راشد اشرف
(نوٹ: زیرِ نظر مضمون اب سے چند برس قبل تحریر کیا گیا تھا، لہٰذا اسے اسی تناظر میں پڑھا جائے)
انتظار حسین اپنی خودنوشت ’’چراغوں کا دھواں‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ سلیم احمد اور میں نومبر1947ء کی ایک ٹھنڈی صبح مغل پورہ کے اسٹیشن پر ایک د وسرے سے بچھڑے تھے۔ اب گیارہ برس بعد مل رہے تھے۔ سلیم کو تو47ء میں جیسا چھوڑا تھا،ویسا ہی پایا مگر وہ جو اس ٹولی کا دوسراجوان تھا ،جمیل خان،جس نے آگے چل کر جمیل جالبی کے نام سے اپنی محققی کا ڈنکا بجایا، وہ کتنا بدل گیا تھا ۔ماشاء اﷲ کیا قد نکالا تھا۔جب میرٹھ میں دیکھا تھا تو نامِ خدا، ابھی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔چھریرا بدن، گوری رنگت، پتلے پتلے ہونٹ،ستواں ناک، جیسی اچھی صورت ویسا اجلا لباس۔ میرٹھ کالج کا نیا دانہ۔ اب جو دیکھا، نقشہ کچھ سے کچھ ہوچکا تھا۔لمبا قد، چوڑا چکلا بدن، چہرہ سرخ و سفید، کلّے میں گلوری،ہونٹوں پر پان کی لا لی ، جیب میں پانوں کی ڈبیا اور قوام کی ڈبچی۔ کتنی جلدی جلدی مگر کس شائستگی سے جیب سے یہ ڈبیاں نکلتی تھیں۔
’’ ناصر صاحب! یہ پان لیجیے۔اور یہ قوام چکھیے۔‘‘
ناصر کاظمی کو جمیل خان کیا ملے، دونوں جہاں کی نعمت مل گئی۔ فورا ہی مجھے اپنی رائے سے آگاہ کردیا۔
’’ یہ تمہارے جمیل صاحب شستہ آدمی ہیں۔‘‘
پانوں کی اس ڈبیا اور قوام اس کی ڈبچی نے ہمارے بہنوئی شمشاد حسین کو بھی متاثر کیا۔
’’ ارے میاں! تمہارے دوستوں میں بس یہی ایک جوان کام کا ہے۔ باقی تو سب مجھے یوں ہی سے لگتے ہیں۔‘‘
جمیل جالبی اصل میں اپنے دادا میاں کے ایک خستہ و بوسیدہ مخطوطے سے برآمد ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ1948ء میں’’ نظام‘‘ کے دفتر میں مجھے ایک مخطوطہ موصول ہوا۔ پیلے بوسیدہ ورقے،شکستہ خط میںلکھے ہوئے۔ بھیجنے والا جمیل احمد خاں۔ لکھا تھا کہ جالب دہلوی میرے دادا تھے۔یہ ان کا مخطوطہ ہے۔ اسے ’’نظام‘‘ میں قسط وار شایع کیا جائے تو کیا خوب بات ہوگی۔ پتا نہیں کتنی قسطیں چھپیں نظام میں۔،مگر میرا پھوہڑ پن یا محققانہ روایت سے ناآشنائی کہ اس مخطوطے کو سنبھال کر نہیں رکھا ۔ ہاں اور ابھی اس مخطوطے کی اشاعت کی ذمے داری سے عہدہ برآ نہیں ہوا تھا کہ ایک اور مخطوطہ موصول ہوا۔یہ خود جمیل خاں کا مخطوطہ تھا۔ سفید، اُجلے اوراق، جمیل خاں کی خوش نما تحریر۔ موضوع پاکستانی کلچر ۔شایداس کی بھی کچھ قسطیں نظام میں چھپی تھیں۔ زمانے بعد جمیل خاں نے مجھ سے ان دونوں مخطوطوں کا تقاضہ کیا۔مگر مجھ کم فہم سے ان مخطوطوں کی قدر وقیمت جاننے میں چوک ہوئی۔ اپنی لاپروائی سے انہیں گُم کردیااور جمیل خاں پر اس کا رد عمل کیا ہوا؟ اپنے لکھے کو تو انہوں نے دوبارہ لکھ ڈالا اور شاید اب مطالعہ اور غور و فکر کے بعد زیادہ سمجھ داری سے لکھا۔ یوں ان کی کتاب ’’پاکستانی کلچر‘‘ منصہ شہود پر آئی۔باقی دادا کے مخطوطے کی گُم شدگی کا جواب انہوں نے اس طرح دیا کہ اسی طرح کے خستہ و بوسیدہ،کِرم خوردہ مخطوطے تحقیق کرکے برآمد کرنے شروع کردیے اور جلد ہی نقادسے محقق بن گئے۔ اسے دادا میاں کا فیضان کہنا چاہیے کہ ان کے ایک مخطوطے کی گُم شدگی نے ان کے لیے قمچی کا کام دیا۔ پھر ایسے مخطوطات دریافت کرنا ہی ان کا فن ٹھہرا۔ دادا کے احسان کا بدلہ انہوں نے اس طرح دیا کہ ان کے نام کو اپنے نام کے ساتھ چسپاں کرلیا اور جمیل خاں سے جمیل جالبی بن گئے ‘‘۔ (انتظار حسین)
