• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ويراں ہے ميکدہ، خم و ساغر اداس ہیں

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

فیض احمد فیض کا یہ خوبصورت شعر اقبال بانو کی جدائی کا غم تازہ کردیتا ہے۔ پاکستان کی یہ نامور گلوکارہ21اپریل 2009ءکو 74برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد اس دارفانی سے کوچ کرگئی تھیں۔ ان کے دنیا سے چلے جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے، جسے کوئی پُر نہ کرسکے گا۔

اقبال بانو کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، بلکہ اتنا کہنا کافی ہے کہ انہوں نے جو بھی گایا اسے ہمیشہ کے لیے امر کردیا، جن نغموں کو چھوا انہیں جاوداں کردیا۔ ملکہ غزل کو آج ہم سے بچھڑے ایک عشرہ بیت گیا ہے مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اورنغمے آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ اقبال بانو کو اپنی شخصیت کی طرح آواز کی پختگی کی وجہ سے انفرادیت حاصل تھی جبکہ موسیقی کے اسرار ورموز سے واقفیت آپ کی گائیکی کا خاصہ تھی۔ انہی خصوصیات کے ساتھ انھوں نے جس کلام کو بھی لے اور سُر کے ساتھ گایا، سامعین کو پھر یہ کلام کسی اور آواز میں نہ بھایا ۔

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

ابتدائی زندگی

اقبال بانو 1935ء میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ آپ نےبچپن سے ہی موسیقی میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔ اسی دلچسپی اور لگاؤ کے پیش نظرخاندان اور دوست احباب نے آپ کے والد سے درخواست کی کہ اقبال بانو کو موسیقی سیکھنے کی اجازت دی جائے۔ ان کے والد بھی اپنی بیٹی کا جذبہ اور لگن دیکھتے ہوئے انکار نہ کرسکے، چنانچہ آپ نے کلاسیکی موسیقی سیکھنا شروع کردی۔ ان کا طبعی رجحان ہلکی پھلکی موسیقی کی بجائے نیم کلاسیکی گلوکاری کی طرف رہا۔ آپ نے ٹھمری اور دادرا(موسیقی کی قسمیں) استاد چاند خان سے سیکھیں۔ وہ ٹھمری، غزل، نظم، سرائیکی کافی اور پنجابی گیت یکساں مہارت سے گاتی تھیں۔

کیریئر کا آغاز

استاد چاند خان نے آل انڈیا ریڈیو دہلی اسٹیشن پر گانے کے لیے آپ کی سفارش کی جو کہ منظور کرلی گئی۔ اس طرح اقبال بانو نے آل انڈیا ریڈیو دہلی اسٹیشن سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور وہاں چند سال گزارے۔1952ء میںوہ اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئیں۔ اسی سال آپ کی شادی ایک پاکستانی زمیندار سے ہوگئی۔ شادی کے بعد ان کا موسیقی سے ناطہ ٹوٹنے کے بجائے مزید گہرا ہوگیا اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ ملتان آگئیں، جہاں آپ کو بطور غزل گلوکارہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ فیض احمد فیض کے کلام کو گانے کے حوالے سے مہدی حسن کے بعد سب سےپہلا نام اقبال بانو کا ہی آتا ہے۔ اقبال بانو نے فیض احمد فیض کے ساتھ احمد فراز ، علامہ اقبال اور مرزا غالب جیسے عظیم شعراء کی غزلیں اور کئی دیگر معروف شعراء کے گیت بھی گائے۔ ان مصرعوں کی ادائیگی کو سُر اور لے کے ساتھ ایسا گایا کہ وہ بےحد مقبول ہوئے۔

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

1950ء کی دہائی میں آپ نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بطور پلے بیک سنگر جگہ بنائی ۔ اردو کے ساتھ آپ نے فارسی میں بھی غزلیں پڑھیں۔فارسی زبان میں آپ ایسے ہی غزلیں گاتی تھیں جیسے اردو میں گارہی ہوں۔ انھوں نے امیر خسرو اور نظامی گنجوی کے کلام گائے۔ آپ کی گائی ہوئی غزلوں ،گیت اور نظموں کوپاکستان کے ساتھ ہندوستان، ایران اور افغانستان میں بھی بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ کچھ غزلوں کے مصرعے بہترین گائیکی کے باعث زبان زدِ عام ہوئے۔

الفت کی نئی منزل کو چلا

تو باہیں ڈال کے باہوں میں

دِل توڑنے والے دیکھ کے چل

ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں

مشہور غزلیں اور نظمیں

آپ نے پاکستان کی کئی مشہور فلموں گمنام (1954)،قاتل(1955)،انتقام (1955) ، سرفروش (1956)، عشق لیلیٰ(1957)اور ناگن (1959) میں پس پردہ اپنی آواز کا جادو جگایا۔ پاکستان کی نوزائیدہ فلم انڈسٹری میں آپ کے گیتوں اور غزلوں کو اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہوئی۔

تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے

پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے

فیض صاحب کی نظموں اور غزلوں پر غیر اعلانیہ پابندی کے دوران وہ اقبال بانو ہی تھیں جنھوں نے الحمرا آڈیٹوریم لاہور میں فیض صاحب کی سالگرہ والے دن ان کی مشہور زمانہ نظم ’ہم بھی دیکھیں گے‘ گائی، جسے انھوں نے 1979ء میں لکھا تھا۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

اس نظم کو گانےکے دوران اہلیانِ لاہور نے اقبال بانو کے سُر میں سُر ملایا۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ اس دن پولیس کے لیے حاظرین کا جوش کم کرنا محال ہوگیا تھا۔ اس وقت سے یہ نظم اقبال بانو کا ٹریڈ مارک بن گئی اور ہر محفل میںان سے اس نظم کی فرمائش کی جانے لگی۔ اس کے بعد آپ نے فیض صاحب کی مشہور غزل’دشتِ تنہائی‘ گائی، جوکہ ان کی شہرت میں مزید اضافے کا سبب بنی۔ اس حوالے سے گلوکارہ شانتی ہيرانند کہتی ہیں، ’’اس غزل کو فیض نے لکھا ضرور تھا لیکن اس کی روح کو نکھارا اقبال بانو نے ہے‘‘۔

دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے ترے ہونٹوں کے سراب

خود اقبال بانو نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ فیض احمد فیض انھیں اپنی بیٹی کہا کرتے تھے۔ جب انھوں نے ’ہم دیکھیں گے‘ اور ’دشتِ تنہائی میں‘ گائی تو فیض صاحب نے کہا کہ اب میں اپنا کلام کسی اور کو گانے نہیں دوں گا، میرا کلام صرف تم گاؤ گی۔ اقبال بانو کو صدر پاکستان کی جانے سے تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ ان جیسی گلوکارائیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ملک میں غزل گائیکی کا منظر دھندلا ہو گیا ہے۔ آج وہ ہم میں نہیں مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اب بھی پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

تازہ ترین