مذہبی رہنما، فریڈرک لیوس ڈونلڈسن نے 1925ء میں کہا تھا کہ’’ کام کے بغیر دولت، رُوح کے بغیر خوشی، کردار کے بغیر علم، اخلاقیات کے بغیر کاروبار، انسانیت کے بغیر سائنس، قربانی کے بغیر عبادت اور اصولوں کے بغیر سیاست گناہ ہے۔‘‘ اسلامی اسکالر، امام غزالی کا کہنا ہے کہ ’’سیاست وہ تدبیر ہے، جو زندگی کے وسائل اور ان کے دائرے میں معاشرے کے افراد کے درمیان باہمی محبت، تعاون اور اتحاد پیدا کرے۔‘‘ گزشتہ چند صدیوں سے دُنیا کے ترقّی یافتہ اور پُر امن معاشروں میں جس نظامِ مملکت و حکومت نے کام یابی حاصل کی، وہ جمہوریت میں پنہاں ہے اور اس کی کام یابی کا سہرا سیاست دانوں کے سَر ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سیاست مِشن نہ رہے، بلکہ پیشہ بن جائے، تو اہلِ سیاست کا محور و مرکز عوامی خدمت کی بہ جائے اپنی ذات بن جاتی ہے۔ سیاست، شطرنج کے کھیل کی طرح ہے۔ تاہم، فرق صرف اتنا ہے کہ شطرنج میں بے جان مُہروں کو آگے پیچھے کیا جاتا ہے اور بازی پلٹ دی جاتی ہے، جب کہ سیاست زندہ مُہروں کو ترتیب دینے کا نام ہے۔ گرچہ سیاست اور اداکاری قطعی طور پر دو علیحدہ شعبے ہیں، لیکن آج کے دَور میں ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور فلمی ستاروں کا حکومتی عُہدوں پر فائز ہونا، ذرایع ابلاغ کے گہرے اثرات کی غمازی کرتا ہے۔ گرچہ سیاسی شخصیات کا ذرایع ابلاغ پر اچھا نظر آنا کافی نہیں، تاہم اہم ضرور ہے۔ 1960ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں جان ایف کینیڈی اور رچرڈ نکسن کے درمیان سخت مقابلہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقعے پر کینیڈی نے خود کو ٹیلی ویژن پر بہتر انداز میں پیش کیا اور کام یاب ہوئے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جاذبِ نظر سیاست دان ہی انتخابات جیتتے ہیں۔
فلمی ستاروں کا سیاست میں آنا نئی بات نہیں
فلم کی دُنیا سے تعلق رکھنے والے افراد کا سیاست میں آنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھارت میں تو کئی ایک مقبول فلمی اداکار اور اداکارائیں رکنِ پارلیمان بھی رہ چُکی ہیں۔ علاوہ ازیں، امریکا کے کئی سینیٹرز اور ریاستی گورنرز بھی اداکاری کے شعبے میں اپنے جوہر دکھا چُکے ہیں۔ نیز، برطانیہ، کینیڈا، رُوس، برازیل، بنگلا دیش، اسرائیل، نیدر لینڈز اور تھائی لینڈ سمیت دیگر کئی ممالک میں بھی ایسے کام یاب سیاست دان موجود ہیں، جو پہلے اداکار تھے، لیکن پاکستان میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔مثال کے طور پر 2018ء کے عام انتخابات میں کئی آرٹسٹس نے حصّہ لیا، جن میں معروف فن کار، محمد ایّوب کھوسہ، سیّد ساجد حسن، گل رعنا اظہر اور مشہور گلوکار، جواد احمد، جو لاہور اور کراچی کے تین قومی اسمبلی کے حلقوں سے امیدوار تھے، اور ابرار الحق شامل ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکا۔
ٹرمپ کی انتخابی مُہم، سیاسی مواد کم، اداکاری زیادہ
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مُہم کے دوران سفید فام مزدوروں میں سے بیش تر کا خیال تھا کہ ٹرمپ ناپسندیدہ انسان ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ ان کے مسائل کی ترجمانی بھی وہی کر رہے ہیں۔ نومبر 2016ء میں امریکی رائے دہندگان کے بعض حصّوں کو محسوس ہوا کہ ٹرمپ کا انداز اور شور جائز ہے اور اب دُنیا کے مختلف حصّوں میں اس انداز نے اہمیت اختیار کر لی ہے۔ اب سیاسی شخصیات اپنے حلقے میں پائے جانے والے غصے کا اظہار اپنی پرفارمینس سے کرتی ہیں یا پھر ان کی اداکاری سے جُزوی طور پر ان کے حامیوں کا ایک حلقہ پیدا ہوتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو۔ گرچہ ٹرمپ کی انتخابی مُہم میں سیاسی مواد کی کمی تھی، لیکن ان کی اداکاری اچھی تھی۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ریلیوں، ٹیلی ویژن اور ٹویٹر پر ان کا شو کام یاب ہوتا تھا، لیکن وہ کوئی عملی پروگرام دینے سے قاصر رہتے۔ ٹرمپ ماضی میں ڈیموکریٹس اور ریفارمر پارٹی سے وابستہ رہے۔ بعدازاں، آزاد امیدوار بنے اور پھر ری پبلکن پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کی۔ انہیں اپنے ہُنر پر اعتبار اور جماعت کی پرفارمینس پر عدم اعتماد تھا۔ انہوں نے 2016ء میں آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے کی دھمکی دی تھی۔ خیال رہے کہ اب انتخابی مہمات میں اداکاری کی ضرورت ہوتی ہے اور چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات سے اپنی آراء کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ گرچہ2016ء کی انتخابی مُہم میں ٹرمپ کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں تھا اور انہوں نے 23 اہم معاملات پر 141مؤقف اختیار کیے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی اداکاری کی بہ دولت کام یاب ہوئے۔
