• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سو سالہ یادوں کو کوزے میں بند کرنا مشکل ہے۔ چند باتیں پیش ہیں۔ ہم لوگ حضرت امام رضا کی اولاد ہیں۔ ایران کے قدیم شہر سبزوار میں مقیم تھے، مغل شہنشاہ ہمایوں کے ساتھ ہند آئے، یو پی کے اضلاع سہارن پور و مظفر نگر میں زمینیں ملیں۔ بعد میں میرے دادا اور دوسرے اعزا میرٹھ منتقل ہو گئے۔ والد نے فیض عام اسکول میرٹھ سے میٹرک کیا اور بھوپال آ کر نواب سلطان جہاں بیگم کے پرائیویٹ آفس میں ملازم ہوئے۔ اس زمانے میں زندگی کی رفتار بڑی سست تھی، ریاست بھوپال میں آخری عشرہ رمضان، عید کی 13 چھٹیاں ہوا کرتی تھیں اور یہی صورت ریاست حیدرآباد میں تھی جہاں محرم کی 13 تعطیلات ہوتی تھیں۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بندھی ٹکی تھیں جو برسوں ملا کرتی تھیں۔ ارزانی کافی تھی، گیہوں چار پانچ روپے من اور خالص دیسی گھی ایک روپیہ سیر تھا۔ بکری کا گوشت 12 آنے سیر اور چینی روپے کی تین سیر۔ یہیں میرے والد کی شادی ہوئی، والدہ پڑھی لکھی خاتون تھیں، تہذیب نسواں لاہور میں لکھا کرتی تھیں۔ میں 16جنوری 1913ء کو علی الصبح پیدا ہوا۔ اپنے والدین کی پہلی اولاد، زائچہ تھا جو کھو گیا البتہ چار ماہ کی ایک تصویر، نام اور عمر کے اندراج کے ساتھ موجود ہے۔ میں ڈھائی سال کا تھا کہ دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد والدہ اور نوزائیدہ دونوں کا انتقال ہو گیا۔ دادی نے بڑی نزاکت سے پرورش کی، ذرا طبیعت خراب ہوئی تو نمک مرچ، جھاڑو کے تنکے اور دروازے کی چوکھٹ کی مٹی سے نظر اتاری جاتی تھی اور کچے دھاگے میں گرہ لگا کر سالگرہ منائی جاتی تھی۔
ابتدا میں والد نے گھر پر اردو اور انگریزی پڑھائی پھر ایک بنگالی مولوی کے سپرد کیا جنہوں نے دو سال میں ناظرہ قرآن شریف اور چند دینی اور کریما پڑھائی۔ کریما کے پہلے شعر ”کریما بہ بخشائے برحال ما۔ کہ ہستم اسیر کمند ہوا“ کا ترجمہ تو کیا مگر مفہوم برسوں بعد سمجھ میں آیا۔ چوتھی کلاس میں اسکول میں داخلہ ہوا۔ فتح سمرنا کے جلوس میں ہاتھی پر بیٹھ کر دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ”مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا“ گایا۔ چھٹی جماعت میں بورڈ کا امتحان دے کر شہر کے سب سے بڑے اسکول میں داخلہ لیا۔ اس کے ہیڈ ماسٹر حاجی جی کہلاتے اور نظر بھی حاجی آتے تھے۔ سر پر عمامہ، بدن پر ایک ڈھیلا ڈھالا چوغا، اونچی شلوار، نری کا جوتا۔ مگر رعب بہت تھا اور ہر شرارت کی سزا دو بید۔ میں جب دسویں میں آیا تو اسکول میں لندن سے بی ایڈ کرنے والے ہیڈ ماسٹر آئے جنہوں نے اسکول کا چولا ہی بدل دیا، سوسائٹیاں بنیں، میگزین جاری ہوا، میرے مضمون شائع ہونے لگے تھے۔ مجھے گہوارہ ادب کا پہلا مدیر بنا دیا۔ مرحوم احمد علی خان ایڈیٹر ڈان بھی بعد میں کسی وقت اس کے مدیر بنے۔ میں نے تقریری مقابلوں میں بھی فرسٹ انعامات حاصل کئے۔
