ہم نے ہندوستان کو ہر قسم کی مراعات دیں اور بہت سے معاہدے بھی کئے مگر ہر مرتبہ وہ اپنے معاہدے سے مکر گیا اور ہم احتجاج پر احتجاج کرتے رہے۔ اسی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی لٹکا ہوا ہے جبکہ کشمیر کے مسئلے کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداد بھی موجود ہے۔ یہ قرارداد اس وقت منظور ہوئی تھی جب ہندوستانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت اقوام متحدہ کی صدر تھیں اور شیخ محمد عبداللہ کشمیری لیڈر کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں پیش ہوتےتھے۔ وہاں یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ کشمیر میں ہر قیمت پر رائے شماری کرائے گا۔ وجے لکشمی پنڈت نے ڈاکٹر گراہم کو اقوام متحدہ کا نمائندہ بنا کر کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ہندوستان بھیجا مگر ان کے بھائی پنڈت جواہر لعل نہرو نے انہیں کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس وقت شیخ عبداللہ کشمیر کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’آتش چنار‘‘ میں بھی اس کا ذکر کیا ہے مگر حسب سابق ہندوستان تمام معاہدوں سے منکر ہو گیا۔ پاکستان میں جنگ اقتدار جاری رہی ایک کے بعد دوسرا حکمراں برسراقتدار آتا رہا۔ یہ ملک ایک تماشا بن گیا اور کوئی طاقتور حکومت ہندوستان کو اس معاہدے کی تکمیل پر آمادہ نہ کر سکی۔ پھرہندوستان پاکستان کے درمیان دو جنگیں بھی ہوئیں۔ ہمارے عوام اور افواج پاکستان کے جانبازوں نے ایسی خوفناک جنگ لڑی کہ ہندوستان کے چھ سو مربع میل کے علاقے پر ہمارے شیردل مجاہدین نے قبضہ کر لیا جس میں موناباؤ ہندوستان کا اہم علاقہ بھی شامل تھا۔آج ہم ہندوستان سے امن کی اپیلیں تو کرتے ہیں مگر وہ اس کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ 1965ء میں ہندوستان کی کمزور قیادت نے روس کو بیچ میں ڈال کر تاشقند میں ایک معاہدہ ہندوستان پاکستان کے درمیان کرا دیا۔
لال بہادر شاستری روس میںدل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے کیونکہ انہیں شدید صدمہ تھا کہ وہ ہندوستانی قوم کو کیا جواب دیں گے کہ پاکستان پر قبضہ کرنے کے خواب کا کیا انجام ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان پاکستان کے صدر تھے اور یہاں حسب روایت معاہدہ تاشقند کے خلاف زبردست تحریک چلی مگر ہم تو جمہوریت کے لئے لڑتے رہے اور ہندوستان نے کسی احتجاج کی پروا نہیں کی۔ آج بھی معاہدہ تاشقند موجود ہے مگر ہمارے یہاں بقول اپوزیشن نہ کوئی جمہوریت ہے اور نہ ہی ہندوستان سے کوئی بات منوانے کی طاقت۔ یہاں صرف جنگ اقتدار جاری ہے خداوند ایہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔ کیا اب ہم ہندوستان سے ہاتھ جوڑ کر التجائیں کریں گے کہ حضور ہم سے کئے گئے تحریری معاہدوں کی پابندی کریں۔ ہندوستان میں عملاً ایسی تحریکیں بھی چل رہی ہیں جن کے نتیجے میں مجھے جسٹس شہاب الدین کی قیادت میں ایک اور پاکستان بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یاد رہے جسٹس شہاب الدین کو ہندوستانی میڈیا دوسرا قائداعظم محمد علی جناح بھی کہتا تھا۔ رہا ہماری قیادت کا مسئلہ کہیں سندھ کی سیاست ہو رہی ہے کہیں پنجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کہیں ایم کیو ایم لیڈر شپ کو غدار قرار دیا جا رہا ہے مجھے اپنے ملک کی سیاست کا کوئی بھی رخ ایسا نظر نہیں آ رہا ہے جس سے ہماری قومی لائن آف ایکشن نظر آئے کیا ہو گا، کیسے ہو گا کیونکر ہو گا اور ہم ہندوستان سے کیسے اپنی بات منوائیں گے۔ عوام میں شدید مایوسی ہے۔
دنیا بھر میں پاکستان کے اقتدار پسندوں کی کرپشن کی داستانیں میڈیا پر موجود ہیں۔ مجھ جیسے لوگوں کو کوئی بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی۔ میں خان عبدالقیوم خان کا قریبی ساتھی رہا ہوں۔ وہ کہتے تھے بلکہ انہوں نے ٹی وی پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کوئی بھی کرپشن کو روکنے کی کوشش کرے گا، مار دیا جائے گا۔ ہم کرپشن کی انکوائریاں کراتے ہیں مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ حالانکہ ہمارے یہاں سڑکوں پر کرپشن بکھری پڑی ہے۔ چینی صدر مائوزے تنگ نے کہا تھا۔ پاکستان کے لوگ اپنے حقوق کے معاملے میں سنجیدہ ہیں اگر آج چند لوگوں کو لٹکا دیا جائے اور انہیں نشان عبرت بنا دیا جائے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ ملک سے کرپشن کا وجود کافی حد تک مٹ جائے گا مگر جن لوگوں کو کرپشن ختم کرنے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے ان کے بارے میں داستانیں پڑھ کر عوام بددل ہوچکے ہیں۔ ملک میں ان دنوں شادیوں کا موسم ہے اور گوشت اور اشیائے خوردونوش کے بارے میں ہوشربا داستانیں میڈیا پر آرہی ہیں مگر ابھی تک ایک شخص بھی عبرت ناک سزا سے نہیں گزرا۔ لوگوں کو حلال گوشت کی بجائے مختلف مکروہ جانوروں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے اور اشیائے خوردونوش کو کوئی چیک کرنے والا نہیں۔ میں نے مختلف شادیوں میں شرکت کی ہے کھانے کا جو استحصال اور ففٹی پرسنٹ بربادی دیکھی ہے میں نے لوگوں کو حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی شادی کی مثالیں بھی دی ہیں جو سادگی کا نمونہ تھی مگر بات وہیں کی وہیں ہے۔ ملک کی اقتصادی صورتحال کے پیش نظر امیر ترین لوگ شادیوں میں اس قسم کی لگژری لائف کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حکومتی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ تم نے یہ خرچ کہاں سے اور کیسے کیا ہے۔ غلام اسحق خان سیکرٹری وزیر خزانہ تھے اور ڈھاکہ میں اقتصادی صورتحال پر وہ کافی متفکر دکھائی دیئے۔ اس وقت وزیر خزانہ غضنفر علی قزلباش تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ یہ صورتحال بہتر نہیں ہے۔ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا مگر آج بھی صورتحال وہی ہے کیا ہونا چاہئے؟