لوک سبھا انتخابات:بائیکاٹ کی اپیل، تو بھر پور مُہم بھی
بھارت میں جاری لوک سبھا کے 17ویں انتخابات کے دوران جہاں ایک طرف ایک سو سے زاید فلم سازوں، 600سے زاید فن کاروں، 200سے زاید مصنّفین اور 150سے زاید سائنس دانوں نے حُکم ران جماعت، بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی ہے، تو وہیں کئی فلمی ستارے بھی ان انتخابات کا حصّہ ہیں ، جب کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی کے سبب انتخابی مُہم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے ہیں۔ بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے بالی وُڈ کے معروف اداکاروں پر مشتمل 18رُکنی پینل سے دسمبر2018ء میں ملاقات کی تھی اور اس کے بعد کئی اداکار اور فلم ساز بی جے پی کی انتخابی مُہم میں شامل ہوئے، جن میں رنویر سنگھ، کرن جوہر، اکشے کُمار اور ایشومن کھرانا قابلِ ذکر ہیں۔ مودی سے ملاقات کرنے والے پینل میں کسی خاتون اداکارہ کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جس پر سوشل میڈیا صارفین نے خاصی تنقید کی۔ ایک تحقیقی ویب سائٹ، کوبرا پوسٹ کے مطابق، کئی بالی وُڈ اداکار مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے اُن کے ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں، جن میں وویک اوبرائے، سونو سود، امیشا پٹیل، ماہیما چوہدری، جیکی شیروف اور شکتی کپور نمایاں ہیں۔ تاہم، بعض اداکاروں نے ایسی مُہم کا حصّہ بننے سے صاف انکار کر دیا، جن میں ودیا بالن، ارشد وراثی، رضا مراد اور سونیا ٹنڈن شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش کانگریس نے اداکار، سلمان خان سے اندور میں اپنی انتخابی مُہم چلانے کی درخواست کی تھی، تاہم انہوں نے انکار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی انتخابی مُہم میں حصّہ نہیں لے رہے۔ علاوہ ازیں، سیاسی ایجنڈوں پر مشتمل پروپیگنڈا فلمز کو بھی انتخابی مُہم کے دوران ریلیز کیا گیا، جن میں ٹھاکرے، اُڑی:دی سرجیکل اسٹرائیک،دی ایکسیڈینٹل پرائم منسٹراور پی ایم نریندر مودی شامل ہیں۔ تاہم، ان میں سے کچھ فلمز کی نمایش پرالیکشن کمیشن آف انڈیا نے عارضی طور پر پابندی عاید کردی ہے۔
فلمی ستارے، سیاسی فائدہ
گرچہ زیادہ تر اداکار رائے دہندگان کی توقعات پر پورے نہیں اُترتے، لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتیں انہیں ٹکٹ دیتی ہیں اور اس کا سبب اُن کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ بھارت میں یہ سلسلہ بی جے پی نے مہا بھارت نامی ٹی وی سیریل کے اداکاروں کو ٹکٹ دے کر شروع کیا، جب کہ پاکستان میں موجودہ حُکم راں جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے جلسوں اور دھرنوں کی رونق دوبالا کرنے کے لیے فن کاروں کا سہارا لیا۔ سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں اور ریلیوں میں فلمی ستاروں کو اس لیے بھی مدعو کرتی ہیں کہ یہ عوام کو تفریح مہیا کرتے ہیں اور انہیں دیکھنے کے لیے لوگوں کی بِھیڑ لگ جاتی ہے اور یوں یہ سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی مقبولیت کا تاثر دیتی ہے۔ حالیہ بھارتی انتخابات میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں نے بالی وُڈ اسٹارز کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی یا انہیں اپنے جلسوں، ریلیوں میں شرکت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
لوک سبھا 2019ء :کچھ پُرانے، کچھ نئے چہرے
بھارتی سیاست اور شوبز کارشتہ برسوں پُرانا ہے اور لوک سبھا کے ہر انتخاب ہی میں فلم نگری کے کچھ نئے ، کچھ پُرانے چہرے سیاست کے میدان میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں حصّہ لینے والے فلمی اداکاروں کی فہرست خاصی طویل ہے، جن میں سے بعض کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
جیا پرادا :جیا پرادا ایک مرتبہ پھر لوک سبھا کے انتخابات میں حصّہ لے رہی ہیں، جب کہ اس سے قبل وہ 10برس تک رام پُور کی نشست سے رُکنِ پارلیمان رہیں۔
