یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ انسانی زندگی اور صحت کے لیے صاف پانی ناگزیر ہےکہ آلودہ، ناصاف پانی کے استعمال سے کئی طرح کے عوارض لاحق ہوسکتے ہیں، مثلاً ٹائی فائیڈ، ہیپاٹائٹس اے، ای، پولیو، اسہال اور ہیضہ وغیرہ۔ ناصاف، آلودہ پانی میں پایا جانے والا ایک بیکٹیریا ’’Salmonella Typhi‘‘ ہے، جو مُنہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر خون میں سرایت کر جائے، تو ٹائی فائیڈ کا مرض لاحق ہوجاتاہے اور متاثرہ فرد میں بخار کے ساتھ دیگر علامات بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ تاہم، مخصوص ادویہ کے استعمال کے بعد مریض صحت یاب ہوجاتاہے، لیکن آج صورتِ حال یہ ہےکہ کچھ عرصہ قبل تک ٹائی فائیڈ کے لیے جو اینٹی بائیوٹکس ادویہ استعمال ہورہی تھیں، اب وہ مؤثر نہیں رہیں کہ مرض کےوائرس نے ان ادویہ کے خلاف اپنے اندر مزاحمت پیدا کرلی ہے۔ طبّی اصطلاح میں اسے ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ (Extensively Drug-Resistant Typhoid) کہا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق صوبۂ سندھ میں نومبر 2016ءتا دسمبر 2018ء تک تقریباً 5674کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں 69فی صد (3658مریض) کراچی، 27فی صد (1405)، حیدرآباد ، جب کہ باقی 4فی صد مریض دیگر اضلاع کے شامل ہیں۔ عام ٹائی فائیڈ کے ایکس ڈی آر میں تبدیل ہوجانے کی سب سے بڑی وجہ اینٹی بائیوٹکس کاغلط اور غیرضروری استعمال، سیلف میڈی کیشن اور معالج کی ہدایت کے مطابق ادویہ استعمال نہ کرنا ہے۔
عمومی طور پر ٹائی فائیڈ کا بیکٹریا جب جسم میں داخل ہوتا ہے، تو تقریباً7سے14روز بعدعلامات ظاہر ہوتی ہیں، جن میں سرِفہرست بخارہے۔ عموماً مریض کے جسم کا درجۂ حرارت مستقلاً 100، 101 یا پھر 102ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اور بعض اوقات تو 103، 104 تک بھی پہنچ جاتا ہے۔زیادہ تر کیسز میں صُبح میں بخار کم، جب کہ شام میں بڑھ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، دیگر علامات میں جسم، پیٹ یا سَر میں درد، تھکاوٹ، بے چینی، قے، بھوک کم لگنا یا ختم ہو جانا وغیرہ شامل ہیں۔ بعض اوقات پیٹ اور سینے پر چھوٹے چھوٹے سُرخ نشانات بھی اُبھر آتے ہیں۔ اگر بیکٹریا، آنتوں میں زخم کردے، تو پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے اور ان سے خون بھی رستا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی قے بھی ہوسکتی ہے اور یہی خون پاخانے کے ذریعے بھی خارج ہو سکتا ہے۔ مرض کی تشخیص کے لیے Typhidot اور widal کے ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔ رپورٹ مثبت ہو، تو پھر معالج مرض کی شدّت کے مطابق علاج کرتا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں علاج کے تیسرے ہفتے میں مدافعتی نظام بہتر ہونے کے باعث علامات کی شدّت میں کمی واقع ہوجاتی ہے، مگر عموماً ہوتا یہ ہے کہ اگر بخار کم ہونے لگے، تو ادویہ کا استعمال ترک کردیا جاتا ہے، لیکن اس صورت میںچند وائرس جسم میں رہ جائیں، تو نہ صرف دوبارہ ٹائی فائیڈ کا حملہ ہوسکتا ہے، بلکہ ایسے مریض دیگر افراد میں بھی مرض منتقل کرنے کا سبب بن جاتےہیں۔ طبّی اصطلاح میں انہیں کیرئیرز کہاجاتا ہے، لہٰذا معالج کی ہدایت پر علاج کا دورانیہ لازماً مکمل کیا جائے۔
ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کسی بھی موسم میں ہر عُمر کے افراد کو اپنا شکار بناسکتا ہے۔ تاہم، بچّے اور عُمر رسیدہ افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کا مدافعتی نظام نسبتاً کم زور ہوتا ہے۔ طبّی ماہرین نے اینٹی بائیوٹکس سے مزاحمت کی بنیاد پر ٹائی فائیڈ کی درجہ بندی کی ہے، جس کے مطابق عام ٹائی فائیڈ میں فرسٹ ، سیکنڈ اور تھرڈ جنریشن سے تعلق رکھنے والی اینٹی بائیوٹکس اثراندازہوتی ہیں۔ ایم ڈی آر ٹائی فائیڈ (Multi Drug Resistant Thyphoid، فرسٹ لائن اینٹی بائیوٹکس اور دیگر ادویہ کے خلاف اپنے اندر مزاحمت پیدا کرلیتاہے، جب کہ ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ تمام اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیکٹریا اپنے اندر مزاحمت کیوں پیدا کرلیتے ہیں، تو اصل میں جراثیم میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ بعض جراثیم میں مرکزے کے علاوہ اضافی ڈی این اے کے گول اجسام پائے جاتے ہیں، جنہیں طبّی اصطلاح میں پلازمڈ (Plasmid) کہا جاتا ہے۔اگر ان پلازمڈ میں اینٹی بائیوٹک مزاحم جین موجود ہو، تو خلیہ بھی یہی خصوصیات ظاہر کرے گا۔ اگر یہ پلازمڈ ایک سے دوسرے جرثومے میں منتقل ہوجائے، تو اس خلیے کو بھی اینٹی بائیوٹک مزاحم خصوصیات کا حامل بنادیتا ہے۔ علاوہ ازیں، بعض جراثیم"Efflux pumps"کے ذریعے بھی اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیتے ہیں۔ قدرتی طور پر ہمارے جسم میں پائے جانے والے بعض مادّے مثلاً Bacteriocin وغیرہ جراثیم سے تحفّظ فراہم کرتے ہیں، جب کہ بعض وٹامنز مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مستند معالجین ہمیشہ اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ وٹامنز پر مشتمل ادویہ بھی تجویز کرتے ہیں۔
ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ سے بچائو کے کئی طریقے ہیں۔ مثلاً صاف پانی کی فراہمی، وہ مریض جو کیرئیر ہیں، اُن تک رسائی( تاکہ علاج کروایا جاسکے)،حفظانِ صحت کے اصولوں پر مکمل عمل، کھانے پینے کی اشیاء ڈھک کر رکھنا، آئس پلانٹس کو صاف پانی استعمال کرنے کی ہدایت، بچّوں، بڑوں کی ویکسی نیشن اور اگر گھر میں واٹر فلٹر نہیں ہے، تو پانی اُبال کر پئیں یا پھر کسی اور طریقے سے پانی صاف کریں۔ سیلف میڈی کیشن کی بجائے ہمیشہ معالج کی ہدایت کے مطابق ادویہ استعمال کریں اور رفع حاجت کے بعد ہاتھ اچھی طرح سے دھوئیں۔ نیز، ناخنوں کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھیں۔
(مضمون نگار،فیڈرل یونی ورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی،کراچی کے شعبۂ مائیکروبائیولوجی کے سابق چیئرمین ہیں)