اسکول کا الحاق جامعہ عثمانیہ سے ہو چکا تھا۔ میں نے سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک کیا، اس زمانے میں بھوپال میں انگریزی کالج نہیں تھا، تعلیم کے لئے باہر جانے والے طلباء کو ریاست کی جانب سے وظائف ملا کرتے تھے۔ ایک مہاسبھائی استاد کی کرم فرمائی سے مجھے ایرانی قرار دے کر وظیفے سے محروم کر دیا گیا۔ میرے لئے یہ بڑا کٹھن وقت تھا۔ والد بے روزگار اور میں بے وسیلہ۔ اس وقت یہ تصور بھی ممکن نہ تھا کہ میں آگے پڑھ سکوں گا یا پی ایچ ڈی تک پہنچ سکوں گا یا دو مرتبہ امریکہ جا سکوں گا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ اس وقت میری دوسری والدہ نے بڑی اعانت کی جو زنانہ اسٹور کے نام سے کاروبار کر رہی تھیں اور بقول شاہ بلیخ الدین ”برتن بھانڈے لے لے کر (مسجد کے حجرے میں ٹھہرنے کے ادارے سے) اورنگ پہنچا جہاں قسمت نے یاوری کی۔ ہاسٹل کے وارڈن وہاج الدین شمیم تھے جب ان کو بتایا کہ میں ہاسٹل میں نہیں رہ سکتا تو انہوں نے ٹیوشن وغیرہ کا انتظام کر کے ہاسٹل ہی میں قیام کرنے کی تاکید کی۔ دراصل اس زمانے میں اساتذہ طلباء کی ہر طرح امداد کیا کرتے تھے۔ کچھ دنوں بعد ریاست بھوپال سے ایک کے بجائے دو وظائف مل گئے اور انٹر آسانی سے کر لیا۔ اب میرا علی گڑھ جانے کا ارادہ تھا مگر شمیم صاحب کے تار پر کہ ”جوائن اسکول آف اکنامکس“ حیدرآباد چلا گیا۔ بی اے میں اختیاری مضامین میں فرسٹ اور ایم اے میں فرسٹ ڈویژن فرسٹ کی بدولت جامعہ سے میرٹ کے وظائف ملے اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا۔ پہلے سال مواد جمع کرتا رہا مگر بھوپال میں ملازمت ملنے کی وجہ سے اس کو مکمل نہ کر سکا جس کا عمر بھر افسوس رہا۔
1940ء میں شادی ہو گئی، بیوی کا تعلق عرب کے ایک علمی خاندان سے تھا۔ شعر و شاعری سے خاصا لگاؤ تھا۔ غالب، جگر، احسان دانش وغیرہ کے درجنوں شعر یاد تھے اور ان کا برمحل استعمال کرتی تھیں۔
ریاست بھوپال میں اسسٹنٹ سینسس آفیسر سے ملازمت کی ابتدا کی، راشنگ آفیسر اور لیبر آفیسر رہا۔ راشنگ میں کمائی کی سہولت تھی مگر کبھی ایک پیسہ نہیں لیا، اسی نیک نامی پر محکمے کے دوسرے افسران کے مقابلے میں ریاست سے ”بہادر“ کا خطاب ملا۔1948ء میں پاکستان آیا یہاں ملازمت تو مل گئی مگر چھ مہینے مارٹن کوارٹر کے برآمدے میں ہواداری کھول کر رات گزارتا اور صبح کو لپیٹ کر اندر رکھ دیتا تھا۔ اکنامک ایڈوائزر کے دفتر سے نوزائیدہ مرکزی دفتر شماریات میں تبادلہ ہوا۔ یہیں پہلی مرتبہ ایک سالہ ٹریننگ کے لئے امریکہ جانے کا موقع ملا۔ 58 میں اکیڈمی برائے ترقی دیہات پشاور میں ریسرچ اسپیشلسٹ کی حیثیت سے منتخب ہوا اور دوسری مرتبہ ایک سالہ ٹریننگ کے لئے امریکہ جانے کا موقع ملا۔ آٹھ سال پشاور میں گزارے پھر کراچی آیا اور1976ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہو گیا۔ چار سال ریسرچ کے سلسلے میں جامعہ کراچی اور ایک سال اسٹاف کالج سے منسلک رہا۔
