مذہب اسلام کی شمع حجاز مقدس سے روشن ہوئی پھر اس کی کرنیں ساری دنیا میں پھیلتی گئیں اور آج دنیا کےہر خطے میں مسلمان بڑی تعداد میں رہ رہے اور دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 35 فیصد حصہ ہیں۔آج دنیا کےمشرق و مغرب، شمال و جنوب کے تمام ممالک اسلام کے نور سے منور ہیں جب کہ براعظم ایشیا ، افریقہ کے زیادہ تر ممالک کا شمار مسلمان ممالک کی حیثیت سے ہوتا ہے، جن میں پاکستان کا نمایاں مقام ہے۔ تبلیغ اسلام کے مشن کو لے کر مسلمانوں نے دنیاکے کونے کونے کا سفر کیا، راستے میں حائل مشکلات کو کبھی افہام و تفہیم اور کبھی جہاد کے ذریعے دور کیا۔برصغیر اور مشرق بعید کے ممالک میں مسلمان سندھ کی وادی سے گزر کر داخل ہوئے، اس وجہ سے اس خطے کو سلیس اردو زبان میں ’’اسلام کا دروازہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
سندھ کی سرزمین وہ مر دم خیز خطہ ہے جہاں پر پہلی صدی ہجری میں مسلمانوں کے عظیم جرنیل ،محمد بن قاسم اور ان کے ساتھی اسلام کی تعلیمات لے کر حا ضر ہو ئےاور بعد میں مسلمان پورے برصغیر پر چھا گئے ۔ سندھ سے ہوتا ہوایہ آفاقی مذہب پو رے برصغیر میں پھیل گیاجس کے بعداس کرئہ ارض پرسندھ کو ’’باب الاسلام ‘‘ کا لقب مل گیا اس کے بعد سندھ اور ہند میں اسلام کی تبلیغ کا کام جو صوفیائے کرام اور بزرگان دین نے اٹھایا اور انہوں نے اسے پھیلانے میں وہ کارنامہ سر انجام دیا جس کی کو ئی مثال نہیںملتی۔ صوفیائے کرام نہ صرف ذاکر و شاغل تھے بلکہ انہوں نے اسلام کو اس خطے میں پروان چڑھانے اوردین کےپودے کوتناور درخت بنانے اورسر سبزرکھنے کے لئے اپنے خون سے آبیاری بھی کی۔ اگر ہم وطن عزیز کی آزادی اور اس سر زمین سےانگریزوں کونکال باہر کرنےکے لیے مسلمانوں کی جدوجہد کی تا ریخ پر نظر ڈا لتے ہیں تو یہاں بھی صو فیا ئے کرام کا اہم کردار نظر آتا ہے۔
برصغیر میں سب سے پہلے جو آزادی کی تحریک چلی وہ مسلمانوں کو مرہٹوں سے نجات دلا نے کی ’’ تحریک شہیدین‘‘ تھی۔اگرچہ اس تحریک کو ختم ہوئے 235سال گزر چکے ہیں لیکن جب ملکی تقریبات اور سیمیناروں میں آزادی کی تحاریک کاتذکرہ کیا جاتا ہے تو تحریک شہیدین کا تذکرہ لازمی طور سے کیا جاتا ہے۔
برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور سلطنت برطانیہ کے قبضے کے بعدجس پر آشوب دور اور ناگفتہ بہ حالات میں شہیدین نے اپنی تحریک کا آغاز کیا وہ کسی بھی اعتبار سے مسلمانوں کیلئے سازگار نہیں کہے جاسکتے ہیں۔ اس وقت مسلمان تمام شعبہ ہائے زندگی میں تنزلی کے شکار ہونے کے علاوہ دین اسلام سے بھی دور ہوتے جارہ تھے اور ان میں مشکرانہ رسوم و رواد اور بدعات کا دورہدورہ ہوگیا تھا۔ مولانا اسماعیل شہید اور حضرت سید احمد بریلوی کی مجاہدانہ کوششوں نے تجدید دین کی نئی تحریک شروع کی۔ یہ وہ وقت تھا جب سارے پنجاب پر سکھوں کا اور باقی ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ ان دو بزرگوں نے اپنی بلند ہمتی سے اسلام کا علم اٹھایا اور مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی۔ جس کی آواز ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لیکر خلیج بنگال کے کناروں تک یکساں پھیل گئی اور لوگ جوق در جوق اس علم کے نیچے جمع ہونے لگے۔ رنجیت سنگھ کی حکومت نے پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی، یہاں تک کہ لاہور کی شاہی مسجد پر سکھوں کا قبضہ تھا۔ مسجد کے حجروں میں سکھ فوجی رہتے تھے اور مسجد کے صحن میں گھوڑے باندھے جاتے تھے۔مسلمانوں کو سکھوں کے مظالم سے بچانے کے لیے یہ بزرگان دین ایک لشکر کے ساتھ گوالیار، ٹونک، اجمیر، حیدر آباد (سندھ)، شکار پور، کوئٹہ، قندھار، غزنی، کابل اور جلال آباد سے ہوتے ہوئے مجاہدین پشاور پہنچے۔ ادھر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بدھ سنگھ کو دس ہزار فوج دے کر اکوڑہ بھیج دیا تھا۔ 20دسمبر 1826ءسید احمد کے 900 غازیوں نے شب خون مار کر سات سو سکھ موت کے گھاٹ اتار دیئے جبکہ مسلم شہداءکی تعداد صرف 36 تھی۔
تحریک شہیدین کی دوسری روایت کے مطابق شیر میسور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعدجب مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا تھااور انگریز ہندوستان کے سیاہ سپید کے مالک بن گئے تھے جب کہ لاہور پر رنجیت سنگھ نے قبضہ کرکے سکھ ریاست قائم کرلی تھی تو سید احمد شہید نے جدوجہد کا آغاز کیا ۔ انہیں شاہ عبدالعزیزاور دہلی میںخانوادہ شاہ ولی اللہ کے دو ممتاز علماء شاہ اسماعیل اور مولانا عبدالحی کی حمایت حاصل تھی۔ اس تحریک میں صوفیائے کرام کا لازوال کردار نظر آتا ہے۔ یہ تحریک اگرچہ مسلمانوں کے اندر موجود غداروں اور موقع پرستوں کی سازشوں کی وجہ سے مکمل طور سے کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی لیکن اس نے مسلمانوں کےانگریز سامراج کے خلاف وہ عزم و حوصلہ بخشا کہ اس کے بعد آزادی کی دیگر تحریکیں شروع ہوئیں جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔ سندھ میں بھی انگریز وںکے خلاف جو جہاد پیرپگارا سید صبغت اللہ را شدی ؒ نے کیا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ پیر پگارا سلسلہ قادریہ کے بلند پایہ ولی تھے، آج بھی ان کے پیروکارکی بڑی تعداد’’حروں‘‘ کے نام سے سندھ میں موجود ہے اور دین اسلام کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح یہاں پر جو خلا فت تحریک ،تحریک ترک موالات ،ریشمی رو مال تحریک اور ہجرت تحریک وغیرہ جو سب کی سب وطن عزیز کو غیروں سے آزاد کرا نے کی کو ششیں تھیں ان میں بھی اکثریت صوفیائے کرام کی تھی۔
ایسی ہی ایک تحریک پنو عاقل کے شہر سے بھی شروع ہوئی تھی ۔آج ہم ایک ایسی ہی قدیمی اور تحریک آزادی کی مر کزی درگاہ ہا لیجی شریف کا ذکر کر تے ہیں اس درگاہ کےبا نی اور تحریک آزادی کا اولین مجاہد’’پیر حماداللہ ہا لیجوی ؒ ‘‘ تھے۔ہالجی شریف، ضلع سکھر کی تحصیل پنوعا قل میں واقع ہے۔ ضلع سکھر سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر پنو عاقل کا شہر واقع ہے ،اس سے 10کلومیٹر کے فاصلے پر قومی شاہراہ پر ہالیجی شریف کا روحانی مرکز واقع ہے۔ ایک روایت کےمطابق اس علاقے میںہالیجی کے نام سے قدیم دو ر میں ایک وادی تھی جس کے نام سے یہ علاقہ موسوم ہوااور آج اس وادی کے نام پر اس قریہ اور بستی کا نام بھی ہا لیجی شریف مشہور ہوا۔ اس کا تلفظ ’’’ہا لے جی ‘‘ ہے۔بہر حال اس کی وجہ تسمیہ کچھ بھی ہو مگریہ ایک گمنام گائوں اور وادی تھی جس کو پہلے کو ئی بھی نہیں جا نتا تھا پھر اچا نک دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگوںکے قدم اس طرف بڑھ رہے ہیں اس کی شہرت پھیلتی گئی ۔یہاں پہلے کو ئی سڑک نہیں تھی مگر ہالیجی شریف کے وجود میں آنے کے بعد یہاں پختہ سڑک بن گئی جس پرلوگوں کی آمدورفت شروع ہوئی اور یہاں بڑی تعداد میں گاڑیاں چلنے لگیں ۔
