اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے سروس چارجز کے نام پر موبائل فون صارفین سے اضافی ایڈوانس ٹیکس وصولی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی جانب سے اس معاملہ کو وزیر اعظم عمران خان کے علم میں لانے اور ان سے اس حوالے سے میکنزم کی تشکیل سے متعلق ہدایات لینے کیلئے مہلت دینے کی استدعا پر سماعت کل بدھ تک ملتوی کردی۔ جبکہ عدالت نے آبزرویش دی ہے کہ عوام کی جیبوں سے پیسے نکالے جا رہے ہیں،قانون کاجائزہ لینگے، لگتا ہے،قانون سازوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ پاکستان کا ہر شہری ٹیکس دینے کے قابل ہے،ریاست سمجھتی ہے کہ شہری خود نشاندھی کریگا کہ وہ ٹیکس ادا کرتا ہے یا نہیں، حکومت اس مسئلے کا کوئی حل نکالتے ہوئے کوئی ایسا میکنزم بنائے کہ انکم ٹیکس نہ دینے والوں کو محض موبائل فون کارڈ پر ایڈوانس ٹیکس کا استثنیٰ لینےکیلئے کمشنر انکم ٹیکس سے سرٹیفکیٹ نہ لینا پڑے،دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا ریڑھی والا موبائل کا ریفنڈ لینے انکم ٹیکس کمشنر کے پاس جائیگا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نےاٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت کا کیا موقف ہے؟ اور اس کیس کا اصل ایشو کیا ہے، تو انہوںنے کہاکہ ہم نے اس حوالے سے تحریری جواب جمع کروا دیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ اس قانون میں کیا خرابی ہے، کیاپاکستان کاہرشہری ٹیکس دینے کے قابل ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایڈوانس ٹیکس تعریف کے حساب سے انکم ٹیکس ہے، ایک صارف جو ٹیکس دینے کی تعریف میں ہی نہیں آتا وہ موبائل فون پر کیسے ٹیکس دے سکتا ہے؟ ہم چاہتے ہیں حکومت ایک میکنزم بنائے تاکہ نان فائلر سے موبائل کارڈ پر ٹیکس نہ لیا جائے۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں انکم ٹیکس قانون کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ریڑھے پر مزدوری کرنے والا شخص موبائل ریفنڈکیلئے کمشنر انکم ٹیکس کے آفس جاکر سرٹیفکیٹ لے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ریفنڈ نہ مانگے کیا وہ جیب میں ڈال لیں گے ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے قانون سازی کرکے قرار دے سکتی ہے کہ موبائل کارڈ خرید نے والے ہر صارف کو ہی یہ ٹیکس دینا ہوگا، لیکن اسے انکم ٹیکس کے ساتھ نہ ملایا جائے، اس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