• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوبی پنجاب کا پہلا شیلٹر ہوم
ملتان کے جنرل بس اسٹینڈ کے قریب قائم شیلٹر ہوم کے باہر سیکیورٹی اہل کار پہرہ دے رہے ہیں

شگفتہ بلوچ، ملتان   

گھر، انسان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے، ہر طرح کے موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے والی ایک ایسی پناہ گاہ ہے، جس میں قدم رکھتے ہی یک گونہ طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ امیر ہو یا غریب، حاکم ہو یا محکوم، صبح سویرے سائیکل پر جانے والا دیہاڑی دار مزدور ہو یا لشکارے مارتی طویل کار میں سفر کرنے والا کوئی اعلیٰ افسر، دن بَھر کی تھکا دینے والی مصروفیات کے بعد بالآخر گھر کی جانب اس لیے دوڑتا ہے کہ یہ چار دیواری ہی وہ گوشۂ عافیت ہے کہ جہاں والدین اور بیوی بچّوں کی موجودگی اُسے اس قدر سکون، اطمینان اور راحت فراہم کرتی ہے کہ وہ ساری تھکاوٹ ، تمام بکھیڑے فراموش کر کے تازہ دَم ہو جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں ایسے بے شمار افراد بستے ہیں، جو گھر جیسی نعمت سے محروم ہیں ، جب کہ ایسے افراد بِلاشُبہ خوش قسمت ہیں کہ جنہیںاپنے پیاروں کے ساتھ ایک چھت تلے رہنا نصیب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس وقت 2کروڑ پاکستانیوں کے پاس اپنا گھر نہیں اور انہیں ذاتی رہایش گاہیں فراہم کرنے کے لیے 10لاکھ نئے مکانات تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ وسائل نہ ہونے کے سبب اس وقت بے شمار افراد کرائے کے گھروں میں رہایش پزیر ہیں، جب کہ معاشی مسائل، والدین کی بے جا سختی یا ناقص تربیت کے سبب بچّوں کی ایک کثیر تعداد سڑکوں پہ سونے پر بھی مجبور ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اس وقت تقریباً 1.5فی صد پاکستانی بچّے گلیوں کے مکین ہیں۔ ان اسٹریٹ چلڈرن میں سے زیادہ تر ناخواندہ یا بعض پرائمری پاس ہیں۔ معاشی و سماجی مسائل کے علاوہ مُلک میں وقتاً وقتاً آنے والی قدرتی آفات بھی لوگوں کو چھتوں سے محروم کرنے کا ایک بڑا سبب ہیں۔ مثال کے طور پر 2005ء کے خوف ناک زلزلے نے بے شمار افراد کو بے گھر کر دیا تھا۔ نیز، شمالی علاقہ جات میں کم و بیش ہر سال آنے والے سیلاب بھی بے شمار خاندانوں سے اُن کا سائبان چھین لیتے ہیں، جب کہ اعداد و شمار کے مطابق، 1980ء کے بعد سے پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر سونے پر مجبور ہے۔

دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد جب روزگار کی تلاش میں مُلک کے بڑے شہروں کا رُخ کرتے ہیں، تو مختلف مزارات، پارکس اور پُلوں کے نیچے اپنا ٹھکانا بنا لیتے ہیں ۔ موسم کی سختیاں اور آنے جانے والوں کی جھڑکیاں برداشت کرتے ہیں۔ یخ بستہ راتوں میں جب دوسرے شہری اپنے گھر کی چار دیواری میں گرم بستروں میں نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں، تو یہ بے خانماں افراد کُھلے آسمان تلے ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں اور اگر ایسے میں مینہ برسنے لگے، تو ان کی اذیّت مزید بڑھ جاتی ہے۔ بے گھر و بے سہارا افراد کی ان ہی مشکلات کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان کی ہدایت پر پنجاب کے تمام اضلاع میں ’’شیلٹر ہومز‘‘ کی تعمیر کے منصوبے پر کام شروع ہو چُکا ہے۔ ابتدائی طور پر صوبے کے تمام بڑے شہروں میں بے گھر افراد کو پناہ دینے کے لیے خیمے لگا دیے گئے ہیں اور شیلٹر ہومز کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ حکومتِ پنجاب نے ضلع ملتان میں جنرل بس اسٹینڈ کے قریب ایک شیلٹر ہوم قائم کیا ہے، جس میں 150افراد کے قیام کی گنجایش ہے۔ ضلع ملتان کی کُل آبادی 47,45,109نفوس پر مشتمل ہے، جس میں 24,37,412مَرد، 23,07,504 خواتین اور 193خواجہ سرا شامل ہیں۔ ملتان کی56فی صد آبادی دیہی علاقوں اور 44فی صد شہری علاقوں میں مقیم ہے۔ گرچہ ملتان میں موجود بے گھر افراد کے دُرست اعداد و شمار دست یاب نہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق، ان بے خانماں افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے ، جن میں 20فی صد اسٹریٹ چلڈرن بھی شامل ہیں۔

