روشنیوں کے شہر کراچی کی اندھیری سڑکوں پر نظر آنے والی موت ، ٹارگٹ کلرز، اُن کا خوف اور پھر موت کے سوداگروں کے انجام پر عکس بند کی گئی فلم ’’لال کبوتر‘‘ کی ملک بھر کے سنیما گھروں میں اونچی اُڑان جاری ہے ۔ ’’جیو ‘‘ اس فلم کا میڈیا پارٹنر ہے۔ کراچی کے معاشرتی مسائل پر بنائی جانے والی منفرد فلم نے ریلیز ہوتے ہی دھوم مچا دی ہے۔چھوٹے بجٹ کی بڑی فلم نے اوپننگ ویک اینڈ پر، سوا کروڑ روپے کا بزنس کرکے سنیما گھروں پر اپنا راج قائم کرلیا۔ ایکشن، کامیڈی اور تھرل کے مسالوں سے بھری اس فلم کی پروڈکشن، کامل چیمہ اور ہانیہ چیمہ کی کمپنی ’’نہر گھر ‘‘ کی ہے۔ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ بہن بھائیوں کی یہ پہلی فلم ہے۔ لالچ ، طاقت اور انتقام کی دلچسپ کہانی میں علی اکبر اور منشا پاشا مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کی جاندار اداکاری کو خوب سراہا جارہا ہے۔ علی عباس نقوی کی تحریر کردہ منفرد کہانی کو ایوارڈ یافتہ، ہدایتکار کمال خان نے ڈائریکٹ کیا ہے، جب کہ فلم کا میوزک طحہٰ ملک نے تشکیل دیا ہے۔ ہم نے گذشتہ ہفتے دھوم مچاتی فلم ’’لال کبوتر‘‘ کےہدایت کار اور فلم سازبہن بھائی سے ہلکی پھلکی گفتگو کی، ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کیا کہا، قارئین یہ جاننے کے بعد فلم ضرور دیکھیں گے۔
٭… کراچی کے معاشرتی مسائل پر فلم بنانے کا خیال کیوں آیا؟۔
کمال خان … طویل عرصے سے کراچی کے بدلتے حالات دیکھ رہے تھے۔ منفرد موضوع پر کام کرنا چاہتے تھے۔ ایک دن خیال آیا کہ اس وقت اگر کراچی کو ذہن میں رکھ کر کام کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ یہ تجربہ کام یاب رہا اور فلم توقع سے زیادہ کام یاب ہوئی، جس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔
٭… ایک کامیاب پروجیکٹ بنانا کتنا مشکل ہوتا ہے؟۔
کمال خان … اتنا مشکل کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں اتنا بڑا کام تنہا تو نہیں کرسکتا تھا،کام یابی کے لیے پوری ٹیم کا حصہ ہوتاہے، اس پروجیکٹ میں بھی ٹیم ورک سب سے نمایاں ہے۔ اس لیے یہ کہوں گا ،ہم سب نے مل کر ’’لال کبوتر‘‘ بنائی ہے، سب کی محنت اس میں شامل ہے اور بہت خوشی ہورہی ہے کہ عوام نے اس فلم کو بہت زیادہ پسند کیا۔
٭… فلم کی شوٹنگ کے دوران کسی ٹیم ممبر کے کام سے مایوس ہوئے؟۔
کمال خان … بالکل نہیں، ہمیں تو کام کرنے میں بہت مزہ آیا۔ دراصل پوری ٹیم نے فلم کے لیے بہت زیادہ ریہرسل کی تھی اس لئے ہم سب میں اتنی ذہنی ہم آہنگی ہوگئی کہ کہیں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ البتہ ایک دو سین تھے جہاں ہمیں 15 سے زیادہ بار، ری ٹیک کرنا پڑے۔
٭… ایک اچھی فلم بنانے میں کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؟۔
کمال خان … کسی بھی کام کو معیاری بنانے کے لیے ہر ایک کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ ٹیم میں شامل ہر فرد کی رائے کی اہمیت ہوتی ہے۔’’لال کبوتر‘‘ کے پروجیکٹ کے اختتام تک پروڈیوسرز سمیت ہر ایک کو شامل رکھا گیا اور جب آپ محنت، لگن سے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر اس کا نتیجہ بھی اچھا ہی نکلتا ہے۔
٭… ’’لال کبوتر‘‘ کی موسیقی کےبارے میں کچھ بتائیں؟۔
کمال خان … بات یہ ہے کہ ایشیائی فلموں میں میوزک کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، طحہ ملک نے اس فلم کیلئے انتہائی شاندار میوزک ترتیب دیا ہے جس کی میں ہی نہیں سب ہی تعریف کررہے ہیں۔
