• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی طور پر مقتدر اور ظاہری طور پر طاقتور مگر عملی طور پر بری طرح سے خوفزدہ اور زنگ آلود اقتداری حلقوں نے ملکی تاریخ کے صرف ایک عدد لانگ مارچ میں جس قدر رنگ بھرا اس کے نتیجے میں آج کا دن یوم حساب لگتا ہے۔
قیامت خیز بیانات ، ہلاکت خیز پیش گو ئیاں ، وحشت انگیز پیش بندیاں، کنٹینر ، کانٹے دار تاریں ، با وردی کھمبے ، تیز طرار سائرن ، سیٹیاں اور ادھر اُدھر بھاگتے ، سہمے ہوئے پیادے۔سب پریشانی، خوف اور چل چلاوٴ کی علامتیں ہیں ۔یہ تماشا میرے چیمبر کے عین سامنے ہو رہا ہے ۔ سامنے سے مراد 100فٹ چوڑی سروس روڈ کے دوسری طرف ڈی چوک ”میں“۔ میڈیا چینلز اور تجزیہ کار تو ایک طرف، عام آدمی بھی خاص آدمی کی طرح ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے کہ آج کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا جواب جاننے کے لئے آئیے کچھ انتہائیں جان لیں ۔ پہلی انتہا یہ ہے…اگر لانگ مارچ والے شارٹ کٹ لگا گئے اور ڈی چوک تک نہ آئے تو پھر آئین کی بالادستی، انصاف پرستی، جمہوریت اور اصولی موٴقف کو واک اووَر مل جائے گا ۔ اس بلامقابلہ کامیابی پر سب کو باری باری مبارک باد ۔ یوں شیر اور بکری ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر ایک ہی گھاٹ میں باری باری آب ِ حیات میں ڈُبکیاں لگائیں گے اور پاک سرزمین اس قدر محفوظ و مامون ہو جائے گی کہ پھر حلال ہونے کے باوجود نہ بکری کو کھائے جانے کا ڈر ہو گا، نہ شیر کو شیر ہونے کے باوجود بھگائے جانے کا خوف۔ دوسری انتہا…اگر وہ آ گئے تو پھر کیا ہو گا؟ مشہور زمانہ برگر مارچ کی طرح یہ سارا کچھ چند سو کیٹرنگ اور خشک چنے، پانی کے ٹرکوں اور ٹینکروں کا خرچہ ، ایک عدد تین چار روزہ دھرنا اور ویسا ہی منہ لے کر مسور کی دال جیسا موڈ بنا کر کوئک مارچ کرتے ہو ئے اپنے اپنے ٹھکانوں کو واپسی؟ یا کوئی تبدیلی؟ ممکنہ تبدیلی کیا ہو سکتی ہے؟
مگر وہ تبدیلیاں جو آبھی چکی ہیں ان کی طرف نہ جانے کیوں کوئی دھیان نہیں کرتا۔ ان میں سب سے پہلی تبدیلی ہر طرح کے مارچ کے شوقین مگر اس مارچ سے الَرجِک ”آزاد“ میڈیا کا عمومی روّیہ ہے ۔ جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مجھے ایک ممتاز ادارے کے بڑے اینکر کے ٹاک شو کے سینئر پروڈیوسر کا فون آیا جس کا نمبر میرے پاس محفوظ ہے۔ انہوں نے مجھے بھیگے بھیگے دسمبر میں گرما گرم مارچ کے داعی کے بارے میں لمبا لیکچر دیا اور بتایا کہ وہ کس قدر بے اعتبارے ، شرپسند ، جمہوریت دشمن ، خواب دیکھنے والے، عوام کُش ، سچ اور پاکستان مخالف ریکارڈ رکھتے ہیں۔ میں نے جب اُکتاہٹ سے سینئر پروڈیوسر سے پوچھا کہ مجھے یہ باتیں بتانے کا مطلب؟ یا اس الزام فروشی سے میری غرض؟ تو وہ اچانک چہک کر بولے کہ اگر آپ ان باتوں سے اتفاق کرتے ہیں تو ہم آپ کے خیالات ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا یہ آپ کے خیالات ہیں، میری رائے کو آپ میچ کی طرح فِکس نہیں کر سکتے۔ جب بو لوں گا تو خیالات کا اظہار بھی ہو جائے گا ۔ جس پر موصوف نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا”مجھے پہلے ہی پتہ تھا“ اور پھر پروگرام نہیں ہوا۔ اس تجربے کی روشنی میں، میں نے طے کر لیا کہ اب کسی پہاڑ پر چڑھنے والے کو یا غار میں بسنے والے کو شدت پسند نہیں کہوں گا۔ اس لئے میں آج اس مطالبے میں حق بجانب ہوں کہ پاکستان کی ریاست کو جہاں جہاں سے مذاکرات کی دعوت مل رہی ہے ان کے لئے گفتگو کے دروازے کھول دینے چاہئیں۔ اگر ملک کے اہلِ دانش کی سوچ کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی، خواہش یا ضرورت اور ایجنڈے کے علاوہ کسی کی بھی گفتگو ، تجزیہ یا رائے سننے کے لئے تیار نہیں ہیں تو ایسے سماج میں کسی اور کو شدت پسند کہنا سہیل وڑائچ کے بقول کھلا تضاد ہے۔
دوسری تبدیلی ، امن کی آشا کے گیت گانے والے اور بعض لوگوں کے موسٹ فیورٹ پڑوسی کی جانب سے 65 سالہ تاریخ میں چند ہفتوں کے اندر کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر تیز رفتار درجن بھر سرحدی خلاف ورزیاں ہیں۔ میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ایٹمی طاقت سے مسلح دو ملکوں کے درمیان یہ اشتعال انگیزی اور ان میں پاکستان کے جَری بیٹوں کی شہادت بلاوجہ ہے ۔ جنگ جواز ڈھونڈتی ہے، جواز نہ ہو تو اسے تراش لیا جاتا ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر سردخانے میں پڑا ہے۔ اس کے باوجود لائن آف کنٹرول کو ”اِن دی لائن آف فائر“ رکھ کر کشمیر کو پھر ”ہاٹ بارڈر“ بنانے کا کوئی تو مقصد ہو گا؟ یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مغربی بارڈر پر موجود نیٹو کے کمانداروں نے اپنے غیر نیٹو اتحادی ملک پاکستان کے مشرقی بارڈر کو متحرک کرنے والوں کے خلاف چُپ کیوں سادھ رکھی ہے؟
ہم بات کر رہے تھے ممکنہ تبدیلی کی…اس کے ایک پہلو پر اتنی گالم گلو چ نُما الزامات کی ٹریڈنگ ہو چکی ہے کہ اصلاح ِ معاشرہ کے اس عظیم کارِ خیر میں مزید حصہ نہیں ڈالا جا سکتا ۔ ویسے بھی مارگلہ کا شاہین جو آج کل ڈیزل ، پٹرول اور گیس و بجلی وغیرہ کی عدم موجودگی میں محض زور ِ بازو پر اڑ سکتا ہے اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ مارچ نُما دھرنا ضرور ہو گا…اور یہ بروزن ِ جلسہ کی طرح جلسی نُما دھرنی نہیں واقعی دھرنا ہو گا۔ جس کا سارا کریڈٹ بابا ہائے سیاست سے لے کر طفل ہائے جمہوریت تک کو جاتا ہے۔ جنہوں نے ”بلا معا وضہ“ جمہوریت کی تاریخی خدمت کی اور یہ خدمت اتنی بار کر چکے ہیں کہ اب انہیں بھی احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ قوم ان کی خدمات کے نتیجے میں کہیں رسی ہی نہ تڑوا بیٹھے۔ ہماری مصدقہ سرکاری تاریخ کے مطابق جس طرح دیبل کی بندرگاہ سے اٹھنے والی ایک مظلوم لڑکی کی آہ نے حجاز شریف پر حملہ کرنے والے حجاج بن یو سف کے گداز دل پر فو راً اثر کیا تھا بالکل اسی طرح سے جب ایران کے ”سرفروش“ تمن داروں کی طرف سے دارا کو شرپسند قرار دے کر اس کا سر نقرئی تھال میں رکھ کر سکندر ِ اعظم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو فوراً ٹیکسلا کے راجہ امبی نے اسے اپنی تلواروں، نیزوں، بھالوں اور چاقو چھری سمیت برصغیر ہند کے پُرامن دورے کی دعوت دے ڈالی تھی۔ یہ تو بھلا ہو پھوٹو ہاریوں کا جن کے ایک سپوت ”پورس خان“ کے کمانڈوز نے سکندر اعظم کو زہر آلود کلہاڑی مار دی ۔شاہی حکیموں نے بتایا کہ وہ اب زیادہ دیر زندہ نہیں رہے گا چنانچہ سکندر اعظم کی سرکاری تاریخ نے پوٹھو ہار کے جرأت مند فوجیوں کے حملے کو ملیریا کاحملہ قرار دے کر اسے ”مقدونیا“واپسی کا بہانا بنایا۔
آج کل اسلام آبا د میں دو رنگی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ ایک طرف ہر آدمی میڈیا میں غیر مقبول لانگ مارچ کے نامعلوم نتائج دریافت کرنے کی کو شش کر رہا ہے ۔دوسری طرف شاہین اسلام آباد کے راجہ امبی کی تلاش میں ہے جس نے سکندر ِ اعظم کو دعوت دینے کا مقدس فریضہ سر انجام دیا۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایٹمی اسلامی جمہوریہ کا نظام اس قدر ناتواں، کمزور ، کھو سٹ اور لاغر ہے کہ وہ محض ایک عدد لانگ مارچ کا وزن بھی نہیں سہار سکتا؟ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر نظام کی اووَر ہالنگ نہیں تبدیلی کی فوری ضرورت ہے۔
مو جو دہ وقت کا سکہ رائج الوقت فرضی ہے اس لئے فرض کریں کہ لانگ مارچ والے ہار گئے اور شارٹ کٹ والے جیت گئے۔ اگلا الیکشن ہو گیا تو اسمبلیوں میں کون آئے گا؟ وہ پڑھے لکھے نوجوان جو ملک کی 65فیصد آبادی ہے مگر اکثریت بے روزگار؟ پاکستان کے وہ ہاری جو صدیوں سے بے زمین ہیں؟ وہ کاشتکار جو صدیوں سے بے دخل ہیں؟ وہ مزدور جو صدیوں سے بیلچہ پکڑ کر زمین کا سینہ چیرتے ہیں؟ اور جنہیں کبھی اُجرت پسینہ سوکھنے کے بعد ملتی ہے اور کبھی خون تھوکنے کے بعد بھی نہیں ملتی یا وہ سرمایہ دار ، جا گیر دار اور چور بازار جن کی نسلیں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہو رہی ہیں؟ افغانستان کبھی مشرق کا سوئٹزرلینڈ تھا، آج کھنڈر ہے، سردار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اقتدار کی یکطرفہ ٹریفک کے شاہانہ بیڑے نے سماج کا بیڑہ غرق کر دیا اور آج سر کٹوانے والوں کی تیسری نسل تیار ہو چکی ہے ۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ پُرامن مارچ یاافغان ماڈل؟ لانگ مارچ والوں سے مجھے بھی اتفاق نہیں مگر کیا آپ یہ نہیں سو چتے
چلو اٹھو ، زمیں کھو دیں
اور اس میں ، اپنے دل بو دیں
اسے سینچیں پھر اپنی آرزووٴں کے پسینے سے
کہ اس بے رنگ جینے سے
نہ میں خوش ہوں ، نہ تم خوش ہو
تازہ ترین