• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وافر قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور انہیں بروئےکار لانے کے لئے ہمارے پاس ہنر مند افرادی قوت بھی موجود ہے۔ ان وسائل کو کام میں لا کر ہم نہ صرف برآمدی تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں بلکہ زوال پزیر ملکی معیشت کو بحال کر کے اسے ترقی کی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔ بدھ کو اسلام آباد میں ایک یورپی تجارتی وفد کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران بتایا گیا کہ صرف رنگین قیمتی پتھروں اور جواہرات کے شعبے میں ملک کی برآمدی صلاحیت2012میں61 ارب دس کروڑ ڈالر تھی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی آئی۔ وفد کے ارکان ان خام قیمتی پتھروں کو تراشنے اور چمکانے کے لئے پاکستان میں فیکٹری لگانے کے خواہاں ہیں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے ملکی و غیر ملکی تجارت پیشہ طبقوں کو ایک بار پھر یقین دلایا کہ حکومت کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے اور فضا سازگار بنانے کے لئے ان کی ہر ممکن معاونت کرے گی۔ تجارت اور مختلف النوع کاروبار ملک میں روزگار اور معاش کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، جن کا مجموعی معاشی صورت حال سے گہرا تعلق ہے۔ مضبوط معیشت کاروباری سرگرمیوں میں وسعت پیدا کرتی ہے اور کاروباری معاملات میں تیزی معاشی استحکام میں مدد دیتی ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں مگر بدقسمتی سے ملکی معیشت اس وقت سخت ترین دبائو میں ہے اور حالات بھی زیادہ ساز گار نہیں ایک طرف ملکی و غیر ملکی قرضوں کا بوجھ قوت برداشت سے باہر ہو رہا ہے تو دوسری طرف عوام مہنگائی کے طوفان سے دوچار ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج جو کاروباری لین دین کا ا ٓئینہ دار ہوتا ہے، شدید مندی کا شکار ہے۔ اس پر مستزاد، سیاسی عدم استحکام اسے دبوچے ہوئے ہے، غفلت شعار انتظامی مشینری الگ ایک مسئلہ ہے۔ موبائل فون ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس کا یہ انکشاف چشم کشا ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیلاب آیا تو حکومت نے سیلاب ٹیکس لگا دیا۔ مشرقی پاکستان تو 1971میں الگ ہو گیا مگر سیلاب ٹیکس یہاں90کی دہائی تک وصول کیا جاتا رہا۔ عدالت عظمیٰ نے اس کیس میں موبائل فون کے استعمال پر ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس اور سروسز چارجز قانونی بنیاد پر بحال کردیئے۔ جنہیں سابق چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس کے تحت روک دیا تھا۔ اس موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ عدلیہ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ عدلیہ کو قانون کی تشریح کرنا اورا س کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے چاہے وہ مقبول ہو یا غیر مقبول، جبکہ یہ کام ا نتظامیہ اورمقننہ کا ہے کہ وہ قوانین کی تشکیل میں عوام کے مفاد کو مدنظر رکھے۔ موبائل فون کروڑوں کا لین دین کرنے والے کاروباری طبقے کے علاوہ غریب ریڑھی بان اور دیہاڑی دار مزدور بھی استعمال کرتا ہے۔ حکومت نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ جب سے موبائل فون پر ٹیکس وصولی روکی گئی حکومت کو90ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ عدالت نے تو قانون کے مطابق فیصلہ دے دیا۔ اب یہ حکومت کا کام ہےکہ وہ موبائل فون پر لگائے گئے ٹیکسوں کو کاروباری طبقوں کی سہولت کے مطابق منصفانہ بنائے، اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ بھی بہت اہم ہے۔ عدالت عالیہ نے غیر رجسٹرڈ اداروں اور افراد سے سیلز ٹیکس کی وصولی روک دی ہے اور اس حوالے سے ایف بی آر کا از خود اختیار غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اب ٹیکس اسی صورت میں واجب الادا ہو گا جب ایف بی آر کسی کاروباری شخص کو رجسٹر کرے گا۔ قانون کے مطابق ٹیکسوں کی ادائیگی کاروباری طبقے سمیت تمام شہریوں کیلئے لازم ہے توٹیکسوں اور دوسرے معاملات میں ان کیلئے آسانیاں پیدا کرنا حکومت کا فرض ہے تاجر برادری کیلئے کاروباری سہولتیں مہیا کرنے کےبارے میں وزیراعظم کا وژن بڑا واضح ہے لیکن اس پر عملدرآمد میں جو چھوٹی بڑی مشکلات سامنے آرہی ہیں وہ کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے سازگار ماحول کے منافی ہیں۔ توقع ہےکہ حکومت وزیراعظم کے ایجنڈے کو ہر لحاظ سے عملی شکل دینے کے لئے موثر اقدامات کرے گی۔ اس سے نہ صرف کاروباری طبقے بلکہ عام آدمی کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

تازہ ترین