کہتے ہیں کہ کامیاب آدمی بننا ہے تو کامیاب لوگوں کی سوانح حیات پڑھو۔ بڑے اور کامیاب لوگوں کی سوانح حیات میں ان کی جدودجہد ، انتھک محنت اور فیصلہ سازی کے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں، جن سے پڑھنے والوں کو نئی راہیں ملتی ہیں، ان کے اندر حوصلہ مجتمع ہوتاہے اور بسا اوقات پڑھنے والا ایک نئے جذبے سے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں جت جاتاہے۔
ہم جنگ کے ان صفحات میں اکثر اس بات پر زوردیتے آئے ہیں کہ بچوں میں مطالعہ کی عادت پیدا کی جائے یا انہیں ایسی کتابیں پڑھنے کو دی جائیں، جن سے ان کا ذہن کھلے اور ان کے تعلیمی راستے آسان ہوں۔اگر بحیثیت والدین آپ اپنے بچوں کو غیر نصابی کتابیں لے کر دینا چاہتے ہیں تو انہیں سوانح عمری والی کتابیں دیں کیونکہ جدید دور میں مقبول ترین کتابوں کے جائزوں میں اعداد وشمار کے لحاظ سے بائیوگرافی یا سوانح حیات اوّل درجے میں شمار ہوتی ہے۔ آج کا انسان کامیاب زندگی کے لیے مثالی شخصیت ڈھونڈتا ہے اور دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک عام سا انسان کیسے بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ امریکا میں صدر مملکت، کامیاب بزنس مین اور ہر دلعزیز فلمی شخصیات کی زندگی پر لکھی کتا بیں سب سے زیادہ خریدی جاتی ہیں۔ ان کتابوں سے جہاں یہ پتا لگتا ہے کہ کسی معاشرے میں کامیاب زندگی کسے کہتے ہیں، وہاں یہ یقین بھی پختہ ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی بھی محنت کرے تو زندگی میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
جدید سوانح نگاری کے مقابلے میں قدیم سوانح نویسی ’ہیرو پرستی‘ کے اصول پر لکھی جاتی تھی۔ ہر سوانح نگار یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اگروہ نہ ہوتا تونہ اس کاملک بچتا اور نہ ہی یہ دنیا رہنے کے قابل رہتی۔ اس نام نہاد ہیرو کی زندگی انتہائی عقیدت سے لکھی جاتی تھی، جس سے پڑھنے والے کے ذہن میں یہ تصور جڑ پکڑتا تھا کہ وہ کوئی معمولی ہستی نہیں اور اس جیسا بننا تو خواب میں بھی ممکن نہیں۔
جدید سوانح نگاری کا آغاز اٹھارھویں صدی میں ہوا تو شروع میں اس کے پیچھے یہ فلسفہ تھا کہ انسان کی فکر اور رویے پر اس کے خاندان، معاشرے اور علاقائی ثقافت کے ساتھ ساتھ اس دور کے نظریہ کائنات کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ایک فرد اپنے زمانے کی پیداوار ہوتا ہے۔ چنانچہ سوانح نگار اس شخص کی زندگی کے واقعات کو اس عہد کے پس منظر میں بیان کرتا ہے بلکہ واضح کرتا ہے کہ وہ انسان اس زمانے سے کیسے متاثر ہوا۔ قدیم سوانح نگار یا تو صاحبِ سوانح کی زندگی کے واقعات ولادت، بچپن، جوانی، حالات، شادی، اولاد اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کی ترتیب سے بیان کرتا تھا اور اس کے کارناموں کو موجودہ رجحانات کی بجائے اس کے خاندانی یا گروہی پس منظر سے جوڑتا تھا۔ سوانح نگاری کی اس طرز سے بھی یہی تاثر بنتا تھا کہ زندگی کی کامیابیاں پہلے سے طے شدہ ہوتی ہیں ،جنہیںوہ سمیٹتا چلا جاتاتھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے، جدید سوانح نگاری میں کسی بھی کامیاب انسان کے حالات اور اس کے منطقی فیصلوں کو سامنے لایا جاتاہے، جس سے وہ کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا تھا۔
اگرآپ اپنے بچوں کو سوانح عمری پڑھنے کو دیں تو پہلے خود اس کا مطالعہ کرلیں تو زیادہ بہتر رہے گا ۔ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو یہ دیکھنا ہوگاکہ سوانح عمری میں چند اصولوں پر لازمی عمل کیا گیا ہو۔
1۔ قابل قبول ہو۔
2۔ مسلمہ اصولوں کے خلاف نہ ہو۔
3۔ محسوسات اور مشاہدے کے خلاف نہ ہو۔
4۔ قرآن، حدیث اور اجماع قطعی کے خلاف نہ ہو۔
5۔ معمولی بات پر سخت عذاب اور معمولی کام پر غیر معمولی انعام بیان نہ کرے۔
6۔ زبان و بیان کے لحاظ سے شایان شان ہو، معنی میں جھول نہ ہو۔
7۔ اگر ایک راوی اکیلا ایسا واقعہ بیان کرے جو اگر ہوتا تو سینکڑوں لوگوںنے اس کو دیکھا ہوتا، ورنہ یہ روایت قابل قبول نہیں۔
اگر ہم دنیا کے عظیم انسانوں کی سوانح حیات اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ ان کی کامیابی کا ایک بڑا راز گہرا مطالعہ ہی تھا۔ امریکا کے عظیم صدر ابراہم لنکن پچاس میل کا فاصلہ طے کر کے اپنے دوستوں سے کتابیں مانگ کر لایا کرتے تھے اور جلتی ہوئی لکڑی کی روشنی میں محو مطالعہ رہتے تھے۔ واجبی تعلیم رکھنے والے جان برائٹ نے محض اپنے وسیع مطالعہ کے بل پر زبان پر عبور حاصل کیا، وہ الفاظ کا ذخیرہ وسیع کرنے کے لئے ہر سال فردوس گم گشتہ، (Paradise Lost )پڑھا کرتے تھے۔گلیڈاسٹون اپنے کتب خانے کو ”سکون کا مندر“ کہا کرتا تھا، جس میں تقریباً پندرہ ہزار کتابیں تھیں۔ کوفے کے مشہور مصنف جاحظ کتب فروشوں کی دکانیں کرائے پر لے کر ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ ممتاز فلسفی ابن رشد اپنی زندگی میں صرف دو راتوں کو مطالعہ نہیں کر سکے۔ ان دونوں راتوں میں ابن رشد کے قریبی عزیز وفات پا گئے تھے۔
بدقسمتی سے ہمار ے بچے اور ہم خود بھی موبائل، انٹرنیٹ، سی ڈی وغیرہ پر گھنٹوں مصروف رہ کر اپنا قیمتی وقت نہایت بے دردی سے ضائع کر رہےہیں۔ اگر ہم کامیاب لوگوں کی رَوِش اپنا لیں یا خود بھی عمل کریں تو ہماری آئندہ نسل علم و دانش سے عاری نہیں ہوگی اور ہم کامیاب انسان پیدا کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