• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا یونیورسٹیاں مستقبل کے چیلنجز کیلئے تیار ہیں؟

عملی زندگی میں کامیابی کے لیے اعلیٰ تعلیم کے کردار سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔ تحقیق کے مطابق، یہ نہ صرف عملی زندگی میں آپ کی کامیابی کو یقینی بناتی ہے، بلکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے افراد خود کو زیادہ مطمئن اور خوش و خرم محسوس کرتے ہیں۔ تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی بہت سے شعبہ جات میں تیزی سے تبدیلی لا رہی ہے اور بدلتے وقت کے ساتھ جابز مارکیٹ کی ضروریات بھی بدل رہی ہیں۔ اس بدلتی صورتحال کا مقابلہ کرنے اور اپنے کردار کو برقرار رکھنے کے لیے یونیورسٹیوں کو بھی اپنے لائحہ عمل میں تبدیلی لانا ہوگی، تاکہ یونیورسٹی گریجویٹس، ان صلاحیتوں او رہنر کے ساتھ فارغ التحصیل ہوکر نکلیں، جو مستقبل کی جابز مارکیٹ کی ضروریات ہیں۔

ڈیٹا سائنس

ڈیٹا کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ایک مثال دینا کافی رہے گا کہ سال 2018ء میں گوگل پر ہر منٹ کے دوران3.8ملین سرچز کی گئیں۔ ہرچندکہ ہر یونیورسٹی گریجویٹ ڈیٹاسائنس کے شعبے کا انتخاب نہیں کرے گا، لیکن مستقبل کی جابز مارکیٹ میں ڈیٹا سائنس کا حصہ بڑھنے کی پیشگوئی ہے، جس کے لیے یونیورسٹیوں کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔ دنیا بھر کی کئی یونیورسٹیوں نے ابھی سے اپنے نصاب میں ڈیٹا سائنس سے متعلق کورسز متعارف کرادیے ہیں، تاکہ کسی بھی مضمون میں میجر کرنے والا گریجویٹ، ڈیٹا میں کام کرنے والے پروفیشنلز کے ساتھ مؤثر انداز میں معلومات کا تبادلہ کرسکے۔ اس کیلئے طلباء میں ریاضی کی مؤثر صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس کی ایک مثال یونیورسٹی کالج لندن ہے، جہاں مینجمنٹ سائنس میں بیچلرز (بی ایس سی) کرنے والے طلباء کی ریاضی میں صلاحیتوں کو خصوصی طور پر جانچا جاتا ہے، تاکہ وہ بڑی مقدار میں پیدا ہونے والے ڈیٹا سے مطلب اور نتائج اخذ کرسکیں۔

اخلاقیات

متعارف کروائی جانے والی ہر نئی ٹیکنالوجی کا مقصد انسانیت کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے، تاہم چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں سامنے آنے والی نئی ٹیکنالوجیز نے اخلاقیات سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ STEMکی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء ان سنجیدہ سوالات کو سمجھنے اور معنی اخذ کرنے کے لیے اپنے آرٹس کے ہمعصر طلباء کے ساتھ بحث و مباحثہ کرکے بہتر نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے، اپنے ریگولر کورسز میں اخلاقیات کو شامل کررہے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر اخلاقیات کی کوئی مخصوص تعریف نہیں ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی اپنے فلاسفی کے گریجویٹ طلباء کو کمپیوٹر سائنس کے متعدد کورسز میں بطور ٹیچنگ اسٹاف اور اسسٹنٹ مواقع فراہم کررہی ہے، تاکہ دونوں مضامین میں میجر کرنے والے گریجویٹس کو ایک دوسرے کے مضامین کے بارے میں علم ہو اور عملی دنیا میں وہ ایک دوسرے کی ضروریات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ اسی طرح پرنسٹن یونیورسٹی اپنے انجینئرنگ کے طلباء پر زور دے رہی ہے کہ وہ عملی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے پر کام کریں۔

ورلڈ اکنامک فورم کی کارنیجی میلون یونیورسٹی نے بھی ایک پروگرام لانچ کیا ہے، جس کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے کورسز میں اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جائے گا۔

اوپن ڈیٹا

آج کے دور میں تحقیق (ریسرچ) کے لیے سائنس تک بلا رکاوٹ رسائی بنیادی ضرورت ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ ’اوپن ڈیٹا‘ ہے۔

کئی جدید اختراعات اور ایجادات کی بنیاد اس میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے ڈیٹا پر ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے ریگولیٹرز کو’ڈیٹا تک سب کو بلارکاوٹ رسائی‘ دینے کے لیے اس طرح کا مکینزم بنانے کی ضرورت ہے کہ ڈیٹا تک سب کو اس طرح رسائی حاصل ہو کہ اس کے ضروری مالکانہ حقوق پامال نہ ہوں۔ عمومی طور پر تحقیق کے لیے مطلوب ڈیٹا، یونیورسٹیوں اور غیرمنافع بخش اداروں میں تخلیق ہوتا ہے، جس کے بعد اس حوالے سے یونیورسٹیوں کا کردار بڑھ جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی ریسرچ میں سوشل سائنٹسٹ کا کردار

معروف امریکی جریدے نے 2018ء میں اس سلسلے میں ایک نیا لفظ ’ٹیک لیش‘ (Techlash)متعارف کروایا، یہ لفظ بنیادی طور پر اخلاقیات اور نئی ٹیکنالوجیز کے سامنے آنے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کی ترجمانی کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجیز سے سامنے آنے والے مسائل کا حل، ان مسائل کے پیدا ہونے کے بعد تلاش کیا جاتا ہے، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ممکنہ طور پر سامنے آنے والے مسائل کا حل پہلے ہی تلاش کرلیا جائے۔’ٹیک لیش‘ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سوشل سائنسز کا کردار اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ سوشل سائنسز کے ذریعے ہمیںیہ سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے کہ نئی ٹیکنالوجیز کے باعث سامنے آنے والے گورننس کے مسائل، نقصانات اور فوائد کو صارفین اور عوام ممکنہ طور پر کس طرح لیں گے۔

ری-اِسکلنگ

ری- اِسکلنگ (پہلے سے موجود افرادی قوت کو نئے ہنر سکھانا) ایک بڑا چیلنج ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی فیوچر آف جابز رپورٹ 2018ء کے مطابق، 2022ء تک دنیا بھر کے 54فیصد ملازمین کو اپنی نوکریاں برقرار رکھنے کے لیے نئے ہنر سیکھنا پڑیں گے یا موجودہ ہنر میں بہتری لانا پڑے گی۔ یونیورسٹیوں کو اندازہ ہے کہ اس سلسلے میں ان کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔ یونیورسٹی آف سنگاپور کی جانب سے گزشتہ سال ’لائف لانگ لرننگ پروگرام‘ لانچ کرنے کا یہی مقصد تھا۔ اس پروگرام کے تحت یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء آئندہ 20سال تک یونیورسٹی کے نئے پروگرامز میں داخلہ لینے کے اہل ہونگے، تاکہ وہ عالمی معیشت میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کرسکیں۔

تازہ ترین