جیا بچن :سماج وادی پارٹی کے پلیٹ فارم سے 4برس تک راجیہ سبھا کی رُکن رہنے والی، جیا بچن بھی ایوانِ زیریں کے انتخابات میں حصّہ لے رہی ہیں۔
کرن کھیر : کرن کھیر، بی جے پی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصّہ لے رہی ہیں۔
ایشا کوپیکر : ایشا، بی جے پی کی امیدوار ہیں۔
ہیما مالنی :’’ڈریم گرل‘‘ کے نام سے مشہور، ہیما مالنی بھی بی جے پی کے ٹکٹ پر اُتر پردیش کے ماتہورا حلقے سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
شتروگھن سنہا :بی جے پی سے طویل وابستگی کے بعد 6اپریل کو اسے خیر باد کہنے والے شترو گھن سنہا کانگریس کے پلیٹ فارم سے لوک سبھا کے انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں۔
اُرمیلا متونڈکر : 1983ء میں اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرنے والی، اُرمیلا متونڈکر کانگریس کی امیدوار ہیں۔
نصرت جہاں :کولکتہ سے تعلق رکھنے والی نصرت جہاں بھی انتخابات میں حصّہ لے رہی ہیں۔ اب تک اُن کی دو فلمز، ’’شترو‘‘ اور ’’کھوکھا 420‘‘ریلیز ہو چُکی ہیں۔
پرکاش راج :’’سنگھم وَن‘‘ اور ’’سنگھم ٹو‘‘ میں وِلن کا کردار ادا کرنے والے پرکاش راج بنگلور سے امیدوار ہیں۔
شلپا شندے :ریئلٹی شو، ’’بِگ باس‘‘ کی فاتح، شلپا شندے ممبئی سے کانگریس کی امیدوار ہیں۔
عارشی خان :عالمی شُہرت یافتہ آل رائونڈر، شاہد آفریدی سے دوستی کا دعویٰ کرنے والی عارشی خان بھی ممبئی سے الیکشن میں حصّہ لے رہی ہیں۔
میمی چکرا بورتی :بنگالی سینما کی معروف اداکارہ، میمی چکرا بورتی ترینا مول کانگریس کے پلیٹ فارم سے جادیو پور کی نشست پر حصّہ لے رہی ہیں۔
کمل ہاسن :کمل ہاسن نے فروری 2018ء میں ’’مکال نیدھی میام‘‘ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ان کی پارٹی چنئی اور پودی چیرو سے انتخابات میں حصّہ لے گی۔
مون مون سین :لیجنڈ اداکارہ، مون مون سین نے 2014ء میں ’’ترینامول کانگریس‘‘ میں شمولیت اختیار کی اور بنکورا سے لوک سبھا کی نشست پر کام یابی حاصل کی۔ حالیہ انتخابات میں وہ مغربی بنگال کے شہر، اسنسول سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
حقِ رائے دہی نہ رکھنے والے بھارتی فلم اسٹار
بھارت میں دُہری شہریت کے حامل افراد پر ووٹ کاسٹ کرنے پر پابندی عاید ہے۔ بالی وُڈ کے کئی معروف نام دیگر ممالک کی شہریت رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ووٹ نہیں دے سکتے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
اکشے کمار: 51 سالہ اداکار، اکشے کمار امرت سَر، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ تاہم، وہ بھارتی شہری نہیں اور کینیڈین پاسپورٹ کے حامل ہیں۔ لہٰذا، وہ ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے۔
عالیہ بھٹ :نام وَر فلم ساز، مہیش بھٹ کی صاحب زادی، عالیہ بھٹ برطانوی پاسپورٹ رکھنے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکتیں۔ اُن کی والدہ کے پاس بھی برطانوی شہریت ہے۔
دپیکا پڈوکون :دپیکا کوپن ہیگن، ڈنمارک میں پیدا ہوئیں اور ڈینش پاسپورٹ رکھتی ہیں۔ لہٰذا، انہیں بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں۔
کترینہ کیف: 35 سالہ کترینہ کیف ہانگ کانگ میں پیدا ہوئیں اور برطانوی پاسپورٹ رکھتی ہیں۔ لہٰذا، انہیں انتخابات میں حقِ دائے رہی حاصل نہیں۔
جیکولین فرنینڈس :بالی وُڈ اداکارہ، جیکولین فرنینڈس کے والد، سری لنکن ہیں اور ان کی والدہ کا تعلق ملائیشیا سے ہے، جب کہ وہ خود ماناما، بحرین میں پیدا ہوئیں ،تو وہ بھی ووٹ کاسٹ کرنے کا حق نہیں رکھتیں۔
تامل ناڈو :فلمی شخصیات کا غلبہ
بھارتی ریاست، تامل ناڈو کی سیاست پر 1967ء سے فلمی شخصیات کا غلبہ ہے۔ یاد رہے کہ اسی برس سابق امریکی اداکار، رونالڈ ریگن امریکی ریاست، کیلی فورنیا کے گورنر بنے تھے۔ اس کے بعد سے تامل ناڈو کے 5وزرائے اعلیٰ کا تعلق فلمی صنعت ہی سے رہا۔ بھارتی ریاست، آندھرا پردیش میں فلمی اداکار، ننداموری تاراکا راماراؤ کی قائم کردہ جماعت 1983ء کے بعد سے اقتدار کے ایوانوں میں سرگرم رہی اور انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ 1977ء میں وزیرِ اعلیٰ بننے والے تامل اداکار اور سیاست دان، مارودر گوپالن رام چندرن کی کام یابیوں سے متاثر ہو کر سیاست میں آئے۔ تاہم، ان وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی انسانی حقوق کے حوالے سے ناقص رہی اور ان کے نمایشی اقدامات سے معیشت کو بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔
