• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے پانچ برس میں دولت اسلامیہ نامی جنگ جو تنظیم جسے دوسرے الفاظ میں داعش یا دولت اسلامیہ عراق و شام بھی کہا جاتا ہے ، عراق و شام میں خوب تباہی مچائی۔ اس تباہی میں ان کے ساتھ کچھ خواتین بھی شامل ہوگئیں۔ ایسی ہی ایک خاتون کا نام شمیمہ بیگم ہے جو برطانیہ سے نکلیں اور براستہ ترکی جاکر دولت اسلامیہ سے مل گئیں۔ اب اس جنگ کے اختتامی مراحل میں جب داعش کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے، شمیمہ برطانیہ واپسی کی خواہش مند ہیں اور ان کے شوہر چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اور اہلیہ ہالینڈ میں رہیں۔

شمیمہ بیگم کے شوہر ہالینڈ کے شہری ہیں، اس وقت ان کی عمر ستائس سال ہے یعنی جب پانچ یا سات سال پہلے وہ داعش میں شامل ہوئے تو اس وقت ان کی عمر بہ مشکل بیس یا بائیس برس ہوگی۔ ستائیس سالہ گوریڈیک اس وقت شمال مشرقی شام میں ایک کُرد حراستی مرکز میں قید ہیں۔ اب اگر یہ دونوں میاں بیوی برطانیہ یا ہالینڈ جانے میں کام یاب ہو بھی جاتے ہیں تو ان دونوں کو کئی برس کی قید کا سامنا کرنا ہوگا۔

ان جیسے کئی جوڑے داعش کے جھانسے میں آکر لڑنے محاذ جنگ پر چلے گئے تھے، مگر اب وہ کہتے ہیں کہ، انہوں نے داعش کو مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے، گوکہ اس کی کوشش وہ پہلے بھی کرچکے تھے، مگر داعش نے انہیں نکلنے نہیں دیا تھا مگر اب چونکہ داعش عملی طور پر مفلوج ہوچکی ہے اور اس کے جنگ جو یا تو مارے گئے یا تائب ہوچکے ہیں اس لئے یہ لوگ بھی اب اپنی پرانی زندگی میں لوٹ جانا چاہتے ہیں۔اسی طرح کے یورپی مرد و خواتین داعش میں شامل تو ہوگئے، لڑتے بھی رہے ،مگر ان کا اب کہنا ہے کہ، داعش کے رہ نمائوں نے ان پر کبھی بھروسہ نہیں کیا اور انہیں یورپ یا امریکا کے جاسوس سمجھتے رہے۔

اگر صرف شمیمہ بیگم ہی کی مثال لی جائے تو معلوم ہوتا ہے اس طرح کی خواتین ابھی نوعمر ہی تھیں کہ ایک طرح کی انقلابی رومانیت کا شکار ہوگئیں۔ شمیمہ بیگم اس وقت صرف انیس سال کی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ چھوڑتے وقت وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ برس کی ہوں گی۔ ان کا ٹھکانہ آخر میں باغوز نامی شہر تھا ،جہاں وہ رقہ سے فرار ہوکر پہنچے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ رقہ میں انتہا پسندوں نے انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا ،حالاں کہ وہ خود اپنی یورپ کی پرسکون زندگی چھوڑ کر باغیوں میں شامل ہوئے تھے۔

رقہ کے بعد داعش کا آخری پڑائو باغوز میں تھا، جہاں گوریڈیک نے خود کو شامی جنگ جوئوں کے رحم اور کرم پر پایا، جب کہ اس کی اہلیہ شمیمہ بیگم اپنے نومولود بچے کے ساتھ ایک پناہ گزین کیمپ میں پہنچ گئی تھیں، وہاں سے انہیں ایک نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے جنگ جو محاذ جنگ سے بھی نوعمر لڑکیوں سے شادی کرنے سے دریغ نہیں کرتے کیوں کہ وہ لڑکیاں خود اس مقصد کے لئے خود کو پیش کردیتی ہیں۔خود شمیمہ بیگم کے اعترافی بیان کے مطابق جب وہ پندرہ سال کی عمر میں داعش میں شامل ہوئیں تو انہوں نے جنگ جو رہ نمائوں سے درخواست کی کہ ان کا نکاح کسی بھی مرد سے پڑھا دیا جائے ،جس پر ان کی پہلی شادی ہوئی مگر شوہر لڑتے ہوئے مارا گیا پھر ان کے یہاں ولادت ہوئی تو بچہ بھی کافی دیکھ بھال اور دوائوں کی عدم دست یابی کے باعث بیمار ہوکر مرگیا ۔ ان کی دوسری بار شادی کی گئی اب شمیمہ بیگم کہتی ہیں کہ انہوں نے بہت جلدی کی اگر وہ شادی نہ کرتیں تو صورت حال مختلف ہوتی۔اب ان کو اس بات پر دکھ ہے کہ ان کی تصاویر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں گردش کررہی ہیں ۔ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کا انہوں نے اندازہ نہیں لگایا تھا۔ اس طرح کی خواتین کی ایک مجبوری یہ ہے کہ اب انہیں کوئی ملک تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ شمیمہ بیگم کے والدین بنگالی ہیں، جو عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور برطانیہ ہی میں شمیمہ کی ولادت ہوئی۔ اب جب برطانیہ نے شمیمہ کی شہریت منسوخ کی تو اعلان کیا کہ چوں کہ شمیمہ کی والدہ اب بھی بنگلہ دیش کی شہریت رکھتی ہیں اس لئے شمیمہ بھی بنگلہ دیش جاسکتی ہیں۔

