تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی… بریڈفورڈ (قسط نمبر 34) الہاشمی ہوٹل کی چھت والا حصہ تو بہت ہی خوبصورت ہے بے شمار درخت اور ننھے ننھے پودے بہار پیدا کررہے ہیں ، ان پودوں کے درمیان آدمی خود کو بہت ریلیکس محسوس کرتا ہے ۔ چھت پر کھڑے ہوجائیں تودنیا کے ایک گنجان آباد، قدیمی اور تاریخی شہرکی حیثیت سے پورا یروشلم آپ کو نظر آتا ہے ۔ ہم شہر کے اس ماحول سے محظوظ ہورہے تھے کہ اچانک شمالی جانب عیسائی محلہ کی طرف نظر پڑی تواس جانب یروشلم شہر کامرکزی دروازہ ایسی طرز تعمیر سے سجا نظر آتا ہے جیسی طرز تعمیر یونانی دور میں ہوا کرتی تھی ، میں نے یہ منظر دیکھا تو بچپن کی ایک یاد نے انگڑائی لی ۔ عیسائیوں کا خط وکتابت سکول بحیثیت اقلیتوں کے ہمارے ملک میں جتنا احترام پایا جاتا ہے ۔ کسی پڑوسی ملک میں نہیں ملتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کو ثانوی حیثیت دی جائے اور اس کے بارے میں ہمارے ہاں کوئی انفعالی جذبات پرورش پائیں لیکن کچھ اقلیتیں اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں۔ایک اسلامی ملک میں ہر اقلیت اپنے مذہب ورسوم رواج پر آزادانہ عمل کرسکتی ہے لیکن وہ اہل اسلام میں کفر و ارتداد نہیں پھیلا سکتی ۔ہمارے شہر فیصل آباد کے مرکزی ایریا سرکلر روڈپر مسیحی اداروں کا تسلط ہے ، یہیں ان کا چرچ، کانونٹ سکول ، یونائیٹڈ کرسچین ہسپتال اور دیگر تبلیغی ادارے کام کررہے ہیں ۔ایک اسلامی ملک کے مسلمانوں کو عیسائیت کی تبلیغ ایسے درانہ طریقے سے کی جارہی ہے کہ ہردردمند دل اس پر کڑھتاہے حکمرانوں کی بے علمی اورجہالت کے باعث ارتداد کا فتنہ کافی رسوخ حاصل کرچکا ہے ، توریت ، انجیل مقدس اور صحائف انبیاء کے نام سے بائیبل کی تبلیغ پر کروڑوں روپیہ خرچ کرکے اہل اسلام کو اسلام سے باہر کرنے کا کام بڑی مستعدی اور غیر محسوس طریقے سے جاری ہے اور یہ کام ابھی تک ہورہا ہے اب ذرائع جدید اختیار کرلیے ہیں لیکن کام وہی ہے مسلمانوں میں اسلام کے خلاف تبلیغ کرنا اور انہیں اسلام سے برگشتہ کرناجس دور کی میں بات کررہ ہوں اس زمانے میں صرف اخبارات ہوا کرتے تھے ،ان میں اشتہارات چھپا کرتے تھے کہ انبیاء کے صحائف کا مطالعہ کیجئے اور ایک پوسٹ کارڈ لکھ کرگھر بیٹھے حاصل کیجئے۔، ایک ایسا ہی اشتہار دیکھ کر میں نے بھی ایک خط لکھ دیا تھا کارسپانڈس سکول کو اورپھر خط و کتابت جاری ہوگئی ،بذریعہ پوسٹ بکس نمبر۔ پوسٹ مین نے باقی خطوط تو ہاتھ میں دیے اور یہ لفافہ اس نے غصے کے ساتھ پھینک دیا کیونکہ ان کو تو پتہ ہوتاہے کہ ان میں کیا ہوتاہے ۔ اس میں پوچھے گئے سوالات پڑھتا اور ان کا جواب ڈھونڈ کر لکھ کر بھیجتا اورسو فیصد نمبر حاصل کرتاتھا اس کافائدہ یہ ہوا کہ میں نے سارے کورس مکمل کرلیے اور اوائل عمری ہی میں اناجیل کا مطالعہ کرنے کا موقع مل گیا جو شاید ساری عمر نہ مل سکتا۔ ایک دن میں ان کے آفس کا پتہ پوچھنے کی مہم پر نکلا عبداللہ پور سے شہر فیصل آباد یہی ایک سوا میل ہے۔ پیدل ہی اس کام کیلئے نکلا ۔کیونکہ پوسٹ بکس کا نمبر تھا اور ایڈریس خفیہ ۔ میں نے جنرل پوسٹ آفس سے اس سکول کا ایڈریس پوچھا پہلے تو وہ صاحب بڑے غصے میں آئے پھر میں نے مقصد بتایا تو انہوں نے اشارتاً بتادیالیکن وہاں کوئی ایسی نشانی موجود نہ تھی میں نے ایک مسیحی دوکاندار سے پوچھا تو اس نے بتادیا جہاں آجکل ستیانہ روڈ والا پل ہے اسی لائن میں یہاں ایک کوٹھی میں خط وکتابت سکول ہوا کرتا تھا جس کا پوسٹ بکس نمبرتھا۔