زیادہ تر اداکار سیاست میں ناکام رہے
ایک اداکار یا فلمی ستارے کو اپنے فنی کیریئر کے خاتمے کے بعد صرف سیاسی میدان ہی میں کشش نظر آتی ہے۔ لہٰذا، اکثر اسٹارز سیاست میں اپنا کیریئر بنانے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں، لیکن عموماً عوام انہیں بُری طرح مسترد کر دیتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے پناہ شُہرت اور عزّت کے باوجود بھی یہ ستارے اقتدار کے ایوانوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے؟ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فن کاروں کا سارا زور کھیل تماشے پر ہوتا ہے۔ سیاسی موضوعات پر حقیقت پسندانہ بات چیت کی بہ جائے وہ مبالغہ آمیز گفتگو کرتے ہیں اور اسے دِل چسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ فن کار غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ عوام انہیں اُن کی مقبولیت کے باعث ووٹ دیں گے، لیکن پاکستان اور بھارت میں ووٹرز عموماً اپنی پسندیدہ جماعت ہی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اسی طرح جو فن کار الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ بھی جاتے ہیں، وہ عوامی توقّعات پر پورے نہیں اُتر پاتے ، لہٰذا اگلے انتخابات میں عوام انہیں مسترد کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں قدم رکھنے والے زیادہ تر اداکار ناکام ہوئے۔ بھارت میں سنیل دَت کے سوا کوئی بھی فلم اسٹار انتخاب جیتنے کے بعد سیاست میں کام یاب نہیں ہوا۔ جرمن خبر رساں ادارے، ڈوئچے ویلے لکھتا ہے کہ سیاست میں آنے والے اداکاروں کو چند مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اوّل، اُن کا کوئی انتخابی حلقہ نہیں ہوتا۔ دوم، وہ جس طبقے کی نمایندگی کرتے ہیں، وہ انتخابی عمل اور سیاست کو لایعنی مشق سمجھتا ہے۔ سوم، یہ عوامی سیاست کی ابجد سے ناواقف ہوتے ہیں اور چہارم، ان کے پاس کوئی ایسا سیاسی نعرہ نہیں ہوتا کہ جس کی بنیاد پر یہ عوام سے ووٹ مانگ سکیں۔
بھارتی پارلیمنٹ کا حصّہ بننے والے فلمی ستارے
بھارتی پارلیمنٹ کا حصّہ بننے والے ستاروں میں امیتابھ بچن، جے للیتا، نتیش بھردواج، دھرمیندر، گووندا، ہیما مالنی، جیا بچن، جیا پرادا، کرن کھیر، متھن چکروَتی، موہن بابو، مون مون سین، پاریش راول، راجیش کھنّا، ایس ایس راجیندرن، رامیا، ریکھا، شبانہ اعظمی، شتروگھن سنہا، سمرتی ایرانی، ونود کھنّا، اروند تریودی، دارا سنگھ، دپیکا چیکھالیا، دیو اور سنیل دَت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک فن کاروں نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا، جن میں سے کچھ کی ایوانوں تک رسائی ہوئی، کچھ کی نہیں۔ میدانِ سیاست میں قدم رکھنے والے چند ستاروں کا مختصر ذکر یوں ہے:
جے للیتا :بھارتی ریاست، تامل ناڈو کی سابق خاتون وزیرِ اعلیٰ، جے للیتا کا شمار کام یاب ترین اور عوام کی پسندیدہ وزرائے اعلیٰ میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک اداکارہ کی حیثیت سے کیا۔ جے للیتا نے 20سے زاید فلمز میں ہیروئن، معاون اداکارہ اور مہمان اداکارہ کی حیثیت سے کام کیا اور 1975ء کے بعد فلمی دُنیا کو خیر باد کہہ کر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ پہلی بار 1991ء میں ریاست، تامل ناڈو کی وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئیں اورکُل 5مرتبہ اس منصب پر فائز ہوئیں۔
گووندا :نوّے کی دہائی میں اپنی بہترین کامیڈی سے بالی وُڈ میں نام کمانے والے معروف اداکار، گووندا نے 2004ء کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کے امیدوار کی حیثیت سے ممبئی شمالی سے بھارتیا جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر، رام نائیک کو شکست دی۔ تاہم، لوک سبھا کا رُکن بننے کے بعد وہ عوامی امنگوں پر پورے نہیں اُتر پائے اور 2005ء کے سیلاب میں اپنے حلقے کے عوام کو نظر انداز کرنے پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد ازاں، انہوں نے2009ء کے عام انتخابات میں حصّہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور فلمی دُنیا کی جانب لوٹ گئے۔
دھرمیندر :اپنی جان دار اداکاری سے فلم بینوں کو اپنا دیوانہ بنانے والے دھرمیندر کو ’’پنجاب دھرتی کا لیجنڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف کام یاب اداکار بلکہ مقبول سیاست دان بھی ہیں۔ بالی وُڈ کی لازوال فلم، ’’شعلے‘‘ کے ’’ویرو‘‘ بی جے پی کے ٹکٹ پر ریاست، راجستھان کے حلقے، بیکانیر سے رُکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔
