکے رکھ دیاہے شایدہی کوئی آنکھ ہوگی جواس بچے کی ٹی وی پر کالے سوٹ میں خوبصورت تصویر دیکھ کر پرنم نہ ہوئی ہوگی بھلا ہوچیف جسٹس آف پاکستان کاجنہوں نے اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے یہ انسانی مسئلہ اپنے ہاتھوں میں لیکر سندھ کی سوئی ہوئی غافل پولیس کو متحرک کیا اور ایک ملزم کی گرفتاری عمل میں آئی امید ہے اس کالم کی اشاعت تک دوسرا ملزم بھی قانون کے آہنی ہاتھوں میں آچکا ہوگا اور اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہوجائیگا۔ اس شہرکراچی میں ہم عادی ہوگئے ہیں کہ صبح اٹھتے ہی ناشتہ کے وقت گزشتہ روز کے ہونے والے قتل کی تعداد پڑھیں اور ساتھ ہی ساتھ ٹی وی پر طلوع آفتاب کے بعدہونے والے نئے قتل کے اسکور کے ٹکرپڑھیں قاتل دندناتے پھرتے ہیں پولیس نامعلوم قاتلوں کے نام ایف آئی آر لکھ کر چند دنوں کے بعد کیس کو ”A“ کلاس کرکے سردخانے میں ڈال دیتی ہے اورپھر اگرکوئی پیشہ ور قاتل ہاتھ آجائے تو تمام قتل اس پر تھوپ کر بغیرکسی ثبوت اور شواہد کے اپنی فائل کا پیٹ بھرلیتی ہے اور اس پر کوئی ایوارڈیاریوارڈ ہوتو وہ بھی متعلقہ افسران کے حصہ آجاتا ہے اوران کو شولڈر پروموشن دلوانے میں معاون ثابت ہوتاہے اسی کلچر کی وجہ سے قاتلوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور اچھے گھروں کے بچے جن کے ذہن ابھی پختہ نہیں ہوئے سمجھتے ہیں کہ کلاشنکوف کابرسٹ مارنا یاکلوز رینج سے سینے پر رکھ کر گولی مارنا اب تھپڑ یامکا مارنے کا متبادل ہوگیاہے ان ناپختہ ذہن بچوں کے سامنے سارا وقت ان کے والدین کے رکھے ہو آرمڈ گارڈ جن کے ہاتھوں میں ہروقت ممنوعہ بورکااسلحہ ہوتاہے ان کے اسلحہ کے استعمال کے بارے میں حوصلے کھولنے کیلئے کافی ہے پاکستان میچ جیتتا ہے تو یہ نوجوان اپنے گارڈز کو حکم دیتے ہیں کہ ہوائی فائرنگ کرو اور وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں اندھادھند ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جس سے سارے علاقہ میں خوف وہراس پھیل جاتاہے ابھی حال ہی میں خیابان سحر فیزVI ڈیفنس میں ایک ہی سڑک پر چار کیفے یکے بعد دیگرے کھلے ہیں اور شام کو مسلح گارڈوں سے بھری ہوئی گاڑیوں کاتانتا بندھا رہتاہے جو وقتاً فوقتاً موقع محل کے حساب سے اپنی ہوائی فائرنگ بغیر روک ٹوک کے کرکے پورے علاقے میں سراسمیگی پیداکردیتے ہیں محسوس ہوتاہے کہ پولیس نے یہ علاقہ پرائیویٹ مسلح گارڈوں کے حوالے کردیاہے اورخود خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے اگرکوئی ارباب اقتدار اس کالم کوپڑھ رہے ہوں تو ذرا سی توجہ اس طرف بھی دیدیں کیونکہ وہاں ہرروز معقول گھرانوں کے نوجوان بچے جمع ہوتے ہیں اور مجھے ہروقت خوف لاحق رہتاہے کہ پھرکوئی شاہ زیب اس دنیا سے نہ چلاجائے خدا تمام لوگوں کے بچوں کو محفوظ رکھے اور اپنی امان میں رکھے اورکسی والدین کو اولاد کا دکھ نہ دے ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ اپنی گوناں گوں مصروفیات سے چند لمحے نکال کر اس انسانی مسئلے کی طرف توجہ دیں تاکہ کسی ہونے والے ممکنہ سانحے سے بچاجاسکے خیریہ تو ایک انسانی مسئلہ تھا اوراس طرف حکام کی توجہ مبذول کروانامیں اپنافرض سمجھتاہوں اب آئیے کالم کی طرف جوکہ آج رہ ہی گیا گرم گرم خبریں تو قادری صاحب کے لانگ مارچ اورا لطاف بھائی کے ڈرون کی ہیں میرے خیال میں اس کالم کی اشاعت تک تو ڈرون کا انکشاف ہوہی چکاہوگا بہرحال جولوگوں کا اندازہ ہے وہ یہ ہے کہ بھائی حکومت سے علیحدگی کاکوئی اعلان کریں گے بہرحال پتہ چل جائے گا خدا کرے جوبھی ہوبہتر ہی ہو کیونکہ اس وقت ہم انتہائی غیریقینی صورتحال سے دوچار ہیں قادری صاحب کے مخالفین نے میڈیا پراپنی پوری قوتیں صرف کردی ہیں اور وہ قادری صاحب کی پرانی کیسٹیں نکال کر لے آئے ہیں جنہیں نشرمکرر کے طور پر چلابھی رہے ہیں ادھر میاں نوازشریف صاحب بھی ایکٹیو ہوگئے ہیں اور انہوں نے فرمایاہے کہ یہ سارالانگ مارچ صرف ان کیخلاف ہے اور ان کے ووٹ بینک پر نقب لگانے کیلئے کیاجارہاہے کیونکہ انہوں نے پنجاب کے ضمنی انتخاب میں جھنڈے گاڑدیئے ہیں اورآئندہ ہونے والے انتخابات کے نتائج کی جھلکیاں دکھادی ہیں میاں صاحب کی اس بات میں کافی وزن ہے اورحیرت کی بات یہ ہے کہ سیدخورشیدشاہ نے کہا ہے کہ وہ لانگ مارچ والوں کواسلام آباد میں کمبل مہیاکریں گے مجھے فکر ہے کہ کہیں لانگ مارچ والے خود ہی کمبل نہ ہوجائیں اورپھرشاہ صاحب کو کہنا پڑے کہ میں تو کمبل سے جان چھڑاتاہوں کمبل نہیں چھوڑتا بڑے مزے کے سیاسی دن آنے والے ہیں الطاف بھائی کا ڈرون میاں صاحب کے ووٹ بینک کی نقب زنی کی واردات‘ قادری صاحب کالانگ مارچ‘ سونامی کی خاموشی‘ دفاع پاکستان کونسل کاواویلا‘ اسلامی جماعتوں کی تنقید یہ سب عقدہ 10 جنوری سے 14 جنوری تک کھل جائے گا اور لوگ دیکھ لیں گے کہ بدلتاہے رنگ آسماں کیسے کیسے بہرحال میری یہ دعا ہے کہ جو بھی ہو پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری کیلئے ہو محمود اچکزئی کا بیان پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی آفر کی قبولی کیلئے آج کل زیربحث ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ محمود صاحب بھی ہمیشہ وقت گزرنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں اب اللہ بہتر جانتاہے کہ وقت گزرگیا ہے یاابھی آیاہی نہیں آخر میں پروین شاکر کاشعرحسب حال ہے اور قارئین کی نذر ہے۔
دل عجب شہر کہ جس پربھی کھلادر اس کا
وہ مسافر اسے ہرسمت سے برباد کرے
تازہ ترین