٭… اس فلم کو بنانے کے پیچھے مقصد کیا تھا؟۔
کمال خان … مقصد صرف پیسہ کمانا ہی نہیں ہوتا، ہم چاہتے تھے کہ فلم انڈسٹری کی بحالی میں اپنا حصہ بھی ڈالیں، اس کے لیے ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے۔ اگر آپ ’’لال کبوتر‘‘ کی گہرائی میں جائیں تو یہ کئی لیئرز پر مشتمل فلم ہے، جس میں بہت سے پیغام دیئے گئے ہیں۔
٭… کیا نئی فلم بنانے کا ارادہ ہے؟۔
کمال خان … پہلے ’’لال کبوتر‘‘ کی کامیابیاں سمیٹ لوں اس کے بعد جلد اگلی فلم پر کام کا آغاز کروں گا۔
٭… آپ دونوں کو ساتھ کام کرنے کا کب اور کیسے خیال آیا؟۔
کامل چیمہ … دراصل ہم بہن بھائی اسکول کے دور تک دوست نہیں تھے، کالج لائف شروع ہوئی تو وہاں ہمارا کوئی دوست نہیں تھا پھر ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے دوست بن گئے، جب دوست بنے توآگے بڑھنے کا عزم کیا اور زندگی میں کچھ کرنےکے لیے مل کر کام کرنے کا سوچا اور بہت سوچ بچار کے بعد اپنی ایک کمپنی ’’نہر گھر‘‘ کے نام سے بنائی ۔
٭… کمپنی کا نام ’’نہر گھر‘‘ رکھنے کی کوئی خاص وجہ؟۔
کامل … ہم لاہور میں رہتے تھے وہیں ہمارابچپن گزرا ہے۔ ہمارے گھر کے قریب ایک نہر گزرتی تھی۔ جب ہم نے اپنے کام کا آغاز کیا تو خیال آیا کیوں نہ ہم اپنی کمپنی کا نام ’’نہر گھر‘‘ رکھ لیں، یہ بہت منفرد ، دیسی اور انتہائی پرکشش نام ہے اور اس کیلئے ہم نے کئی لوگوں سے داد بھی وصول کی ہے۔
٭… آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بہت کم لوگ ہیں جو بیرون ملک سے واپس آتے ہیں، آپ کو وطن آکر فلم سازی کا خیال کیسے آیا؟۔
کامل … مجھے وطن واپس لانے میں میری بہن نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ دیارِغیر میں آپ کو غیروں کی طرح زندگی گزارنا پڑتی ہے، اپنا کلچر چھوڑ کر اُن کے رنگ میں رنگنا پڑتا ہے اور وہاں کا لائف اسٹائل اپنا کر اُن ہی کی طرح زندگی کو آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ لیکن کچھ بھی ہو، اپنا وطن تو اپنا ہی ہوتا ہے، ہر شخص اپنے دیس میں آکر آزاد پنچھی کی طرح گھومتا پھرتا ہے، اپنی مرضی سے اُٹھتا بیٹھتا ، جاگتا سوتا اور اپنی مرضی سے کام کرتا ہے۔ ہم بھی آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ اس لئے پیشہ وارانہ زندگی کیلئے بھی اپنا دیس سب سے پیارا ہے۔ ایک دن میری بہن نے کہا، کیوں نا ہم اپنے ملک میں جاکر کام کریں۔ میں نے جواباً کہا، تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ وہیں ہمیں اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ آئے گا۔
ہانیہ چیمہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئےکہا، بیرون ملک جانے سے پہلے ہی میں نےطے کرلیا تھا کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آنا ہے اورجوکچھ کرناہے، یہیں کرنا ہے۔ میں نیویارک میں بہت آسانی کے ساتھ شاندار نوکری کر سکتی تھی۔ لیکن نہ میں نے ایسا کیا اور نہ کامل کو کرنے دیا۔میں عمر میں کامل سےبڑی ہوں اس لئے فیصلوں کا اختیار بھی میرے پاس تھا، میں نے فیصلہ کیا جو کچھ کرنا ہے وہ اپنے وطن آکر ہی کرنا ہے۔ کامل نے میری رائے کو اہمیت دی۔
٭… فلم ہی بنانے کاکیوں سوچا؟۔