مذکورہ بالا اقتباس میں انتظار حسین نے جمیل جالبی کے دادا سید جالب دہلوی کا ذکر کیا ہے۔ اردو ادب کے صفِ اوّل کے صحافی سید جالب دہلوی اور جالبی صاحب کے دادا دونوں ہم زلف تھے۔جمیل احمد خاں ، سیدجالب دہلوی سے متاثرتھے، سو خود کو جمیل جالبی کہلوایا ۔
جمیل جالبی کی وضع داری پر تو مرزا ادیب بھی فریفتہ تھے۔اپنے مضمون ’’دیو قامت‘‘ میں انہوں نے اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی سولہ جون1929 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ سرکاری ریکارڈ میں ان کی تاریخ پیدا ئش یکم جولائی1929درج ہے۔ 1943میں میٹر ک کا امتحان سہارن پور کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے پاس کیا۔ میرٹھ کالج سے1945میں ایف اے اور 1947میں بی اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔1947میں پاکستان چلے آئے۔یہاں سے ایم اے ، ایل ایل بی ، پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی اسناد حاصل کیں۔ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں سندھ یونیورسٹی،جام شورو سے حاصل کیں۔ انہیںڈی ایس سی کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی۔ جامعہ کراچی میں وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں،مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، کے صدر نشین رہے ، اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ اور متعدد اہم اداروں کے رکن بھی رہے ۔
انہوں نے متعدد کتب لکھیں اور مرتب کیں ۔ ایسی چند تصانیف بہ شمول لغات و تراجم میں، تاریخ اردو ادب (چار جلدیں)،ادبی تحقیق،بوطیقا از ارسطو ، بزم خوش نفساں، ن م راشد،ایک مطالعہ، کلیات میرا جی، میرا امن،ایک مطالعہ، فرہنگ اصطلاحات جامعہ عثمانیہ،میرا جی، ایک مطالعہ، ہند و پاک میں اسلامی کلچر،ہند وپاک میں اسلامی جدیدیت، پاکستانی کلچر، قدیم اردو کی لغت، قلندر بخش جرات، محمد تقی میر، ادب، کلچر اور مسائل، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ،تنقید اور تجربہ، دیوان نصرتی، دیوان حسن شوقی، نئی تنقید، بارہ کہانیاں، حیرت ناک کہانیاں، ایلیٹ کے مضامین ، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں ۔ آپ کا سب سے اہم کام قومی انگریزی اردو لغت کی تدوین ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 1964ء ،1973ء ،1974ء اور 1975ء میں داؤد ادبی انعام، 1987ء میں یونیورسٹی گولڈ میڈل، 1989ء میں محمد طفیل ادبی ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی طرف سے 1990ء میں ستارۂ امتیاز اور 1994ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 2015ء میں آپ کو پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام کمال فن ادب انعام سے نوازا گیا۔
نصر اﷲ خاں اپنے مضمون ’’وضع دار آدمی‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ میں اس زمانے کی بات کررہا ہوں جب شاہد احمد دہلوی ِ،حسن عسکری، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، جمیل جالبی، سلیم احمد اورمیں پیر الہی بخش کالونی میں رہتے تھے۔پیر کالونی اس وقت شہر کے معززین کی آماج گاہ تھی۔ سارے برصغیر سے آنے والے اکثر یہیں قیام کرتے تھے۔شام ہوتی تو لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ، دور دراز سے آکر ایک جگہ اکٹھا ہونے والوں سے ملنے نکل جاتے۔