• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی… بریڈفورڈ
(قسط نمبر 36)
خلاصہ کلام
آخر میں ان تمام اقساط کا خلاصہ بیان کیے دیتا ہوں کیونکہ بعض اقساط بہت دیر میں تیار ہوسکی تھیں۔ زیارت بیت المقدس کی فضیلت۔ مسجداقصی ان تین مقامات یا تین مساجد میں سے ایک ہے جس کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا باعث اجر ہے۔ بیت اللہ ، مسجد نبوی اور مسجداقصیٰ۔بے شک تمام انبیاء کرام اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یہیں پلے بڑھے، یہیں ان کی تدفین ہوئی، یہیں ان کی قبور ہیںاگرچہ نامعلوم ہیں ،ماسوا حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ ان تمام انبیاء کا دین و مذہب اسلام تھا۔ان کی عبادتگاہوں کانام مسجدہی تھا ۔ سب سے پہلی مسجدوادی حجاز مکہ مکرمہ میں بیت اللہ تعمیر ہوئی جسے حضرت ابراہیم اوران کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ نے تعمیرکیا اور چالیس سال بعد سرزمین انبیاء میںحضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحق نے مسجد اقصی بنائی ۔اس کی تجدید حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔ جس دور میںنبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سفر معراج پر تشریف لے گئے تھے تو بحکم ربانی آپ کو مسجد اقصیٰ تک زمینی سفرکرایاگیااورمسجد اقصی سے ہی آپ کو آسمانوں کی طرف لیجایاگیا ۔ اس زمانے میں مسجد اقصیٰ موجود تھی جس کا دروازہ اس رات بند نہیں کیا جاسکاتھا ۔ آپ کی براق نامی آسمانی سواری اسی کی پچھلی دیوار کے ساتھ باندھی گئی تھی اس لیے اس کانام حائط البراق پڑگیابعد میں یہودیوںنے دیوار گریہ کا نام دے دیا۔ اس لحاظ سے ان تمام انبیاء کے وارث اہل اسلام ہیں، یہودیوں اورعیسائیوں نے اسلام کوچھوڑ کراپنے آباء و اجداد کے دین سے انحراف کیا ہے۔جب تک خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہیں ہوئی اسلام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کی شریعت ہی دین الہی ٹھہری اور سب اہل مذہب کیلئے ضروری ہوگیاتھا کہ وہ اسلام کی دعوت کو قبول کرلیں ۔تاریخ بتلاتی ہے کہ یہود نے عیسائیوں ( جو اس دور کے مسلم تھے) ان پر ہمیشہ ظلم کیا۔ حتی کہ وہ اپنا نام مسلمان بھی نہیں رکھ سکتے تھے ۔ جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس نام کو پھر رواج دیا لیکن رومی حکمرانوں نے یہودیوں کے بہکاوے میں آکر انہی کیلئے سزائے موت کا پروانہ حاصل کرلیا حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمانوں پر جانے کے بعد مسلمانوں پر یہود نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، ان کا مذہب اور نام بھی بدل دیا۔ بعثت خاتم النبین تک کا عرصہ ان مظلوم مسلمانوں کیلئے بڑا سخت تھااور ان کی مظلومیت کا بدلہ اللہ نے انہیں بہتر عطا فرمایااور ان کے ہاتھ میں یورپ کا اقتدار دے دیا ۔ حضور خاتم النبین نے اسلام کا لفظ اوراسلام کی شریعت سارے انسانوں پر پیش کی جو مان گئے وہ مسلمان ہی کہلائے اورجن کی قسمت میں ہدایت نہ تھی وہ اکڑگئے مسجد اقصی کے علاقہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کو سزائے موت سنائی گئی تھی ، اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ انہیں پنجہ یہود سے نجات دلا کر آسمان پر اٹھا لیالیکن روایات تو بہرحال مشہور کردی گئی تھیں ۔