ادبی سفر جو1931ء سے شروع کیا تھا، بحمد اللہ آج تک جاری ہے۔ اردو انگریزی میں ڈیڑھ سو سے زائد مضامین ادب، تاریخ، بینکاری اور معاشی مسائل پر شائع ہو چکے ہیں۔ کتابوں کی تعداد دو درجن کے قریب ہے، اس میں شماریاتی اور انتظامیہ کی کتابیں شامل ہیں۔ زکوٰة اور عُشر پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی، یادوں کی مہک خودنوشت ہے۔ ڈاکٹر رضیہ حامد نے محمد احمد سبزواری فن و شخصیت، فکر و آگہی کا سبزواری نمبر اور محمد احمد سبزواری ایک مطالعہ شائع کی ہیں۔ میں نے کافی ترجمے کئے مگر دو بڑے اہم ہیں۔ ایک ڈاکٹر گیڈ گل کی کتاب کا جو بمبئی یونیورسٹی میں پچاس سال تک ایم اے کے نصاب میں شامل رہی اور دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کی طرف سے 1943ء میں شائع ہوئی اور اسی سال اردو میں بینکاری پر پہلی کتاب ”ہمارے بنک“ انجمن ترقی اردو (ہند) سے شائع ہوئی اور دوسرا ڈاکٹر محبوب الحق کی مشہور کتاب ”ہیومن ڈیولپمنٹ ان ساؤتھ ایشیاء“ مجھ پر جن کرم فرماؤں نے قلم اٹھایا ان میں ڈاکٹر اسلم فرخی، مقصود الٰہی شیخ، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر رضیہ حامد، عبدالحمید کمالی، ڈاکٹر احمر رفاعی، پروفیسر حکیم ظل الرحمن علی گڑھ، پروفیسر مسعود الحسن علی گڑھ، پروفیسر آفاق احمد بھوپالی، مرزا ظفر الحسن، مصطفی تاج، راغب مراد آبادی، محسن بھوپالی، مختار اجمیری وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے تقریباً 25 کتابوں پر تعارف، مقدمے، دیباچے یا لیف لیٹ لکھے۔ ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی کتاب ”تشریح جدید اقتصادی اصلاحات پر“ میرے مقدمے کو مقتدرہ قومی زبان نے اپنے اخبار اردو میں علیحدہ شائع کیا۔ میں نے انجمن ترقی اردو کا ماہ نامہ جریدہ ”معاشیات“ جاری کیا اور چھ سال اس کی ادارت کی۔ میرے پہلی مرتبہ امریکہ جاتے ہی وہ بند ہو گیا۔ میں اردو کے سب سے بڑے اخبار جنگ میں 17 سال سے معیشت کی جھلکیوں کے عنوان سے کالم لکھ رہا ہوں،آج تک ناغہ نہیں ہوا۔ مجھے 23 ملکوں میں جانے کا موقع ملا۔ 1975 میں حج اور دربار رسول میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں آرٹس کونسل کے علاوہ کسی ادبی انجمن کا رکن نہیں مگر ہر حلقے کے لوگ عزت اور محبت سے ملتے ہیں۔ میری سوویں سالگرہ شوریٰ ہمدرد، انجمن ترقی اردو اور بریڈ فورڈ میں مقصود الٰہی شیخ منا رہے ہیں، میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔ دعا کیجئے کہ اسلام و ایمان پر خاتمہ ہو۔
شکر ہے کہ اللہ نے مجھے چار بیٹے عطا کئے ہیں۔ میں آج کل اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر ہوں۔ بہو اور پوتا پوتی کی وجہ سے زندگی ہنسی خوشی اور آرام سے گزر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو خوش و خرم رکھے، آمین۔
تازہ ترین