اس اجاڑ کوٹھی میں ڈرتا ڈرتا داخل ہوا۔کافی آگے چل کر ایک بلڈنگ نظر آئی تو سیڑھیاں چڑھ گیا۔اندر کی رونق دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ ا ن لوگوں کو بڑا تعجب ہوکہ یہ اجنبی لڑکا یہاں کیوں اور کیسے پہنچ گیا ہے ؟ میں نے بتایا کہ میں آپ کے سکول کا سٹوڈنٹ ہوں اور میرا نام اور رول نمبر یہ ہے انہوں نے چیک کرکے مزید تعارف پوچھا ۔پھر وہ مجھے اپنے جنرل مینجر کے پاس لے گئے ۔ وہ یہ سن کر بڑے حیران ہوئے کہ مجھے پورا قرآن مجید حفظ ہے۔ انہیں پہلے تو یقین نہ آیا کہ اتنی بڑی کتاب کسی نوجوان کے سینے میں کیسے محفوظ ہوسکتی ہے ؟ انہوں نے وہاں سے قرآن مجید اٹھایا اور میرے سامنے کھول کر رکھ دیا کیونکہ وہ خود تو ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتے تھے ۔مجھے بولے کہ یہاں سے پڑھو میں نے مصحف شریف بند کرکے وہاں سے سنا دیا ۔یوں پہلی ملاقات خوشگوار رہی ۔ اس کے بعد بھی کئی دفعہ وہاں جانا ہو،ہمارے درمیان کافی بے تکلفی ہوگئی تھی ۔ میں نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کو عیسائیت کا بھی کوئی علم نہ تھا۔وہ دلائل تو نہیں رکھتے تھے لیکن میری باتوں سے لطف اندوز ضرور ہوتے ۔کئی سال تک میں وہاں جاتارہا یوں ان سب سے بے تکلفی پیدا ہوگئی تھی۔ عیسائیوں کی سرگرمیاں ایک منظم و مربوط طریقے سے جارہی ہیں ان کی مشنری پوری دنیا میں کام کررہی ہے، پورا یورپ امریکہ کینڈا وغیرہ اور دنیا کے بڑے بڑے بینک ، کاروباری اور رفاہی ادارے ان کی پشت پناہی کررہے ہیں جبکہ اسلام کی تبلیغ کا کوئی منظم کام نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی پشت پر کوئی ملک یا کاروباری ادارے ہیں بلکہ اسلام کے مخالف اوردشمن فرقے منکرین ختم نبوت وغیرہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔مسیحیوں کی منظم تبلیغی سرگرمیوں کے جواب میں لاہورسے اکیلے ایک آدمی نے جن کا نام حافظ نذر احمد صاحب تھا انہوں نے خط وکتابت سکول کے نام سے یہ بیڑا اٹھایاتھا ۔ اس کا اشتہار اخبار میں شائع ہوا۔میں نے حافظ صاحب کو بڑا حوصلہ افزا خط لکھا۔جواب میں انہوں نے بڑا شکریہ ادا کیا۔ ان کو میں نے کچھ مسلمان لوگوں کے پتے نوٹ کرکے بھیجے جو عیسائیوں کے خط و کتابت سکول سے وابستہ تھے اور یہ پتے میں نے صرف رجسٹرکی ورق گردانی کرنے کے دوران یاد کرلیے تھے ۔پھرجب میں تعلیمی سرگرمیوں کیلئے لاہور شفٹ ہو گیا توحافظ نذر احمد سے ملاقات کی میں نے انہیں بڑا مخلص اور درد مند انسان پایا ۔ ان کے دل میں اسلام کے خلاف اٹھنے والی تمام لہروں کے بارے بہت تشویش معلوم دیتی تھی اور انہوں نے مسلمانوں کو اسلام اور قرآن سے وابستہ رکھنے کے لیے بہت کام کیے ۔تقبل اللہ۔۔پھر کافی عرصہ ہمارا رابطہ رہا ۔ معلوم نہیں حافظ صاحب بقید حیات ہیں یا اپنے رب کا پاس جا چکے ہیں ۔ اللہ کریم انہیں جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کی خدمات قبول و منطور فرمائے لیکن ابھی تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی عصمت و عزت کے لیے کوئی منظم کام نہیں ہو رہا اور نہ ہی فتنہ ارتداد سے بچانے کیلئے کوئی حکومتی منصوبہ زیر غور ہے ۔