اکثر جمیل جالبی سے شاہد صاحب کے گھر پر یا بس اسٹاپ کے آس پاس ملاقات ہوجاتی اور ہم گھنٹوں باتیں کرتے ۔بولنے کا کام میں کرتاتھا اور سننے کا کام جالبی کرتے تھے۔کبھی ہم اپنے محلے کے گلی کوچو ں میں چہل قدمی کرنے لگتے۔جالبی صاحب کو جس گھر سے رات کی رانی کی خوش بو آتی یہ بلا تامل اپنی لمبی سی گردن اس گھر کی دیوار پر رکھ کر ساری خوش بو ایک سانس میں کھینچ لیا کرتے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ دن کے راجا کو اس کی خبر نہ ہوئی ورنہ قیامت گزر جاتی۔ یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب ان کے گھر میں رات کی رانی نہ آئی تھی۔ جمیل جالبی وضع دار اور محبت ومروت والے بڑے بھلے آدمی ہیں ۔ اگر آدمی حالی ہونےکے ساتھ تھوڑا شبلی بھی ہو اور اکبر الہ آبادی میں تھوڑے سے سرسید احمد خان اور ملا دیے جائیں تو شکل ہی کچھ اور نکل آتی ہے‘‘۔
جمیل جالبی کا کتب خانہ یکتائے روزگار کتب خانہ ہے۔ کتابوں کو محبت سے سینت سینت کر رکھنا تو کوئی ان سے سیکھے۔بہ قول نصر اﷲ خاں: ’’ جمیل جالبی ریشم کے کیڑوں کی جگہ کتابوں کے کیڑے پالتے ہیں۔اگر انہیں ان کی پسند کی کِرم خوردہ کتاب نہیں ملتی تو یہ کتاب کی جگہ اس کتاب کے کیڑے حاصل کرلیتے ہیں اور پھر ان کیڑوں کا پیٹ چاک کرکے اس میں سے اصل کتاب نکال لیتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر جمیل جالبی تحقیق کے میدان کے ایک نام ور شہ سوار ہیں۔ بہ حیثیت محقق ، وہ اپنے مسلک و طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر گوہر نوشاہی کو1992 میں دیے گئے انٹرویو میں کہتے ہیں: ’’ تحقیق میں مسلک،اگر اسے مسلک کہا جاسکتا ہے تو، یہ ہے کہ میں کسی امر کی تحقیق میں ادبی ماخذ تک خود کو محدود نہیں رکھتا،بلکہ غیر ادبی ماخذ پر بھی پوری توجہ دیتا ہوں تاکہ حقیقت کا سرا ہاتھ آسکے۔
میں یہاں ایک مثال دیتا ہوں۔تذکرہ ہندی میں مصحفی نے لکھا ہے کہ جب عہدِ محمد شاہ میں ولی دکنی کا دیوان دہلی پہنچا تو اس کی غزلیں چھوٹے بڑوں کی زبان پر جاری ہوگئیں اور لوگ ولی کے ریختے گلی کوچوں میں پڑھنے لگے ۔کام کرتے ہوئے تجسس پیدا ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دیوان شمالی ہند پہنچے اور وہ آگ کی طرح گلی کوچوں میں پھیل جائے ؟اس کا جواب کسی تذکرے یا کسی اور دیوان یا کسی ادبی حوالے میں نہیں ملا۔ اتفاق سے اسی زمانے میں مرزا محمد حسین قتیل کی تصنیف ’’ہفت تماشا‘‘ پڑھ رہا تھا ۔اس میں قتیل نے ایک جگہ لکھا تھا کہ کائستھ ہولی کے زمانے میں،نشے کی حالت میں،گلستان بوستان اور ولی کے ریختے پڑھتے ہوئے گلی کوچوںسے گزرتے تھے ۔ تذکروں میںصرف مصحفی نے شاہ حاتم کے حوالے سے یہ بات لکھی تھی جس کی تصدیق ایک غیر ادبی ماخذسے ہو ئی ۔ تو یہ طریقہ کار تحقیق کے لیے مفید بھی ہے اور مناسب بھی‘‘۔
ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ بڑا ادیب بچوں کے لیے لکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے ،چہ جائیکہ ایک کھرا محقق یہ رستہ چُنے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی تمام تر تحقیقی مصروفیات کے باوجود اس جانب بھی خوب توجہ دی۔ بچوں کے لیےانہوں نے جو کہانیاں لکھیں ان میں بید کی کہانیاں،بلیاں،حضرت امیر خسرو،چھن چھن چھن چھن ، عجیب واقعہ اور نئی گلستان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے فسانہ آزاد کے مزاحیہ کردار’’ خوجی‘‘ پر مبنی داستان ’’خوجی پر کیا گزری‘‘ کےعنوان سے بچوں کے ایک رسالےکے لیے قسط وار لکھی۔ ان کی ایک طویل کہانی ’’حیرت ناک کہانیاں‘‘ کے عنوان سے 1983میں شایع ہوئی۔’ ’خوجی پر کیا گزری‘ ‘کی کل66اقساط شائع ہوئیں۔ستمبر 1984میں یہ سلسلہ اپنی آخری قسط کے ساتھ اختتام کو پہنچا تھا ۔