انہی کی طرف منسوب روایات کی وجہ سے اسی علاقے میں ان کی طرف منسوب روایات کے مطابق وہ جگہیں محفوظ کرلی گئیں مسجد اقصی پر عیسائیوں کاقبضہ تھا جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب روایات کے مطابق عبادت گاہیں بنا لی تھی جنہیں کنیسہ (چرچ) کانام دیاگیا اور مسجد اقصیٰ پس منظر میں چلی گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی وجہ سے مسجداقصیٰ کانام پھر زندہ ہوگیا اورنبی مکرم کی وفات کے 17سال بعد دور فاروقی میں مسجد اقصیٰ کودوبارہ بحال کردیا گیا اور اس وقت تک وہاں بے شمار مسلمان آباد ہوچکے تھے ۔ اسلام کی آمد سے پہلے بھی یہ پورا علاقہ مسلمانوں ہی کا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ نام پس منظر میں چلتا گیا اور ان کا نیا نام عیسائی ہوچکا تھا ۔ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب تاریخی مقامات پر بھی انہی کا کنٹرول تھا۔ جبکہ یہود کا یروشلم کی تاریخ میں کوئی قابل ذکر کردار نہ تھا اور عیسائیوں کو یہودیوں سے ان کے ظلم وستم کی وجہ سے سخت دشمنی تھی اس لیے انہوں نے یہودکا داخلہ ہی بیت المقدس میں بند کررکھاتھا اور یہود جس جگہ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتے تھے وہ ایک پتھر تھا عیسائیوں نے اس جگہ کو کوڑا کرکٹ ڈالنے کہ جگہ بنا رکھاتھا تاکہ ان کا کوئی آثار باقی نہ رہ سکے لیکن فاروق اعظم نے عیسائیوں کا کنیسۃ القیامہ بھی ان کی تحویل میں رہنے دیا اور یہودپر یروشلم میں داخلے کی پابندی جو عیسائیوں نے لگارکھی تھی آپ نے وہ بھی اٹھا لی اور وہ پتھر بھی دریافت کرلیاگیا اگرچہ حضرت عمر امیر المومنین نے اسے کوئی سند نہیں دی تھی جہاں سے رسول اللہﷺ کو معراج ہوئی تھی۔ مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت بحال ہو چکی تھی، دور فاروقی میں یہ مسجد مدینہ اور دیگر اسلامی ممالک کے باشندوں سے آباد ہوگئی۔ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں قبۃ الصخراء کوخاص اہمیت دی گئی جس کا بڑا سبب یہ بتایا جاتاہے کہ وہ مکہ کے حکمران حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی مخالفت کی وجہ سے اس جگہ کو مقام حج بنانا چاہتاتھا تاکہ لوگ نہ مکہ جائیں اور نہ ان کی حکومت کے خلاف باتیں سن کر متاثر ہوں اس نے اسے تعمیر کیا سنوارا اور تقریباً آٹھ سال مصر سے وصول ہونے والے ٹیکس کی رقم اس پر خرچ کی اور ماہر تعمیر رجاء بن حیوہ نے اس کا ڈیزائن بنایا بعد میں اسی کومزید نکھارا گیا اور ہر آنے والی حکومت نے اس کی تزئین نو کی۔ پچھلے دو ہزار سالہ تاریخی میں بہت کم مدت میں مسیحیوں کو یہاں کا اقتدار حاصل ہوا تو انہوں نے بھی باشندگان القدس پر ظلم و ستم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی چند سال اسلام کی آمد سے پہلے اور اسلام کی آمد کے بعد 1099ء سے اگلے ستر اسی سال اور اس مختصر عرصہ میں انہوں نے بیت المقدس اور اس شہر کی گلیاں خون سے بھردیں اور صحن بیت المقدس میں صلیبیں گاڑ کر وہاں کم وبیش ستر ہزار بے گناہ مسلمانوں ذبح کردیے ۔ تاآنکہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے سولہ جنگیں لڑکر ارض مقدس کو ان کے پنجہ ستم سے چھڑایا لیکن پھر بھی عیسائیوں اور یہودیوں کے حق میں بھرپور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ پچھلی صدی کے وسط میں شاہ اردن کے دورمیں قبۃ الصخراء پر دوسو کلو سونا مڑھا گیا اس وقت دنیا میں اس سے خوبصورت کوئی گنبد نہیں ہے ۔عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ ، بیت المقدس اور سرزمین فلسطین پر اسرائیلیوں کا کوئی حق ہے نہ یہود کا دعویٰ درست ۔کیونکہ بیت المقدس کی تاریخ میں ان کا کوئی مثبت کردار نہیں ہے اور ہیکل سلیمانی کی برآمد کا دعویٰ بھی بالکل جھوٹااور دھونس و دھاندلی ہے، سب سے پہلے اس جگہ مسجد ہی بنائی گئی تھی جس کی تجدید حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی لیکن انبیاء کی جائے عبادت مسجد کہلاتی ہے کلیسا ، مندر، گردوارہ یا ہیکل نہیں۔اس جگہ کوجبکہ وہ مکمل بنادی گئی، سجا دی گئی، قبۃ الصخراء کاحسن دنیا بھر کی تاریخی عمارات میں ایک منفرد حیثیت اختیار کرگیا تو یہودیوں نے اس بنی بنائی تاریخی جگہ پر اپنا دعویٰ کردیا حالانکہ نہ انہوں نے مسجد اقصی بنائی ، نہ قبۃ الصخراء بنایا اور نہ بیت المقدس کے144ایکڑرقبہ کی تعمیر میں ان کا کوئی کردار رہا۔ بحیثیت قوم بھی یہود اپنی خباثتوں اور شرارتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں دھتکارے گئے تھے ۔ پوری زمین پر ایک انچ جگہ بھی ان کی اپنی نہیں ہے ،سو سے زیادہ ممالک میں ایک ملک بھی ان کا اپنا نہیں ہے۔ اس وقت دنیا میں دین اسلام کے سخت دشمنوں میں سر فہرست ہنوداور یہودہیں اور ان کی پشت پناہی مسیحی کررہے ہیں ۔ حالانکہ ان سب پر اسلام کے احسانات ہیں جن کا انہیں احساس نہیں ہے جیسے یہود پر احسانات ہیں اس سے کہیں زیادہ عیسائیوں پر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے یہودیوں کو بیت المقدس رہنے کا پروانہ دیا ۔اور سلطان صلاح ایوبی نے مسیحی عبادتگاہوں کو مکمل تحفظ فراہم کیاجیساکہ ہم نے اپنے مضمون میں جا بجا اس حقیقت کا تذکرہ کیا ہے عالم اسلام کا موقف ہے کہ اسرائیل 1967والی حیثیت میں واپس جائے اور بیت المقدس پر ناجائز تسلط ختم کرے تاکہ دنیا میں امن قائم ہوسکے آخرکب تک یہ فساد برپا رہے گا اگر بالفرض یہ مسجد اقصیٰ پر قابض ہو بھی جاتے ہیں اوریہاں مزعومہ ہیکل سلیمان بنا بھی لیتے ہیں تو کیا امت اسلام ٹھنڈے پیٹوں اس خونخواری کو قبول کرلے گی ؟ اورقوم یہود آرام سے جی سکے گی ؟ اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
مسلمان ممالک اور ان کاقومی نصاب
اس لیے مسلم ممالک اپنی تاریخ کو قومی تعلیمی نصاب کا حصہ بنائیں تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں مسجد اقصی کی تاریخ سے روشنا س ہوں اورنئی نسل کواپنی تاریخ کے سنہری دور سے اپنے سپہ سالاروں کی بہادر ، فیاضی اور دریا دلی سے روشناس کرائیں ۔اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمان بالخصوص کشمیر اور فلسطین کی مظلومیت اجاگر کرے شاید دنیا کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ مظلوموں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور انسانیت کو ایک بار امن و سکون نصیب ہوسکے۔
روحانی سرور کا سبب
ان سطور کے راقم نے بے شمار لوگوں کی طرح دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا ہے لیکن جو روحانی سرور و لذت سفر فلسطین سے حاصل ہوئی ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتایہ ایک روحانی کیفیت ہے شاید انبیاء کرام کے قدوم میمنت نواز ہونے کا اثر ہے کہ ان فضاؤں کی خوشبو ہی کچھ الگ سی ہے ۔ اللہ اس سرزمین انبیاء پر فساد مچانے والوں کے اثرات بد سے اس ارض مقدس کو محفوظ فرمادے اور مظلوم و مقہور فلسطینی مسلمانوں کوان کی اپنی سرزمین پر سکون واطمینان بخشے ،آمین ۔
تازہ ترین