ادھر بنگلا دیش نے اعلان کیا شمیمہ بیگم بنگلا دیش کی شہری نہیں ہیں اس لئے وہ بنگلا دیش نہیں آسکتیں اور اگر انہوں نے آنے کی کوشش کی تو انہیں ملک میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا فوری طور پر واپس بھیج دیا جائے گا۔

شمیمہ کا خاندان اس کوشش میں ہے کہ برطانیہ کی وزارت داخلہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ شمیمہ بیگم کی شہریت منسوخ کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرکے انہیں برطانیہ آنے کی اجازت دے۔ برطانیہ کے وزیر داخلہ اس سلسلے میں اب تک بڑی سختی سے کام لے رہے ہیں اور شمیمہ کے خاندان کی درخواست پر عمل نہیں کررہے۔

برطانیہ کی حزب مخالف پارٹی لیبر پارٹی کے رہ نما جیرمی کورین نے اس سلسلے میں نرمی سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شمیمہ جب برطانیہ سے گئی تھی تو ناسمجھ تھی اب اتنے تجربات کے بعد وہ درست راستے پر آگئی ہوگی۔

ادھر ہالینڈ نے شمیمہ کے شوہر گوریڈیک کی شہریت منسوخ نہیں کی ہے، اس لئے اس جوڑے کے ہالینڈ جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔

اسی طرح کا ایک اور قصہ ہدیٰ موتہانہ کا ہے جسے ’’دولت اسلامیہ کی دلہن‘‘ یا ’’داعش برائڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ امریکا کی شہری ہیں اور اب ان کے والد نے اپنی بیٹی کے امریکا واپسی کے لئے مقدمہ کیا ہے۔ ہدیٰ موتہانہ بھی شمیمہ کی طرح فرار ہوکر داعش میں شامل ہوگئی تھیں۔ احمد علی موتہانہ جو ہدیٰ کے والد ہیں ایک مقدمہ دائر کرچکے ہیں، جس میں انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ہدیٰ کی شہریت منسوخ کرنے کی غیرقانونی کوشش کی ہے۔

ہدیٰ ایک طالبہ تھی، مگر اب وہ نہ صرف تائب ہوچکی ہے، بل کہ امریکا واپس آکر اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرنے پر بھی تیار ہیں لیکن صدر ٹرمپ نے ان کا امریکا میں داخلہ روکنے کے احکام جاری کئے ہیں، کیوں کہ انہیں خدشہ یہ ہے کہ ہدیٰ ایک بار پھر داعش کے لئے پروپیگنڈہ شروع کردے گی۔

امریکی ریاست الابامہ سے تعلق رکھنے والی ہدیٰ بھی صرف انیس سال کی عمر میں پڑھائی چھوڑ کر کالج سے فیس کی رقم واپس لے کر امریکا سے فرار ہوگئی تھی اور اس کی خبر اپنے والدین کو بھی نہیں دی تھی۔

اب پانچ سال بعد ہدیٰ ڈیڑھ سال کے بچے کی ماں ہے۔ وہ اور اس کا خاندان اب ہدیٰ کو امریکا واپسی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان پر مقدمات چلائے جاسکتے ہیں لیکن ان کی امریکا واپسی کو نہیں روکا جاسکتا۔ برطانوی وزیر داخلہ کی طرح امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک یومیبو کا کہنا ہے کہ ہدیٰ کو کوئی حق نہیں کہ وہ امریکی پاسپورٹ یا ویزے کا مطالبہ کریں۔ ہدیٰ کے والد یمن سے تعلق رکھتے تھے اور اقوام متحدہ کے سفارت کار تھے۔ یاد رہے کہ 2004ء میں امریکا نے ہدیٰ کو امریکی شہری تسلیم کرتے ہوئے پاس پورٹ جاری کیا تھا جب وہ صرف نو برس کی تھیں اور اس کی پیدائش بھی امریکا میں ہوئی تھی۔

شمیمہ کی طرح ہدیٰ بھی اس وقت ایک پناہ گزین کیمپ میں ہیں انہوں نے بھی شمیمہ کی طرح ایک سے زیادہ شادیاں کیں مگر اب اپنے کئے پر تائب ہیں۔

اس طرح کے واقعات مسلمان گھرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ کیوں کہ اکثر مسلم والدین جو یورپ یا امریکا میں جاکر آباد ہوتے ہیں اپنے بچوں خاص طور پر لڑکیوں پر بے جا پابندیاں عائد کرتے ہیں جس سے بچیاں باغی ہوجاتی ہیں۔ جو والدین ماضی کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ امریکا اور یورپ کا رخ ہی نہ کریں۔

ایک طرف تو بچے مغربی معاشروں کی آزادی سے متاثر ہوتے ہیں اور دوسری طرف والدین ان آزادیوں پر قدغن لگاتے ہیں جس سے بچے باغی ہوکر گھروں سے بھاگنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات پاکستان جیسے ممالک میں بھی ہوتے ہیں ۔ ان کا حل صرف یہی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو گھٹن کے ماحول میں نہ رکھیں،تاکہ وہ گھروں سے بھاگنے پر مجبور نہ ہوں، ورنہ شمیمہ اور ہدیٰ کی طرح اور بہت سے بچے نہ اِدھر کے رہتے ہیں اور نہ اُدھر کے۔

تازہ ترین