جیا بچن :انڈین سینما کی ورسٹائل اداکارہ اور امیتابھ بچن کی اہلیہ، جیا بہادری بچن اس وقت بھی بھارت کے سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی ہیں۔ بھارتی حکومت نے انہیں ’’پدماشری ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا۔ جیا بچن سماج وادی پارٹی کی طرف سے رُکنِ راجیہ سبھا منتخب ہوئیں۔ اُنہوں نے جوانی دیوانی، کوشش، انامیکا، پیا کا گھر، باورچی، زنجیر، ابھیمان، چپکے چپکے ، شعلےاور کبھی خوشی، کبھی غم سمیت کئی فلمز میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔
شبانہ اعظمی :بھارت کی ممتاز اداکارہ، شبانہ اعظمی اردو کے معروف شاعر، کیفی اعظمی اور اداکارہ، شوکت کیفی کی صاحب زادی اور مشہور شاعر، جاوید اختر کی اہلیہ ہیں۔ شبانہ اعظمی کے والدین کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ارکان تھے۔ بہترین اداکاری کی بہ دولت 5بار نیشنل فلم ایوارڈ اپنے نام کرنے والی شبانہ اعظمی کے کریڈٹ پر ارتھ،گاڈمدر،انکار اورسوامی سمیت 120سے زاید فلمز ہیں۔وہ1997ءمیں راجیہ سبھا کی رُکن منتخب ہوئیں۔
شتروگھن سنہا:’’پریم پجاری‘‘ نامی فلم میں پاکستانی ملٹری آفیسر سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے شتروگھن سنہا کی پہلی کام یاب فلم، ’’کالی چرن‘‘ تھی۔ ایک سو سے زاید فلمز میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد انہوں نے میدانِ سیاست کا انتخاب کیا۔ شتروگھن سنہا ریاست بہار سے 1996ء سے 2008ء کے درمیان دو مرتبہ راجیہ سبھا کے رُکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے سیاست کا آغاز اپنے دوست اداکار، راجیش کھنّا کے مدِ مقابل 1992ء کے ضمنی الیکشن سے کیا اور 25ہزار ووٹوں سے شکست کھائی۔ شتروگھن سنہا نے 2009ء میں بہار سے لوک سبھا کی نشست پر پہلی بار کام یابی حاصل کی اور پھر 2014ء کے انتخابات میں کام یاب ہوئے۔ انہیں 2003ء میں واجپائی کے دَورِ حکومت میں وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ جنوری 2003ء سے مئی 2004ء تک اُن کے پاس صحت اور خاندانی فلاح وبہبود کی وزارت کا قلم دان تھا۔ اگست 2004ء میں انہیں جہاز رانی کی وزارت دی گئی اور 2006ء میں وہ بی جے پی کے فن و ثقافت کے ادارے کے سربراہ منتخب ہوئے۔
ونود کھنّا :بالی وُڈ کے معروف اداکار، ونود کھنّا 1946ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے امر اکبر انتھونی، پرورش، ہیرا پھیری اور مقدر کا سکندر سمیت140 سے زاید فلمز میں کام کیا۔ 1997ء میں بی جے پی میں شامل ہوئے اور 4بار مشرقی پنجاب کے شہر، گورداس پور سے رُکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ ونود کھنّا 2002ء میں ثقافت و سیّاحت کے مرکزی وزیر بھی رہے۔ ان کے سوا کسی دوسرے بالی وُڈ اداکار نے4 مرتبہ لوک سبھا کا الیکشن نہیں جیتا۔ اپریل2017ء میں اُن کا دیہانت ہوا۔
امیتابھ بچن :بالی وُڈ کے سدا بہار سُپر اسٹار، امیتابھ بچن بھارتی فلمی صنعت کی تاریخ کے عظیم اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ امیت جی 70ء کی دہائی میں ریلیز ہونے والی زنجیر، دیوار اور شعلے جیسی فلمز سے شُہرت کی بلندیوں پر پہنچے اور آج بھی عروج پر ہیں۔ پانچ عشروں پر مشتمل اپنے فلمی کیرئیر میں انہوں نے 190سے زاید موویز میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ امیتابھ کانگریس کی طرف سے سیاسی اکھاڑے میں اُترے اور ان کے دوست اور سابق بھارتی وزیرِ اعظم، راجیو گاندھی نے انہیں 1984ء میں اپنی پارٹی کا ٹکٹ دیا۔ وہ الہ آباد سے لوک سبھا کی نشست پر سابق وزیرِ اعلیٰ اُترپردیش، ایچ این بہوگونا کے مقابل کھڑے ہوئے اور عام انتخابات کی تاریخ کے سب سے بڑے مارجن سے فتح حاصل کی۔ تاہم، انہوں نے3سال بعد ہی سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور 1987ء میں فلم نگری میں واپس آگئے۔ بعد ازاں، اے بی سی ایل کے مالی بُحران کے دوران مدد کرنے پر بچن نے اپنے پرانے دوست امر سنگھ کی حمایت میں سماج وادی جماعت کی رُکنیت اختیار کر لی۔