ہانیہ … دراصل فلموں میں میری بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ سنا ہے کہ جو کام دِل سے کیا جائے وہ اچھا ہوتا ہے، پھر فیصلہ کیا کہ فلم انڈسٹری کیلئے کچھ کرنا چاہئے۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں ، اُمید ہے کہ ہم اس انڈسٹری کی بحالی میں کسی حد تک اپنا کردارادا کرلیں گے، یہی سوچ کر اس انڈسٹری میں قدم رکھا اور پروڈکشن ہائوس قائم کیا ہے۔
٭… پروڈکشن ہائوس کھولنے کے لیے تو تجربہ درکار ہوتا ہے لیکن آپ تو نووارد ہیں؟
ہانیہ چیمہ… ہم نے ایک فلم پروڈیوس کی ہے تو کافی چیزوں کا اندازہ ہوگیا ہے،البتہ ایک چیز ہے جو ہمیں مشکل میں ڈال دیتی ہے وہ ہے ہماری چھٹی، ہم کئی برس سے مسلسل کام کررہے ہیں اس لئے اب تک ایک بھی چھٹی نہیں کی۔ زندگی میں آرام بھی ضروری ہے۔اس کے علاوہ تو مجھے یہی لگتا ہے کہ پروڈیوسرز کا کام زیادہ ٹیکنیکل نہیں ہوتا، نہ ہی اُنہیں بہت زیادہ باریکیوں میں جانا پڑتا ہے، البتہ ہدایتکار، ڈی او پی، سائونڈ ، ہدایت کار اِن سب کو تمام معاملات کو دیکھنا پڑتا ہے، جو واقعی بہت زیادہ کٹھن کام ہے۔
٭… بہت سی پروڈکشن کمپنیاں بند بھی ہوگئی ہیں، کیا یہ رسکی کام نہیں ہے؟۔
کامل … اگر ہمیں فلم انڈسٹری کو آگے لے کر جانا ہے تو کسی نا کسی کو تو رسک لینا پڑے گا۔ سو ہم نے لے لیا۔ ہمارے آنے سے پہلے کافی اُچھل کود والی فلمیں بن رہی تھیں، ہم نے سوچا کہ سب سے ہٹ کر منفردموضوع پرایسی فلم بنانی چاہئے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے۔ ہم نے ’’لال کبوتر‘‘ کا نام سوچا اور پھر اپنا کام شروع کردیا۔
٭… فلم کی کہانی کیلئے کراچی کا موضوع ہی کیوں چُنا ؟۔
ہانیہ … ہمارے ذہن میں فلم کی کہانی کیلئے کئی خاکے تھے، لیکن جب ہماری ملاقات ہدایتکار کمال خان سے ہوئی تو اُنہوں نے اپنی تجاویز دیں، مزید لوگوں سے ملاقات ہوئی تو کئی رائٹرز اور مل گئے۔ یوں سمجھ لیں کہ اس ایک کہانی کو 7 مختلف لوگوں نے مل کر لکھا ہے جس کا اسکرین پلے عباس نقوی نے فائنل کیا تھا۔ کب، کہاں، کیا کرنا ہے، عباس نقوی اور کمال خان نے مل کر طے کیا اور اِس بکھری ہوئی کہانی کو ’’لال کبوتر‘‘ کے ڈھانچے میں ڈھال دیا ، یوں یہ فلم آخری شکل میں بڑے پردے کی زینت بن گئی۔
٭… کیا کم بجٹ سے معیاری فلم بن سکتی ہے؟۔
کامل … جی بالکل بن سکتی ہے۔ اگر کہانی اچھی ہو، ڈائریکشن اچھی ہو، اداکاری اچھی ہو تو ٹیم ورک کے ذریعے آپ اچھی اور معیاری فلمیں بنا سکتے ہیں۔ فلم ’’لال کبوتر‘‘ آپ کے سامنے ہے جو عوام کو گھروں سے نکال کر سنیما گھروں تک کھینچ لائی ہے۔
٭… اداکاروں اور ہدایت کار کا انتخاب کیسے کیا؟۔
کامل … جب انسان اپنے کام سے مخلص ہوں تو پھر راستے خود ہی بن جاتے ہیں، یہی سب ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ سب سے پہلے تو ہم نے ایک اچھی کہانی کی تلاش شروع کی۔ اس کے بعد ہماری ملاقات فلم کے ہدایتکار کمال خان سے ہوگئی، اُنہوں نے اداکاروں سے ملاقات کرادی۔ اس دوران ہمیں خود غرض لوگ بھی ملے جو صرف اپنے مفاد کیلئے اپنی خدمات ہمیں دینا چاہتے تھے۔ لیکن ہم نے اُن کو نظر انداز کیا، کیونکہ ہم معیاری کام کرنا چاہتے تھے، ایسی کہانی لوگوں کے سامنے لانا چاہتے تھے جو نا صرف شعور دے بلکہ اس میں عوام کیلئے پیغام بھی ہو۔ کئی برس کی محنت کے بعد ہم نے ایک اچھی ٹیم تشکیل دی، خوب محنت سے کام کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری محنت کا نتیجہ سامنے آرہا ہے اور لوگ توقعات سے بڑھ کر ہماری حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