• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس نے ماڈل کورٹس کا خواب 2017 میں دیکھا ، سیشن جج سہیل ناصر

اسلام آباد (حنیف خالد) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ماڈل کورٹس کا خواب 2017 میں دیکھا تھا اور جس کا کامیاب انتظام انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج ہونے کے ناطے صوبے میں سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے عدالتیں قائم کیں۔ انہوں نے پنجاب کی عدلیہ سے سستے اور فوری انصاف کیلئے کام لینا شروع کیا جس کے حیران کن نتائج سامنے آئے جنوری 2019 میں جب انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالا تو لارڈ شپ نے پنجاب والا اپنا تجربہ پورے پاکستان میں سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے کمر ہمت باندھی۔ جسٹس مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے چہرے پر آج اطمینان اور اعتماد پوری قوم دیکھ رہی ہے کیونکہ انہیں یقین ہوگیا ہے کہ ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے لگا ہے اس کیلئے انہوں نے ہم سے ڈاکومنٹ تیار کرایا۔ ان خیالات کا اظہار ملک کے چاروں صوبوں میں 116 مارڈل کورٹس کے ڈائریکٹر جنرل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سہیل ناصر نے قومی کانفرنس برائے فوری و سستا انصاف میں موجود چیف جسٹس صاحبان، آئی جیز جیل خانہ جات ، ہائی کورٹ کے رجسٹرار، صوبائی سیکرٹری صحت، امریکی محکمہ انصاف کے سینئر عہدیدار مسٹر برائن، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی سینئر عہدیدار مس کریسٹائن، 116 ماڈل کورٹس کے سربراہوں اور ملک بھر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان سے مخاطب ہو کر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ماڈل کورٹس کا جو ڈاکومنٹ ہم نے تیار کیا اس کی منظوری چیف جسٹس آف پاکستان نے گہرائی میں جاکر مطالعے کے بعددی۔ ماڈل کورٹس نے وکلاء کی مشکلات گواہوں کی وقت پر عدم پیشی، پراسیکیوٹرز، کیمیکل ایگزامینر، ڈاکٹر، فرانزک ماہرین کے ایشوز بھی سامنے آنے سے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے 11 مارچ 2019 کو اسی ڈاکومنٹس کی منظوری دی یکم اپریل 2019 سے 116 اضلاع میں ماڈل کورٹس نے کام شروع کردیا پنجاب میں کیونکہ پہلے سے تجربہ ہے اسی لئے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے کوئی سوالات، اعتراضات نہیں آئے۔ باقی تین صوبوں سے سوالات آئے’’ کیا ہوگا، کیسے ہوگا، کیونکر ہوگا اور ہو بھی نہیں سکتا‘‘ سہیل ناصر نے کہا کہ ان کو 2017 میں مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی آمد پر پڑھا گیا یہ شعر یاد آتا ہے ’’ اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے‘‘۔ سہیل ناصر نے چیف جسٹس آف پاکستان سے کہا کہ آپ نے تو 116 ماڈل کورٹس قائم کرکے سستے اور فوری انصاف کی بنیاد رکھی ہے ان عدالتوں کے پریذائیڈنگ افسران آپ کے سامنے موجود ہیں آپ کے الفاظ میں یہ آپ کے ہی چیتے ہیں۔ یکم اپریل سے 11 اپریل کے 10 ورکنگ ڈیز میں 116 ماڈل کورٹس نے 14 سو چونسٹھ مقدمات کے فیصلے سنا کر ایک شاندار کارنامہ انجام دیا ہے ان میں قتل کے چھ سو نو مقدمات، منشیات کے 855 مقدمات شامل ہیں۔ ان دس دنوں میں ہمارے 116 جج صاحبان نے 5 ہزار آٹھ سو چودہ گواہان کے بیانات قلمبند کئے۔ بلوچستان سے انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں لیڈنگ پوزیشن دو جج صاحبان کو حاصل ہوئی ظفر جان ایڈیشنل سیشن جج بارکھان نے قتل کے 26 مقدمات کا فیصلہ کیا۔ بازئی سیشن جج کوئٹہ نے 29 منشیات کے کیسوں کا فیصلہ کیا۔ کے پی کے میں مس زینب ریحان ایڈیشنل سیشن جج نے 13 قتل کے مقدمات کا فیصلہ کیا۔ ارباب سہیل حامد ایڈیشنل سیشن جج چارسدہ نے قتل کے 12 اور منشیات کے 26 مقدمات کا فیصلہ سنایا۔ پنجاب میں فرحان مدثر ایڈیشنل سیشن جج سرگودھا نے قتل کے 15 مقدمات کا فیصلہ کیا۔نارووال کے ایڈیشنل سیشن جج نوید اقبال نے منشیات کے 20 مقدمات کا فیصلہ کیا۔ سندھ میں غلام قادر ایڈیشنل سیشن جج قمبر نے 13 قتل کے مقدمات کا فیصلہ کیا۔ شکار پور کے ایڈیشنل سیشن جج طاہر حسین نے قتل کے 13 مقدمات کا فیصلہ کیا۔
تازہ ترین