ہالیجی شریف میں تجلیات الٰہی کامرکز ہے جہاں پر مخلوق پروانوں کی طرح رخ کر تی ہے۔ درا صل یہ ایسی خانقاہیں اور صوفیائے کرام ایسے بھی ہو تے ہیں جو مرجع الخلا ئق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے قلوب کو اپنے ولی کی طرف رو حا نیت کی ترقی کے لئے موڑ دیتا ہے ۔نامورر ادیب اور پرو فیسر سر ور سیف اور نا مور محقق استاد فضل اللہ مہیسر کی را ئے یہ ہے کہ اس وادی اور مقام کو یہ بھی خصوصیت حا صل ہے اس کے بانی اور مو جد ’ ’پیر حما دللہ ‘ؒ‘ تھے جو کہ وقت کے ایک اہل اللہ اور ولی تھے ان کے رو حا نی سلسلے کی کڑیاں سندھ کی مشہور رو حا نی خا نقاہوں سے ملتی ہیں جن میں پیر جو گو ٹھ ،بھر چو نڈی شریف،سو ئی شریف اور امروٹ شریف سے شامل ہیں۔پیر حما داللہ بن میاں محمود بن حما داللہ کا خا ندان اصلاً را جستھان سے تعلق رکھتا تھا۔ اجمیر میں کہیں بو دو باش تھی، سندھ میں یہ خاندان ’’ انڈ ھڑ ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ سا تویں صدی میں میاں مو سیٰ نواب ؒ مشہور سہروردی بزرگ حضرت شیخ بہاالدین زکریا ملتانی ؒ کےبھانجے اور خلیفہ تھے اسی وجہ سے اس قوم کا رو حا نی تعلق ملتان سے ہےاور یہ تعلق اب بھی کسی نہ کسی صورت میںقائم ہے ۔
بزرگ حما داللہ کی ولا دت۱۳۰۱ہجری میں ہو ئی حضرت کا وجود مسعود آگے چل کر رحمت الہیٰ کا ایک مظہر اوررشد و ہدایت کا ایک پیکر ثابت ہوا۔انہوں نے لوگوں کو روحانی فیض عطا کرنے کے علاوہ دین اسلام کی حفاظت کے لیے تاریخی جدوجہد بھی کی۔اعجاز احمد اعظمی، مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپوراعظم گڑھ یو پی ( ہند) ایک جگہ رقم طر از ہیں کہ’’ ہا لیجی شریف سندھ کے ضلع سکھر کا ایک گاؤں ہے یہی حضرت حما داللہ کا وطن مالوف ہے اور یہیں بیٹھ کر پیر صاحب نے محبت و معرفت کے چشمے بہا ئے اور علم و عرفان کے چراغ روشن کیے ہیں۔ یہاںذرے ذرے میں رو حانیت بسی ہوئی ہے ۔یہ بستی دنیا کی آبا دیوں سے ایک الگ آبا دی معلوم ہو تی ہے جہاں پہنچتے ہی آدمی کا رواں رواں اللہ کو یا د کر نے لگتا ہے۔ اس خا نقاہ کے سربراہ حضرت قدس سرہ کے خلیفہ رشیدحضرت مو لا نا عبد الصمد ہا لیجوی ہیں ۔تمام بزرگوں کی شانیں ان میں مو جود ہیں سا دگی ،بے تکلفی ،خلوص ،للھیت ،تواضع ،شفقت و محبت غرض تمام صفات عالیہ کا مجموعہ و مر کز ہیں‘‘ اس خا نقاہ کی خصو صیت یہ ہے کہ یہاں کے مریدین اور معتقدین میں ان علماء و ٖفضلاء کی اکثریت شامل ہے جن کی نہ صرف تصوف و تبلیغی خدمات ہیں بلکہان کی جدوجہد کی وجہ سے ایک علمی انقلاب بھی بر پا ہواہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں پھیلے سینکڑوں مدا رس و جا معات کا قیام اس خا نقاہ کا ہی مرہون منت ہے جہا ں سے ہر سال ہزاروں حفاظ ،علماء و فضلاء فارغ ہو تے ہیں جو اسلام کی تبلیغ و تعلیم کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