رجنی کانت :تامل فلمز کے سُپر ہیرو اور معروف بھارتی اداکار، رجنی کانت نے اپنی آبائی ریاست، تامل ناڈو کی سیاست میں حصّہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی جماعت 2021ء میں تامل ناڈو کے تمام حلقوں سے الیکشن لڑے گی۔ 1975ء کے بعد سے اب تک قریباً 175 سُپر ہٹ فلمز سے شُہرت پانے والے رجنی کانت کی زیادہ تر فلمز تامل اور تیلگو زبان میں ہے۔ تامل ناڈو میں کئی مقامات پر رجنی کانت کے مجسمے نصب ہیں، جن پر مقامی افراد دودھ اور پُھول اس طرح نچھاور کرتے ہیں کہ جیسے کسی بھگوان کی پوجا کر رہے ہوں۔ رجنی کانت کا اصل نام، شیوا جی راؤ گوئیک واڈ ہے۔ وہ ابتداء میں بس کنڈکٹرکے طور پر کام کرتے رہے اور پھر انہوں نے ایک ایکٹنگ اسکول میں داخلہ لیا۔ بھارتی حکومت رجنی کانت کو اُن کی فنی خدمات پر اہم ترین قومی ایوارڈز دے چُکی ہے۔ رجنی کانت کو جب فلم، ’’شیوا جی‘‘ میں اداکاری کے عوض 26کروڑ روپے ادا کیے گئے، تو وہ جیکی چن کے بعد ایشیا کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار بن گئے۔
سنیل دَت :مدر انڈیا، سجاتہ، پڑوسن، جانی دشمن، میرا سایہ اور ملن جیسی کام یاب فلمز کے ہیرو، سنیل دَت پانچ مرتبہ رُکنِ اسمبلی منتخب ہوئے۔ فلم نگری میں اپنی کام یابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد انہوں نے سیاست کا رُخ کیا۔ 2005ء میں اپنے دیہانت کے وقت وہ من موہن حکومت میں کھیل کے وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ سنیل دَت نے سیاسی ذمّے داریوں کے ساتھ فلم کی دُنیا سے بھی تعلق قائم رکھا اور سُپر ہٹ مووی، ’’مُنّا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ ان کی زندگی کی آخری فلم تھی۔ کانگریس پارٹی کی صدر، سونیا گاندھی کے مطابق، جہلم میں پیدا ہونے والے سنیل دَت اپنے کام میں بہت سنجیدہ اور بڑے ہُنر مند انسان تھے۔ سنیل دَت واحد بھارتی اداکار تھے، جو اپنے جذبۂ خدمتِ انسانیت کی وجہ سے عوام میں بے حد مقبول تھے اور اسی کے نتیجے میں تین مرتبہ ایک ہی حلقے سے ایم پی منتخب ہوئے۔
ہیما مالنی :بالی وُڈ کی ’’ڈریم گرل‘‘، ہیما مالنی کا جادو سیاست میں بھی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔ وہ2004 ء سے بھارت کے سیاسی میدان کا حصّہ ہیں اور ان کی وابستگی بی جے پی سے ہے۔ 2014ء کے عام انتخابات میں ہیما مالنی کو 3لاکھ 50ہزار 567ووٹ ملے اور وہ متھرا سے کام یاب ہوئیں۔
کرن کھیر :کرن کھیر سینئر اداکارہ ہیں۔ انہوں نے 2014ء کے عام انتخابات میں دو حلقوں سے الیکشن لڑا اور چندی گڑھ کی نشست پر گل پانگ نامی فن کارہ کو، جو پہلی مرتبہ عام آدمی پارٹی کی طرف سے کھڑی ہوئی تھیں، شکست دی۔
پاریش راول :بالی وُڈ کے ورسٹائل اداکار، پاریش روال نے 2014ء کے عام انتخابات میں احمد آباد، گجرات سے کام یابی حاصل کی اور اس وقت رُکنِ پارلیمان ہیں۔
منوج تیواڑی :متنازع ٹی وی شو، ’’بگ باس‘‘ کے ذریعے گھر گھر اپنی پہچان بنانے والے منوج تیواڑی نے اپنی اسی شُہرت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 2014ء میں نارتھ ایسٹ دہلی کی نشست پر انتخاب لڑا اور کام یابی حاصل کی۔
دلیپ کمار :بھارتی فلم نگری کے لیجنڈ اداکار، دلیپ کمار کانگریس کی طرف سے2000ء سے2006ء تک راجیا سبھا کا حصّہ رہے۔ اس دوران انہوں نے پاک ، بھارت دوستی میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستانی اداکار اور سیاست
بھارت کی طرح پاکستان میں بھی کئی اداکاروں نے سیاست میں قدم رکھا۔ تاہم، انہیں مطلوبہ پزیرائی نہیں مل سکی۔ میدانِ سیاست میں قسمت آزمانے والے پاکستانی اداکاروں کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
طارق عزیز :معروف ٹی وی کمپیئر، طارق عزیز نے 1997ء کے عام انتخابات میں حصّہ لیا اور کام یاب ہوئے۔ تاہم، سپریم کورٹ پر حملے کے تنازعے کے سبب انہیں نا اہل قرار دے دیا گیا۔ پاکستانی ٹیلی ویژن کے مشہورِ زمانہ کوئز شو، ’’نیلام گھر ‘‘ سے شُہرت حاصل کرنے والے نام وَر اداکار، طارق عزیز پہلے پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی، لیکن سیاست ان کو راس نہ آئی۔ طارق عزیز کی بہ طور اداکار پہلی فلم، سال گرہ تھی۔
سیّد کمال :سیّد کمال لالی وُد کے ایک کام یاب کامیڈی ہیرو تھے۔ انہوں نے 1985ء کے عام انتخابات میں جماعتِ اسلامی کے خلاف قومی اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن لڑا اور ناکام رہے۔
کنول نعمان :ٹی وی کی مشہور اداکارہ، کنول نعمان کے سوا کوئی بھی فن کار اسمبلی تک نہیں پہنچ پایا اور کنول بھی مسلم لیگ (نون) کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر رُکنِ پنجاب اسمبلی بنی تھیں۔ وہ 2013ء سے 2018ء تک رُکنِ صوبائی اسمبلی رہیں۔
