• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے 9 ماہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی کابینہ تبدیل کردی ہے۔ اگرچہ کابینہ میں تبدیلیاں یا ردوبدل معمول کی بات ہے لیکن تحریک انصاف کی حکومت یا وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے دنیا اسے انتہائی غیر معمولی بات تصور کررہی ہے کیونکہ وفاقی کابینہ میں اس تبدیلی نے تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی قیادت کے بارے میں سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان میں ’’تبدیلی‘‘ لانے والی پہلی ٹیم کا انتخاب ہی درست نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان خود اپنے بیانات سے اس تاثر کو مضبوط کررہے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ٹیم کا جو کھلاڑی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرے گا، اسے ہٹادیا جائے گا اور کسی بھی وزیر یا مشیر کا قلمدان مستقل نہیں ہے۔ وزیراعظم یہ بھی تاثر دے رہے ہیں کہ بار بار تبدیلیاں کی جائیں گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم نے بین السطور یہ اعتراف کرلیا ہے کہ ان کی پہلی ٹیم کا ’’بیٹنگ آرڈر‘‘ درست نہیں تھا اور وہ ناکام ہوگئی ہے لیکن وہ نئی ٹیم کے بارے میں یقین اور اعتماد کے ساتھ بات نہیں کررہے۔ نئی ٹیم بھی بے یقینی کے ساتھ کام کا آغاز کررہی ہے کیونکہ وزیراعظم نے واضح کردیا ہے کہ کابینہ کے کسی وزیر کو مستقل قلمدان نہیں دیا گیا، چاہے وہ پرانا ہو یا نیا۔ فرض کریں کہ نئی ٹیم بھی نئے کھلاڑیوں کی شمولیت اور پرانے کھلاڑیوں کے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کے ساتھ بھی نہ چل سکی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا بار بار ٹیم تبدیل کی جاتی رہے گی اور یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ ٹیم کا کپتان صرف کھلاڑیوں پر ناقص کارکردگی کا الزام عائد کرکے بار بار ٹیم تبدیل کرتا رہے گا۔ کپتان بھی ایسا، جو ماہر سلیکٹر بھی خود ہے۔ کیا پاکستان موجودہ حالات میں ایسے تجربات کا متحمل ہوسکتا ہے؟

جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا

ردوبدل کے بعد نئی وفاقی کابینہ کی ہیئت ترکیبی کا جائزہ لیا جائے تو بنیاد میں پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی تھی۔ اب دیوار جتنی اوپر چلی جائے، سیدھی نہیں ہوگی۔ بقول کسے

خشتِ اوّل گر نہد معمار کج

تاثریا می رود دیوار کج

پہلی وفاقی کابینہ کی تشکیل کے وقت ہی یہ تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت اپنی گرفت حکومت پر مضبوط نہیں کرسکے گی کیونکہ کابینہ میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے، جن کے بارے میں تحریک انصاف کے پرانے لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ ’’منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے‘‘۔ اسد عمر کو وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے برطرف کرنے اور فواد چوہدری سے حکومتی ترجمان کی ذمہ داری واپس لینے سے وفاقی کابینہ میں تحریک انصاف کا رنگ مزید پھیکا پڑگیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے قومی حکومت بن گئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے پرانی یا موجودہ وابستگی رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ میرے خیال میں اسے قومی حکومت کہنا مناسب نہیں کیونکہ قومی حکومت اتفاق رائے سے بنتی ہے جبکہ موجودہ حکومت کی وجہ سے ملک میں سیاسی پولرائزیشن اپنی انتہاپر ہے۔ اس حکومت میں وہ سارے لوگ موجود ہیں، جو ’’اسٹیس کو‘‘ (STATUS QUO) کی علامت ہیں اور یہ عمران خان کی ٹیم ہے، جسے انہوں نے خود بار بار تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

بجٹ سے کچھ دن پہلے وزارت خزانہ کا قلمدان اسد عمر سے چھین کر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو دے دیا گیا ہے، جو قبل ازیں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں وزیراعظم شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین اور ظفر اللہ جمالی کی کابینہ میں بھی اسی منصب پر فائز رہ چکے ہیںاور ناکام رہے ہیں۔ وہ غیر سیاسی آدمی ہیں اور پاکستان میں تب آتے ہیں، جب انہیں کوئی حکومتی منصب ملتا ہے۔ جیسے ہی ان کی حکومتی ذمہ داری ختم ہوتی ہے، وہ کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اسد عمر کی ’’سی وی‘‘ شاید کمزور ہوگی لیکن اسد عمر سیاسی آدمی ہیں اور پاکستان کے لوگوں سے جڑے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی پاکستان کے مقتدر حلقوں میں وہی حیثیت ہے جو معین قریشی کی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے پاس اپنی سیاسی جماعت میں بھی کوئی دوسرا آدمی نہیں تھا، جو یہ منصب سنبھال سکتا اور پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھی کوئی شخص انہیں اس عہدے کے لئےاہل نظر نہیں آیا۔ اگر پارلیمنٹ سے باہر کسی شخص کو لینا لازمی تھا تو شوکت ترین کی ’’سی وی‘‘ بھی مضبوط ہے۔ پاکستان میں اور بھی ماہرینِ معاشیات ہیں، جن کا مستقبل اور مفاد پاکستان سے ہی جڑا ہوا ہے۔

پاکستان میں تبدیلی لانے والی سیاسی جماعت نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں ہی خود یہ اعتراف کرلیا ہے کہ اس کی ٹیم کامیاب نہیں رہی۔ نئی ٹیم کی ہیئت ترکیبی ہی ایسی ہے کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ ختم ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ یہ ٹیم تحریک انصاف کے سیاسی فلسفہ اور وژن کے مطابق نہیں ہے۔ اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ سیاسی فلسفہ اور وژن کیا ہے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی ہم خیال دیگر جماعتوں کو کرپٹ قرار دے کر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف آخر ناکام ہوئی تو پھر ایسا سیاسی خلاء پیدا ہوگا، جو سیاسی قوتیں طویل عرصے تک پُر نہیں کرسکیں گی۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران میں یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے۔ سیاسی قوتوں کی جگہ اس خلا کو جو قوتیں پُر کریں گی، ان کے لئے اس صورت حال کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان میں حقیقی سیاسی تبدیلی اور معاشی کایا پلٹ کے لئےایسی مضبوط اور زیادہ دیر چلنے والی ٹیم کا ہونا ضروری ہے، جو ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی مخالف ہو اور اقتدار کی خاطر اپنے نظریات اور سیاسی وابستگی تبدیل نہ کرے اور جس میں باہر کے ایسے کھلاڑی بھی نہ ہوں جو میچ فکس کرکے کھیلیں۔

تازہ ترین