ملتان میں خیمے میں قائم کیا جانے والا شیلٹر ہوم جنوبی پنجاب میں بے گھر افراد اور مسافروں کی پہلی پناہ گاہ ہے۔ موسم کی شدّت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ ایک اعلیٰ معیار کا خیمہ ہے، جس میں معیاری فرنیچر بھی موجود ہے۔ نیز، شیلٹر ہوم میں بستر کے علاوہ مفت کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ پناہ گاہ کا افتتاح ڈپٹی کمشنر ملتان، مدثّر ریاض نے فیتہ کاٹ کر کیا۔ اس موقعے پر وزیرِاعلیٰ پنجاب، عثمان بُزدار کے معاونِ خصوصی، حاجی جاوید اختر انصاری اور ارکانِ صوبائی اسمبلی، ندیم قریشی، ظہیر الدّین علیزئی اور اعجاز جنجوعہ سمیت سول سوسائٹی کے نمایندے بھی موجود تھے۔ افتتاح کے بعد ڈپٹی کمشنر ملتان نے بے گھر افراد سے ملاقات کی اور اُن کے ساتھ کھانا بھی کھایا۔ اس دوران گفتگو کرتے ہوئے مدثّر ریاض کا کہنا تھا کہ ’’وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ملتان میں جنوبی پنجاب کا پہلا شیلٹر ہوم قائم کر دیا گیا ہے۔ اگلے مرحلے میں ریلوے اسٹیشن اور قلعہ کُہنہ قاسم باغ کے احاطے میں دو مزید شیلٹر ہومز قائم کیے جائیں گے، تاکہ مستحق افراد کو سردی، گرمی اور بارش سے بچائو کے لیے چھت فراہم کی جا سکے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ پناہ گاہوں میں خواتین اور بچّوں کے تحفّظ کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جائیں گے ۔ نیز، مسافروں کی حفاظت کے پیشِ نظررجسٹریشن کے عمل میں بھی کڑی چھان بین کی جا رہی ہے۔‘‘ اس موقعے پر معاونِ خصوصی برائے وزیرِ اعلیٰ پنجاب، جاوید اختر انصاری نے کہا کہ ’’حکومتِ پنجاب نے بے گھر افراد کے قیام وطعام کے لیے ملتان میں شیلٹر ہوم قائم کر کے انقلابی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے اور مستقبل میں بھی عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے جاری رہیں گے۔‘‘

جنوبی پنجاب کا پہلا شیلٹر ہوم
چھت سے محروم افرادکے لیے رات گزارنے کا باعزّت ٹھکانہ