تا ریخ شا ہد ہے کہ اسلام دنیا کے جس خطے میں پہنچا ما دی برکات سے زیا دہ ایمانی و رو حانی بر کات لٹا تا رہا ۔لشکراسلام کے جلو میں ہر جگہ علماء وفقہا،محدثین و متکلمین اورصو فیہ و مشائخ کے گروہ بھی پہنچتے رہے۔ اہل سیا ست ملکوں کو فتح کرتے رہے اور ان کی تعمیر،انتظام و انصرام میں مشغول ہو تے اور یہ ارباب کمال ( صو فیائے کرام ) قلوب و اذہان اور افکار و نظریات کی تسخیر کر تے۔ پھر حکومت الٹتی پلٹتی رہیں تخت و تاج ایک ہا تھ سے دو سرے ہا تھ میں منتقل ہوتے رہتے لیکن اقلیم علم و فضل کے فر ما ں رواؤں کا سکہ یکساں چلتا رہا ۔یہ بو ریا نشین اپنے علم و عمل اور ایمان و ایقان کا چراغ جلا کر بیٹھ جا تے پھرہزار آندھیاں آتیںمگر یہ اپنی آستینوں میں بیضا ء لئے بیٹھے رہتے اور اپنی درسگاہ ہوں ،زاویوں اور خانقاہوں کی شکستہ دیواروں کے سہا رے اپنے چراغ کو انقلاب کی آندھیوں سے بچا ئے رکھتے۔ حکومتیں بدل جا تیں حکمران ہا تھوں سے تخت و تاج چھن جا تے مگر جن دلوں کو ان حضرات نے فتح کیا ہو تا ان کی نسلوں پر نسلیں گزر جا تیں مگر ان میںکو ئی تبدیلیاںنہیں آئیں۔
اللہ تعالیٰ کے ان عظیم ہستیوں نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور احیائے دین کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دی انسانی خدمت ،اسلام کی سربلندی اور علم و عمل کی ایسی رو شن مثال قائم کی جس سے آج بھی انسانیت فیض یاب ہو رہی ہے۔بلند محلات میں رہنے والے تاجدار،آ ٓج پیوند خاک ہو چکے ہیں لیکن دین کی سر بلندی کر نے والے صوفیا ئے کرام ،بزرگان دین کے رو شن کیے ہوئے چراغ آج بھی روشن ہیں۔ ان کی تعلیمات میں عا جزی تھی یہ ایک حقیقت ہے کہ دین کی نشر و اشاعت اور تبلیغ اسلام میں صوفیا ئے کرام کی جدو جہد اور ان کا کر دار تا ریخی اہمیت کا حا مل ہے ۔
پیر حما دللہ ؒ نے وطن عزیز کی آزادی کے لئے اپنے مر شد اور آزادی کے مجا ہد اول حضرت تاج محمود امروٹی ؒ کے حکم پر تمام جماعت کے ساتھ جمعیت علمائے اسلا م ہند میں شامل تھے تقسیم کے بعد جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہو گئے 1942 میں کل ہند علماء کانفرنس کا انعقادان کے یہاں ہوا ہوا جس میں مو لا نا حسین احمد مدنی ،مو لا نا عبید اللہ سندھی ،مولانا حفظ الرحمن سیوہا ری ،مو لا نا احمد علی لا ہور ی اور سید عطا اللہ شاہ بخا ری شریک ہو ئے تھے ۔علا وہ ازیں پیر صا حب کے مو لا نا ابو الکلام آزاد ،حکیم محمد اجمل دہلوی ،مو لا نا غلام غوث ہزاروی ،حضرت اشرف علی تھا نوی ،مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود ر حمہم اللہ سے بھی مرا سم تھے، پیر صاحب نے 12 ذو القعد 1381 ھ بمطا بق 1962 میں 80 سال کی عمر میں وفات پا ئی اور درگاہ ہا لیجی شریف کی مسجد کے شمال میں آخری آرام گاہ ہے پیر سائیں کی درگاہ و خا نقاہ دو ر قدیم سے اب تک فیض کا سر چشمہ بنی ہو ئی ہے اورا س دور کی خا نقا ہ میں بشمول قدیم طرز کی عظیم الشان مسجد ،مدرسہ ،فقراء کے لئے حجرے اور لنگر خانہ ابھی تک آباد ہیں، جہاںآج تک جوار کی رو ٹی اور چھا چھ سے مہمانو ں کی تواضح کی جا تی ہے۔