مسرّت شاہین :پشتو اور اردو فلمز کی مشہور ہیروئن، مسرّت شاہین اداکاری کے میدان میں تو کام یاب رہیں، لیکن جب انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنا کر سیاست شروع کی، تو وہ کام یابی حاصل نہ کر پائیں۔ انہوں نے دو مرتبہ انتخابی دنگل میں مولانا فضل الرحمٰن کے مدِ مقابل حصّہ لیا اور دونوں مرتبہ ناکام رہیں۔
تاج حیدر :پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما، تاج حیدر کا شمار مُلک کے شائستہ اطوار سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پی پی کے قیام کے ابتدائی دنوں ہی میں اس میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ تاج حیدر کام یاب سیاست دان کے ساتھ کام یاب اداکار بھی رہ چُکے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی وی کے مشہور ڈراما سیریل، پروفیسر سمیت دیگر ڈراموں میں اداکاری کر کے اپنی فن کارانہ صلاحیتیں منوائیں۔
فوزیہ وہاب :پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق رہنما، فوزیہ وہاب نے حسینہ معین کی ڈراما سیریل، کہر میں کرداراداکیا تھا۔ یہ ڈراما سیریل 1991ء-1992 ء میں آن ائیر ہوا اور اس کی کاسٹ میں فوزیہ وہاب کے علاوہ مرینہ خان، شکیل، جمشیدانصاری اور فریحہ الطاف شامل تھے۔ فوزیہ وہاب 17مئی2012 ء کو جہانِ فانی سے کُوچ کر گئیں۔
ریاستی و حکومتی سربراہ بننے والے فلمی ستارے
درجن بَھر مُلکی سربراہان کا ماضی شوبز سے وابستہ ہے، جن میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے :
رونالڈ ریگن :امریکا کے 40ویں صدر منتخب ہونے والے رونالڈ ریگن سیاست میں جنگِ عظیم، دوم کے بعد آئے، جب کہ 1932ء میںامریکا کے ایک نیوز ریڈیو چینل، WHO سے اپنے شوبِز کیریئر کا آغاز ایک اسپورٹس اناؤنسر کی حیثیت سے کیا۔ انہوں نے 1937ء میں معروف فلم ساز کمپنی، وارنر برادرز سے معاہدہ کیا تھا۔ رونالڈ ریگن نے لگ بھگ 20فلموں ، ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ تاہم، وہ بہ طور اداکار اتنی کام یابیاں حاصل نہیں کر پائے، جتنی انہوں نے بہ حیثیتِ سیاست دان حاصل کیں۔ رونالڈ ریگن 1981ء میں امریکا کے صدر منتخب ہوئے اور ان کا شمار امریکا کے کام یاب صدور اور دُنیا کے نام وَر سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔
جوزف ایسٹراڈا :فلپائن کے 13ویں صدر، جوزف ایسٹراڈا ایک معروف فلمی اداکار تھے۔ انہوں نے ایک سو سے زاید موویز میں کام کیا ۔ ان کا فلمی کیرئیر تین دہائیوں پر محیط ہے۔ جوزف نے فلم نگری سے ملنے والی شُہرت کو سیاست میں استعمال کیا اور 1992ء سے1998ء تک فلپائن کے نویں نائب صدر، جب کہ1998ء سے2001ء تک صدر رہے۔ بعدازاں، وہ منیلا کے میئر بھی منتخب ہوئے۔
مہندا راجا پاکسے :سری لنکا کے چھٹے صدر، مہندا راجا پاکسے نے گریجویشن کے بعد سنہالی زبان میں بننے والی چند فلمز میں کام کیا تھا۔ اس کے علاوہ کالج میں تھیٹر اور اسٹیج ڈراموں میں بھی حصّہ لیتے رہے۔ راجا پاکسے 2005ء سے 2015ء تک سری لنکا کے صدر رہے۔
لیچ کازیانسکی :پولینڈ کے چوتھے صدر، لیچ کازیانسکی نے پولش فلمز میں بہ طور چائلڈ اسٹار کام کیا تھا۔ تاہم، ان کی اداکاری کا سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ لیچ کازیانسکی 2005ء میں پولینڈ کے صدر بنے اور 10اپریل 2010ء کو اپنے انتقال تک اس عُہدے پر فائز رہے۔
نیلسن منڈیلا :جنوبی افریقا میں نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کرنے والی عظیم شخصیت اور سابق صدر، نیلسن منڈیلا کو اپنے مُلک میں احتراماً ’’مدیبا‘‘ کے نام سےیاد کیا جاتا ہے۔ ان کا فلمی کیریئر بہت مختصر ہے۔ انہوں نے 1992ء میں ریلیز ہونے والی فلم، Malcolm X میں کام کیا۔ منڈیلا نے اس مووی میں اسکول ٹیچر کا کردار ادا کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ :امریکا کے 45ویں صدر 70سالہ، ڈونلڈ ٹرمپ سیاست دان بننے سے پہلے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے تھے، جب کہ اس سے قبل شوبِز کی دُنیا سے وابستہ رہے ۔ انہوں نے 2004ء میں ’’دی اپرینٹس‘‘ نامی رئیلٹی ٹی وی شو میں اداکاری سمیت 2011ء میں ایک ٹی وی کامیڈی شو کی میزبانی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ، میلانیا ٹرمپ ماڈل ہیں اور ان کی بیٹی، ایوانکا بھی ماڈلنگ کرتی رہی ہیں۔