اللہ کریم اپنے دین کو ہر قسم کی سازشوں سے محفوظ فرمائے ۔آمین ۔ واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ۔اتنی تفصیلات لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بچن میں جو چیزیں ذہن پر نقش ہوجاتی ہیں ساری زندگی انسان انہیں بھول نہیں سکتاعیسائیوں کے اس کارسپانڈس سکول کی طرف سے مرسلہ اسباق کے سر ورق پرجس بلڈنگ کی تصویر ہوتی تھیں وہ بڑی عجیب اور دلچسپ لگتی تھیں آج میں الہاشمی ہوٹل کی چھت پر کھڑا جب عیسائی محلے کی ان بلڈنگوں کو دیکھ رہاتھا تو یادوں کے دریچے وا ہوچکے تھے میں ان عمارات کی تصاویر میں اپنے ماضی کی یادوں میں کھویا ہوا تھا ، شیخ امجد کافی دیرتک میرا انہماک دیکھتے رہے ، پھر انہوں نے مجھ سے اس دلچسپی کی وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ مجھے کس چیز نے مشغول کر رکھاتھا وہ بھی بڑے متعجب ہوئے کہ ایک اسلامی ملک میں تبلیغ کفر کی اجازت کیسے ممکن ہے؟ اسرائیلی فورسز کا ایک اور حربہ جمعہ کومسجد اقصیٰ میں جو فائرنگ ہوئی تھی۔ اسے بہانہ بناکر اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصی جانے والے سب راستے بند کررکھے تھے ، اور اس کی آڑ میں وہ مسجد اقصیٰ کے تمام دروازوں پر ڈی ٹیکٹر نصب کررہے تھے جس کی خبر باشندگان شہر القدس کو ہوگئی تو وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ اسرائیلی فورسز نے حسب فطرت پرتشدد کارروائیاں کیں لیکن احتجاج بہر صورت جاری رہا بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہورہاتھا ۔ بیت المقدس کی طرف جانے والے سارے راستے مظلوم مسلمانوں کے احتجاج سے گونج رہے تھے ۔خاص طور پر اسلام کی بیٹیاں نعرے لگا رہی تھیں ۔لن تھزم امۃ قائدھا محمد(ص) اس امت کو شکست کیسے دی جاسکتی ہے جس کے قائد محمد مصطفی ہوں۔یہ نعرہ سن کرجذبات میں خواہ مخواہ تلاطم آجاتاہے ۔یروشم کی ساری گلیاں ان نعروں سے گونج رہی ہیں ۔ مسجداقصیٰ پر الوداعی نظر آج اس تاریخی سفر سے واپسی ہے ، دل سرزمین انبیاء سے جدائی پر اداس ہے ۔ اور اس سفر کو زیادہ سے زیادہ بامقصد نہ بننے اور بہت سی تاریخی جگہیں نہ دیکھ سکنے کا افسوس بھی ۔پونے دس بجے ہمارا ڈرائیورالحسینی آگیا ۔ اور ہم جو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے ، گاڑی میں سوار ہوگئے ۔ یروشلم کی اونچی نیچی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے مسجد اقصی کا سنہرا گنبد یا یروشلم کا کوئی دروازہ نظر آجاتا تو دل میں درد کی لہر سی اٹھتی کہ اے اللہ اس سرزمین انبیاء کو سلامتی نصیب فرما ۔ جس قوم نے یہاں اندھیرمچا رکھا ہے اسے اسلام کی دولت نصیب فرما دے ۔ مسجد اقصی کو ہمارے بڑوں نے بنایا اور ان یہودیوں نے یہاں آگ لگا رکھی ہے ۔ان خیالات کے پیچ و تاب سے ہم گزرتے جارہے تھے اوربڑی بڑی شاہراہوں کو عبور کرتے ہوئے تل ابیب کے قریب اچانک ایک تاریخی جگہ جو ابھی بنی نہیں لیکن بننے والی ہے ، یعنی ’’باب لدّ‘‘ پر پہنچ گئے ۔یہ وہ جگہ ہے ،جہاں عیسی علیہ السلام دجال کوقتل کریں گے۔ یہ جگہ چونکہ نبی آخرالزمان کی احادیث میں بتائی ہے اور یہودیوں کوحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی صداقت کا پورا یقین ہے ۔