جمیل جالبی اور شاہد احمد دہلوی کی گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں یک جان، دو قالب رہے۔ دونوں ہر مشورے میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے اور جہاں جاتے، ساتھ جایا کرتے تھے۔جمیل جالبی نے شاہد دہلوی کے مضامین کا مجموعہ ’ ’بزمِ خوش نفساں‘ـ‘کے نام سے مرتب کیا تھا ۔ مذکورہ کتاب میں عزیز دوست پر لکھے گئے تعارفی مضمون کا اسلوب ملاحظہ کیجیے کہ یہاں ہمیں جمیل جالبی کی خاکہ نگاری کی ایک دل کش جھلک بھی نظر آتی ہے:
’’ شاہد صاحب میں سب سے بڑی بات ان کی سادگی ہے۔جھوٹی عزت ان کو پاس سے چھو کر نہیں گز ر ی ۔ تہبند باندھے چلے آرہے ہیں۔کھل کر باتیں کررہے ہیں ۔نہ کسی کی برائی، نہ کسی کی غیبت ۔سب پر فقرے چست کریں گے۔ سب کا ذکر کریں گے۔مزہ لیں گے۔مذاق اڑائیں گے۔جس قسم کی صحبت میں بیٹھیں گے،اس میں گھل مل جائیں گے۔بڈھوں میں بڈھے، جوانوں میں جوان اور بڑوں میں بڑے۔ہر ایک کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔ ہر ادیب کا ذکر کریں گے۔اپنی ملاقات کی تفصیل سنائیں گے۔ لچھے دار انداز میں گفتگو کریں گے ۔ خود بھی ہنسیںگے اور سننے والوں کو بھی ہنسائیں گے۔ گھنٹوں چخ رہے گی۔خدا انہیں کروٹ کروٹ چین دے ۔صحیح معنوں میں ایک بڑے آدمی تھے۔ تاریخ ساز مدیر تھے، صاحب طرز ادیب تھے جن کی یادیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔اب نہ شاہد صاحب ہیں اور نہ ساقی ہے، لیکن ان کی تحریریں آج بھی ہمارے ذوقِ ادب کو سیراب کررہی ہیں۔
شاہد صاحب1906میں پیدا ہوئے۔دلی میں پلے بڑھے۔ بچپن، جوانی وہیں گزری۔بال سفید ہوئے تو پاکستان آگئے۔1947سے پیر الہی کالونی میں مقیم ہیں ۔یہیں ساقی کا دفتر ہے۔دلی میں سکون تھا، آسودگی تھی۔ کراچی میں سکون ہے اورنہ آسودگی۔بڑا کنبہ ہے۔ پیٹ پالنے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیںوضع داری سے بہ روئے کار لاتے ہیں ۔کبھی گا کر کماتے ہیں، کبھی لکھ کر ۔ زمانے کی نیرنگیاں ہیں۔سدا زمانہ ایک سا نہیں رہتا۔ اب وہ ہیں اور ریڈیو پاکستان۔اگر کبھی ریڈیو پاکستان میں ایسے شخص کو دیکھیں جو ڈھیلی ڈھالی شیروانی پہنے ہو ،جس کے ایک یا دو بٹن لگے ہوں، سیاہ رنگ ہو، آنکھوں پر چشمہ ہو، بیڑی منہ میں ہو،سر پر سیاہ یا گہرے کتھئی رنگ کی جناح کیپ ہو،ذرا دائیں طرف کو جھکی ہوئی، بائیں طرف سے اٹھی ہوئی اور وہ شخص کسی کا بازو پکڑے یا کندھے پر ہاتھ رکھے ہو،چشمے سے جھانکتی ہوئی چمک دار آنکھوں سے سامنے دیکھتے ہوئے ،چھوٹی مہری کا پاجامہ پہنے،جس کے پائنچے کی مہری کے ڈورے نکلے ہوں اور ہلکا سا کشیدہ کاری کا جال بنا ہو،نیو کٹ کا جوتا ہو، تو سمجھ لیجیے کہ یہ شاہد احمد دہلوی ہیں۔دل چسپ انسان ،فاضل مدیر،بہترین مترجم،صاحب زبان،دلی والے ۔ ۔ ۔ اور جب 27مئی 1967کی صبح کو ٹیلی فون پر ایک صاحب نے جنازے میں شرکت کے لیے ان کا پتا پوچھا تو میں ان کو پتا نہ بتا سکا‘‘۔