 سروے کے دوران شیلٹر ہوم کے شفٹ انچارج، آصف اعوان نے بتایا کہ ’’جب سے یہ شیلٹر ہوم آباد ہوا ہے، یہاں روزانہ 20سے 25افراد آرہے ہیں۔ ان میں وہ مزدور، مسافر اور مریض شامل ہیں، جو دوسرے شہروں سے ملتان آتے ہیں اور یہاں چند روز قیام کرتے ہیں، جب کہ اکثریت جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع سے مزدوری کے لیے آنے والے محنت کَش افراد کی ہے، جو کام ختم ہونے کے بعد اپنے آبائی علاقوں کی طرف واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ محنت کَش دن بَھر مزدوری کرنے کے بعد شام کو یہاں آتے ہیں، رات بسر کرتے ہیں اور پھر صبح ناشتا کر کے دوبارہ کام پر چلے جاتے ہیں۔ شیلٹر ہوم میں آنے والی دوسری بڑی تعداد اُن مسافروں کی ہے، جو علاج معالجے یا کسی دوسرے ضروری کام کی غرض سے ملتان کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ بھی رات یہاں بسر کرتے ہیں اور صبح اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں شفٹ انچارج نے بتایا کہ ’’شیلٹر ہوم میں موجود افراد کو ناشتے میں انڈا، پراٹھا اور چائے پیش کی جاتی ہے، جب کہ رات کے کھانے میں چکن پلائو، بیف پلائو، کوفتے اور روٹی سے تواضع کی جاتی ہے۔ چُوں کہ دوپہر کے وقت افراد کی تعداد کم ہوتی ہے، لہٰذا فی الوقت یہاں ناشتا اور رات کا کھانا ہی فراہم کیا جا رہا ہے۔ شیلٹر ہوم میں روزانہ صبح اور شام کے وقت کھانے کی ایک دیگ آتی ہے، جس کا خرچہ شہر کے مخیّر افراد اُٹھاتے ہیں۔ چُوں کہ آگہی نہ ہونے کے سبب فی الوقت یہاں آنے والے افراد کی تعداد کم ہے، لہٰذا ایک دیگ کافی ہوتی ہے، لیکن اگر کسی روز تعداد زیادہ ہو، تو پھر مزید کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔‘‘شیلٹر ہوم کی سیکوریٹی سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں آصف اعوان نے بتایا کہ ’’سول ڈیفینس کے تین اہل کار ہمہ وقت گیٹ پر پہرہ دیتے ہیں۔ یہاں رات بسر کرنے کے لیے آنے والے افراد کی باقاعدہ تلاشی لی جاتی ہے۔ بعدازاں، رجسٹر میں اُن کے ضروری کوائف درج کیے جاتے ہیں اور پھر عملہ اُن کا اصل قومی شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیتا ہے، جسے شیلٹر ہوم سے روانہ ہوتے وقت لوٹا دیا جاتا ہے، البتہ صرف کھانا کھانے کے لیے آنے والے افراد سے اُن کا سی این آئی سی نہیں لیا جاتا۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’شیلٹر ہوم میں دوسرے شہروں سے آنے والے افراد کو رہایش کی سہولت دی جاتی ہے، جب کہ مقامی بے گھر افراد کو قیام کی اجازت نہیں۔نیز، مَرد مسافروں کے ساتھ تو اکثر خواتین اور بچّے آتے رہتے ہیں، لیکن کوئی تنہا خاتون کبھی یہاں نہیں آئی۔‘‘

جنوبی پنجاب کا پہلا شیلٹر ہوم
بے گھر افراد اور مسافروں کے لیے ناشتے، رات کے کھانے کا انتظام

شیلٹر ہوم کے سروے کے دوران وہاں موجودافراد سے بھی بات چیت ہوئی، توان کا کہنا تھا کہ بے تحاشا مہنگائی کے اس دَور میں وہ پنجاب حکومت کی جانب سے شیلٹر ہوم فراہم کرنے پر وزیرِاعلیٰ، عثمان بُزدار کے بے حد شُکر گزار ہیں۔ ان میں صدیق قادر اور محمد اعجاز بھی شامل تھے، جو چاہ جاڑے والا، شجاع آباد کے رہائشی اور پیشے کے اعتبار سے تاجر ہیں۔ انہیں ضروری کام سے اسلام آباد جانا تھا۔ سفر ہی میں رات ہو گئی، تو انہوں نے ملتان کے شیلٹر ہوم میں شب بسر کرنے کا فیصلہ کیا اور صبح ناشتا کرنے کے بعد اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ ہم سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم، عمران خان کی ہدایت پر مسافروں کے لیے تعمیر کیا گیا یہ شیلٹر ہوم کسی نعمت سے کم نہیں۔ غریب اور سفید پوش طبقے کو، جو دورانِ سفر اپنے قیام و طعام کا بندوبست نہیں کر سکتا، مفت رہایش اور کھانے کی فراہمی خوش آیند ہے۔ شیلٹر ہوم میں رات بسر کرنے والوں میں زیادہ تر مزدور پیشہ افراد تھے۔ ان میں سے محمد اقبال، بستی مزاراں، بہادر پور، محمد شفیع، جلال پور، پیر والا، پرویز خان، راجن پور، مجید شاہ، شجاع آباد، محمد اصغر، مظفر گڑھ، محمد امین، احسن والا، ڈی جی خان اور فقیر حسین، میاں چُنّوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ہم سے بات چیت میں ان تمام مزدوروں کا کہنا تھا کہ ان کا کوئی مستقل ذریعۂ آمدن نہیں ۔ پہلے جس روز دیہاڑی نہیں لگتی تھی، اُس روز وہ خالی پیٹ ہی کسی مزار یا باغ میں یا سڑک کنارے سو جاتے تھے۔ تاہم، اب شیلٹر ہوم میں وہ پیسے ادا کیے بغیر ہی پیٹ بَھر کر کھانا کھا لیتے ہیں اور رات بھی عزّت سے بسر کرتے ہیں ، جب کہ ناشتا کرنے کے بعد کام پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ یوں کھانے کی مَد میں رقم خرچ نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی اچّھی خاصی بچت ہو جاتی ہے۔ اس موقعے پر فقیر حسین نے جھولی اُٹھا کر وزیرِ اعظم کو دُعائیں دیتے ہوئے کہا کہ’’عمران خان کے اس منصوبے کی وجہ سے اب ہمیں خالی پیٹ کُھلے آسمان تلے نہیں سونا پڑتا۔ پیٹ بھرا ہونے کے باعث نیند بھی خُوب آتی ہے اور صبح تازہ دَم ہو کر مزدوری پر جاتے ہیں۔‘‘ مجید شاہ نے بتایا کہ ’’ مَیں شجاع آباد کا رہائشی ہوں۔ ہفتے میں پانچ روز ملتان میں مزدوری کرتا ہوں اور دو دن اپنے آبائی شہر میں اہلِ خانہ کے ساتھ گزارتا ہوں۔ مَیں شیلٹر ہوم میں ناشتا کر کے کام کے لیے روانہ ہوتا ہوں اور یہیں رات کا کھانا کھا کر سو جاتا ہوں۔‘‘