آصف علی زرداری :پاکستان کے سابق صدر، آصف علی زرداری بھی ’’سال گرہ‘‘ نامی فلم میں چائلڈ اسٹار کے طور پر کام کر چُکے ہیں۔ آصف علی زرداری کے والد، حاکم علی زرداری کراچی کے مشہور سینما گھر، ’’بمبینو‘‘ کے مالک تھے، جس کے سبب اُن کے فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے قریبی تعلقات تھے۔ فلم، سال گرہ میں وحید مُراد کے لڑکپن کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک بچّے کی ضرورت تھی اور یوں آصف علی زرداری اداکار وحید مُراد کے لڑکپن کا کردار ادا کر کے اداکاروں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ مذکورہ فلم 14فروری 1969ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
جروسلو کازیانسکی :پولینڈ کے 13ویں وزیرِ اعظم منتخب ہونے والے جروسلو کازیانسکی بھی سیاست دان بننے سے قبل اداکاری کر چُکے تھے۔ جروسلو کازیانسکی پولینڈ کے صدر رہنے والے لیچ کازیانسکی کے بڑے بھائی ہیں۔ جروسلو 2003ء میں پولینڈ کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے اور 2007ء تک اس عُہدے پر فائز رہے۔
گورنر بننے والے فلمی ستارے
فلمی ستارے متعدد ممالک میں گورنر کے عُہدے پر بھی فائز رہے۔ دُنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں امریکی ریاستوں اور فلپائنی صوبوں میں ایسی مثالیں زیادہ ملتی ہیں:
٭آرنلڈ شیواز نیگر کا شمار ہالی وُڈ کے مقبول ترین فن کاروں میں ہوتا ہے۔ آسٹریا سے تعلق رکھنے والے آرنلڈ نے عملی زندگی کا آغاز ایک باڈی بلڈر کے طور پر کیا اور کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے۔ وہ 1968ء میں امریکا آئے اور تن سازی کے ساتھ فلمز میں کام شروع کر دیا۔ تاہم، 1984ء میں منظرِ عام پر آنے والی اپنی فلم، ’’دی ٹرمینیٹر‘‘ سے انہیں شُہرت حاصل ہوئی۔ فلمی دُنیا میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ نومبر2003ء میں امریکی ریاست، کیلی فورنیا کے گورنر بنے اور جنوری 2011ء تک اس منصب پر فائز رہے۔
٭ امریکی ریاست، مینی سوٹا کے 1999ء سے 2003ء تک گورنر رہنے والے جیسی وین تورا بھی شوبِز سیلیبریٹی ہیں۔ وہ نہ صرف اداکار و مصنّف بلکہ ریسلر بھی ہیں۔ ’’پریڈیٹر‘‘ اور ’’دی رننگ مین‘‘ جیسی فلمز میں ادکاری کے جوہر دکھانے والے وین تورا ’’ورلڈ ریسلنگ فیڈریشن‘‘ کا بھی حصّہ رہے۔
٭امریکی ریاست، کنیکٹی کٹ کے79ویں گورنر، جان ڈیوس لاج اس عُہدے پر1951ء سے1955ء تک فائز رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے قانون دان، اداکار، سیاست دان اور سفارت کار کے طور پربھی خدمات انجام دیں۔ وہ 1933ء سے1942ء تک شوبِز کی دُنیا سے وابستہ رہے اور متعدد فلمز میں کام کیا۔
٭سابق امریکی صدر، رونالڈ ریگن امریکی ریاست، کیلی فورنیا کے33ویں گورنر منتخب ہوئے اور اس عُہدے پر1967ء سے1975ء تک فائز رہے۔
٭کینیڈا کے صوبے، کیوبک کے 26ویں لیفٹیننٹ گورنر، جین لوئس روکس سیاست میں قدم رکھنے سے قبل شوبِز کی دُنیا سے وابستہ تھے۔
٭رُوسی علاقے، التائی کرائے کے گورنر، میخائل ییودوکیموف مشہور کامیڈین، اداکار اور گلوکار ہیں۔ انہوں نے متعدد فلمز میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد 2003ء میں سیاست کا آغاز کیا اور 2004ء میں گورنر بنے۔
٭فلپائنی پارلیمنٹ کے سینیٹر اور صوبہ پمپانگا کے گورنر، لیتو لیپڈ نے بھی سیاست میں قدم رکھنے سے قبل متعدد فلمز اور ٹی وی ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔
٭فلپائنی صوبے، کیوائٹ کے گورنر اور سینیٹر، بانگ ریولہ جونیئر 2004ء میں سیاست میں قدم رکھنے سے قبل شوبِز کی دُنیا سے وابستہ تھے اور انہوں نے درجنوں فلمز اور ڈراموں میں کام کیا۔
٭فلپائنی صوبے، باتنگاس کی گورنر، ولمہ سینتوس مشہور اداکارہ ہیں۔ انہوں نے 1998ء میں اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔
٭فلپائنی صوبے، لاگونا کے گورنر اور میئر، جارج ایسٹریگن جونیئر اداکار، جارج ایسٹریگن کے بیٹے اور سابق صدر، جوزف ایسٹراڈا کے بھتیجے ہیں۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ متعدد فلمز اور ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کر چُکے تھے۔
٭فلپائنی صوبے، بلاکن کے نائب گورنر، ڈینیئل فرنانڈو بھی فلمی اداکار تھے۔ انہوں نے درجنوں فلمز اور ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
٭ ایملڈا پاپن ایک مشہور گلورکارہ ہیں ۔ وہ 1998ء میں فلپائنی صوبے، کیمارائنز سر کی نائب گورنر مقرّر ہوئیں اور دو بار اس عُہدے کے لیے منتخب ہوئیں۔
٭ فلپائنی صوبے، کیوائٹ کے نائب گورنر، جولو ریولہ بھی ایک کامیڈین تھے۔