جون کاگرما گرم مہینہ تو ہر سال ہی آتاہے ،لیکن رواں سال جو ن میں مولا جٹ اور نوری نت کے درمیان بڑی گرما گرمی ہونے والی ہے۔ فلم کی سنیماٹوگرافی اور ایکشن سیکوئنس دیکھ کر فلم بینوںکے واقعی پسینے چھوٹ جائیں گے اور پاکستانی سنیما ایک بار پھر فخر سے سر اٹھائے گا کیونکہ دی لیجنڈ آ ف مولا جٹ کا ٹریلر یہی تصویر پیش کرتاہے۔ بہت سے لوگوں نے دانتوںتلے انگلیاں دبالیں اور ہمارے جیسے چنیدہ فلمیں دیکھنے والوں نے بھی ارادے باندھ لیے کہ فلم دیکھنے ضرور جائیں گے۔ اگر آپ نے اس فلم کا ٹریلر ابھی تک نہیں دیکھاتو ضرور دیکھیں، آپ بھی داد دیے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔ اکثریت کی رائے ہے کہ یہ کسی ہالی ووڈ ایکشن فلم کا ٹریلر لگتا ہے۔
نواں آیا ایں سوھنیاں...ایک ایسا ڈائیلاگ تھا، جو فلم مولاجٹ کی وجہ سے زبان زد خاص وعام ہوا اور یہ نئی (نویں) آنے والی فلم ان امیدوں میں جان ڈالتی ہے کہ ہم بھی بین الاقوامی سنیما کو یہ باور کرواسکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی ٹیلنٹ کے چشمے پھوٹتے ہیں اور ہم کسی سے کم نہیں۔
لیجنڈری مولاجٹ کی کامیابی
1979ء میں ہر کسی کو اپنے سحر میں جکڑنے والی پاکستانی تاریخ کی کامیاب ترین پنجابی فلم مولاجٹ کے مرکزی کرداروںمیں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی امر ہو گئے۔ لاہو ر کے گلستان سنیما میں یہ فلم 130ہفتوںتک مسلسل نمائش پذیر رہی جبکہ ہر سنیما میں اپنی اوّلین نمائش کے دوران کل ملا کر یہ فلم 310ہفتوں تک چلی۔ لاہور کے علاوہ اس فلم نے راولپنڈی، فیصل آباد اورملتان میں گولڈ ن جوبلی جبکہ گجرات، گجرانوالہ ، سیالکوٹ اور سرگودھا میں سلور جوبلی کی۔ شاید یہ فلم کچھ عرصہ مزید نہ اُترتی لیکن انسانی ٹانگ کے کاٹنے کے ایک پرتشدد سین پر کئے گئے اعتراض کی وجہ سے فلم پر پابندی لگا دی گئی ورنہ ممکنہ طور پر یہ فلم مسلسل پانچ سال تک نمائش پذیر رہنے کا فلم شعلے کا ریکارڈ توڑ دیتی۔
نیا مولاجٹ ، نئی توقعات
بلال لاشاری کی محنت کو سامنے لاتی یہ فلم پنجابی زبان میں ہونے کے باوجو د پنجابی نہیں لگتی۔اس فلم پر کروڑوں روپے لگے ہیں اور امید یہی ہے کہ یہ اچھا بزنس کرے گی۔ فلم کا ٹریلر ریلز ہوتے ہی ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، جسے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پڑوسی ملک میں بھی بہت پسند کیا گیا۔ لوگ فواد خان اور ماہرہ خان کے ہیش ٹیگ سے اسے تلاش اورشیئر کرتے رہے۔ کئی غیرملکی ستاروں نے ’’دی لیجنڈ آف مولاجٹ ‘‘ کی بھرپور تعریفیں کیں۔ معروف فلم میکر کرن جوہر نے ٹوئٹر پر فواد خان کو مبارکباد دیتے ہوئے بلکہ تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھے دکھائی دے رہے ہیں، انہیں یقین ہے کہ فلم بہت کامیاب ہوگی۔ سدھارتھ ملہوترا، انوراگ کیشپ کی جانب سے سراہے جانے کے علاوہ تجزیہ کار ترون آدرش نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ جون 2019ء میں عید کے موقع پر سلمان خان کا مقابلہ فواد خان سے ہوگا۔ اس فلم کو اردو اور انگلش میں ڈب کرکے بین الاقوامی سطح پر ریلیز کیا جائے تو اس کی کامیابی کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔
بڑی فلموں سے موازنہ
اگر آپ اس فلم کا موازنہ 2018ء میں ریلیز ہونے والی عامر خان کی فلاپ فلم ’’ٹھگ آف ہندوستان‘‘ سے کررہے ہیں تو یہ بات بھی دی لیجنڈآف مولا جٹ کے حق میں جاتی ہے، کیونکہ عامر خان کی فلم نے اس کے مقابلے میں 600 کروڑ روپے زیادہ خرچ کیے تھے۔ وہ بھلے سو کروڑ کما بھی لیتی لیکن پیسے پورے نہیں کرپاتی۔30 کروڑ روپے سے زائد میں بننے والی بلال لاشاری کی فلم اگر کروڑ کی سنچر ی کرلیتی ہے تو یہ عظیم کامیابی ہوگی اور اگر یہ فلم چین میں ہٹ ہوگئی تو پھر ڈبل یا ٹرپل سنچری بھی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ اگر اسے رسل کرو کی گلیڈی ایٹر سے ملار ہے ہیں تو اسے بھی مولاجٹ کی کامیابی گردانا جاسکتا ہے۔ ماضی کی مثالیں لیں تو چند ایک فلموں کے ری میک تو کامیاب رہے، لیکن فلم بینوں نے اورجنل فلم کو ہی بہتر قرار دیا۔
نئی فلم ، نیا تنازعہ
پرانی فلم کے پروڈیوسر محمد سرور بھٹی نے بلال لاشاری اور فلم کے رائٹر ناصرادیب پر الزام لگایا کہ دونوںنے ان کو گمراہ کیا،ان کی فلم مولاجٹ کے ری میک کے حقوق کبھی فروخت ہی نہیں کیے گئے۔ یاد رہے کہ نئی فلم بھی ناصر ادیب کے قلم کی کاوش ہے۔ ایک نوٹس میں سرور بھٹی نے فلم کی کاسٹ میں شامل فواد خان، حمزہ علی عباسی، ماہرہ خان اور حمیمہ ملک کو خبردار کیا کہ غیر قانونی طور پربننے والی اس فلم سے دور رہیں۔
ہمارے ہاں جو چیز متنازعہ ہوتی ہے اسے عموماً اتنی ہی مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کےبعد فلم کےٹریلر کی ریلیز کے حوالے سے توہین عدالت کا الزام بھی لگ چکاہے۔ اس ضمن میں فلم کی پروڈیوسر عمارہ حکمت کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر وہ مولا جٹ کے نام سے پہلے یا بعد میں کچھ لفظوں کا اضافہ کرکے اسے استعمال کرسکتے تھے، جو انہوں نے کیا اور اس کا نام ’’ دی لیجنڈ آف مولا جٹ ‘‘ رکھ دیا۔ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
تمام تر قانونی معاملات و تنازعات کے باوجود فلم پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے اورعید پر ریلیز ہونے کی منتظر ہے۔ فلم پروڈیوسر عمارہ حکمت کے مطابق یہ فلم سولہویں صدی کے پنجاب کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی پر مبنی ہے اور ا س کا 1979ء والی مولا جٹ سے کوئی تعلق نہیںہے ۔ انہوں نے انہی کرداروں کو لے کر فلم بنائی ہے، جن کے مصنف ناصر ادیب کے پاس ’لٹریری رائٹس‘ ہیں اور انہوں نے یہی رائٹس استعمال کیےہیں۔
فلم کا ٹریلر دیکھیں تو لگتا نہیں کہ یہ 400سال پرانا پنجاب ہے بلکہ یہ کسی رومن زمانے کو سامنے لاتاہے۔ تاہم اسٹار کاسٹ اورفلم کی شاندا ر میکنگ کو دیکھ کر لگتاہے کہ یہ فلم پرانی فلم کا ریکارڈ توڑ سکتی ہے اور پاکستانی سنیما کو نئی جہت عطا کرسکتی ہے۔