جنوبی پنجاب کا پہلا شیلٹر ہوم
ملتان آنے والے مسافروں کے اہلِ خانہ بھی پناہ گاہ میں قیام کر سکتے ہیں

ملتان میں جنوبی پنجاب کے پہلے شیلٹر ہوم کا قیام خوش آیند ہے، لیکن شہر میں موجود لاکھوں بے گھر اور بے سہارا افراد کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مزید شیلٹر ہومز تعمیر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ گرچہ حکومت نے ریلوے اسٹیشن اور قلعہ کُہنہ قاسم باغ کے قریب مزید 2شیلٹر ہومز تعمیر کرنے کا عندیہ دیا ہے، لیکن شہر میں بے خانماں افراد کی تعداد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 3شیلٹر ہومز بھی ناکافی ہیں، لہٰذا شاہ رُکنِ عالم، بوسن روڈ اور دیگر علاقوں میں بھی ایسی پناہ گاہیں تعمیر کی کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ مستحق افراد ان سے استفادہ کر سکیں۔ عدم آگہی اور دُور واقع ہونے کے سبب جنرل بس اسٹینڈ کے قریب واقع شیلٹر ہوم اپنے قیام سے لے کر اب تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا اور اس کی موجودگی میں بھی متعدد بے گھر افراد یخ بستہ راتوں اور برسات میں کُھلے آسمان تلے سوتے پائے گئے۔ پھر اس شیلٹر ہوم میں صرف دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو قیام کی سہولت دست یاب ہے، جو ملتان کے غریب و نادار افراد کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ نیز، اگر چھت سے محروم افراد یہاں قیام نہیں کر سکتے، تو پھر اس پناہ گاہ کے قیام کا کیا فائدہ۔ ہر چند کہ ناگہانی صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے شیلٹر ہوم میں ایک ایمبولینس موجود ہے، لیکن یہاں ہمہ وقت ڈاکٹر کا موجود ہونا بھی لازمی ہے، تاکہ کسی مریض کو بروقت طبّی امداد دی جا سکے۔ پھر ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ خیمے کی مدد سے بنایا گیا یہ شیلٹر ہوم پُختہ عمارت میں کب تبدیل ہو گا۔ خیال رہے کہ چند ہفتوں بعد ملتان میں موسمِ گرما شروع ہونے والا ہے۔ اس دوران شہر میں شدید گرمی پڑتی ہے اور ایسے میں یہ خیمہ نما شیلٹر ہوم یہاں مقیم افراد کو تپش سے نہیں بچا پائے گا، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ لاہور اور راول پنڈی کی طرح ملتان کے مذکورہ شیلٹر ہوم کو ہنگامی بنیادوں پر پُختہ عمارت میں تبدیل کرے اور شہر کے دیگر مقامات کے علاوہ جنوبی پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی جلد از جلد باقاعدہ شیلٹر ہومز تعمیر کیے جائیں۔

تازہ ترین