• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیوٹی وی نیٹ ورک پر رمضان نشریات کے لئے اپنے پروگرام ’’اجتہاد‘‘ میں مسلسل مصروف ہوں، اِس لئے باقاعدگی کیساتھ کالم لکھنا شدید مشکل ہے بہرحال کالم کی طرف آتے ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں تحریکِ انصاف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے، جو اِس دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ وہ پرانے فرسودہ نظام کو بدل کر ایک ایسا ’نیا نظام‘ نافذ کرے گی جس میں کسی شہری کیساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہو گی۔ عوام نے تحریکِ انصاف کو ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مستقبل کا خواب سجا کر ووٹ دیا تو اب یہ اُس کی ذمہ داری ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھے اور دیگر مسائل میں الجھ کر عوام کو ناامید نہ کرے۔ عمران خان صاحب! آپ کے مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد عوام بجا طور پر یہ امید کر رہے تھے کہ آپ اُن کے استحصال کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ اِس وقت آپ عملاً اِس حوالے سے اقدامات بھی کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف عجلت اور لاپروائی سے کیے گئے فیصلے آپ کے لئے مشکلات کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح عوام کی آپ سے ڈھیروں امیدیں وابستہ تھیں، بالکل اُسی طرح آپ کی بھی اپنی ٹیم سے امیدیں وابستہ ہیں، مگر مسئلہ تب سنگین ہوا جب آپ نے اِن امیدوں کے محض خواب دیکھے اور دکھائے اور اُن خوابوں کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوئی ہوم ورک نہ کیا۔ وزراتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد جب آٹے دال کا بھائو معلوم ہوا تب تک ٹیم کا اوپننگ بیٹسمین خود بھی ناکامی سے دوچار ہو چکا اور وینٹی لیٹر پر چلنے والی ملکی معیشت کی حالت بھی مزید ابتر ہو گئی تو آپ کو ٹیم کی اہلیت اور نااہلیت کا احساس لاحق ہونے لگا، جس کا اختتام کابینہ میں تبدیلی کے بعد ہوا۔

دوسری طرف تحریکِ انصاف کے رہنماؤں میں اختلافات کی خبروں نے عوام میں تذبذب اور غیریقینی کی صورتحال پیدا کردی ہے، جو تحریک انصاف کے حق میں ہے نہ ملک و ملت کے مفاد میں۔ نظریاتی جماعتوں میں اختلافات اور کھینچا تانی کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں بھی اِس قسم کے اختلافات ہوئے، حال میں بھی ہورہے ہیں، مستقبل میں بھی ہوں گے۔ پی ٹی آئی کی ہر وہ سرمایہ دار شخصیت، جس نے عمران خان کا ساتھ دیا اور اُن کو وزیراعظم بنانے کے لئے اپنا سارا سرمایہ لگا دیا، آج سود سمیت اپنا سرمایہ واپس حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ جس سے نہ صرف جماعت کا تشخص مجروح ہورہا ہے بلکہ وہ مقصد بھی حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جس کے تحت عوام نے عمران خان کو ووٹ ڈالا تھا۔ چیئر مین تحریک انصاف کو اِن اختلافات کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔ اگر ایک بار اختلافات کی لہر جماعت میں اُٹھ گئی تو اُسے روکنا آسان نہ ہوگا۔ بلاشبہ آپ کی جماعت آپ کی قیادت میں اِس ملک میں رائج استحصالی نظام کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن آپ ابھی تک ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، اگر یہی صورتحال رہی تو پاکستان کے عوام فرانس کے عوام کی طرح اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ امکان اِس لئے موجود ہے کہ اشرافیہ کی لوٹ مار جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو ملکوں کی انتظامی سرحدوں پر انقلاب دستک دینے لگتا ہے۔ کیا پاکستان میں لوٹ مار، اقربا پروری سمیت بےشمار برائیاں اِس مقام پر نہیں پہنچ گئیں کہ عوام دانستہ یا نادانستہ انقلاب کی طرف پیش رفت کریں؟

عمران خان صاحب! آپ نے وانا میں جلسے سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو ’بلاول بھٹو صاحبہ‘ کہہ کر مخاطب کیا، آپ سے ایسے طرزِ تکلم کی امید نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کے عوام آپ کی باتوں کو غور سے سنتے اور اُن پر عمل کی کوشش بھی کرتے ہیں کیونکہ آپ اُنکے رول ماڈل بن چکے ہیں۔ آپ جس مسند پر براجمان ہیں وہاں ’سلپ آف ٹنگ‘ کی کوئی گنجائش نہیں۔اِس سلپ آف ٹنگ سے احتیاط کریں، کہیں جوش میں کچھ ایسا ویسا نہ کہہ بیٹھیں جسے بعد میں سلپ آف ٹنگ کہنا بھی محال ہو جائے۔ مہنگائی، بیروزگاری، ماحولیاتی آلودگی، ملکی سیاسی حالات، معاشی زبوں حالی اور دیگر قومی مسائل کسی پسِ منظر میں جا چکے ہیں اور بدزبانی کی ایسی آندھی چل رہی ہے جو ہماری نئی نسل پر گہرے منفی اثرات مرتب کرے گی۔ نوجوان نسل جسے آپ قومی سرمایہ قرار دیتے ہیں، بیروزگاری کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔

جناب وزیر اعظم! پاکستان کو اِس وقت اندرونی اور بیرونی محاذوں پر جن مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے اُن سے نبرد آزما ہونے کیلئے جوش کیساتھ ساتھ ہوش کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہماری سیاست اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے، بطور وزیراعظم یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ’سلپ آف ٹنگ‘ سے آئندہ محتاط رہیں اور لیڈر آف دی ہائوس ہوتے ہوئے اپنے وزراء اور اپوزیشن رہنمائوں کیلئے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی مثال قائم کریں۔ یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ مجھے روحانی اسکالر ڈاکٹر محمد جاوید احمد کہہ رہے تھے کہ آج کے دن وزیر اعظم مافیا اور چوروں کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں، اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں سنہرے دنوں کا آغاز ہونے والا ہے۔ اِس لئے 2023سے ملک عزیز میں تیز ترین ترقی شروع ہوگی۔

تازہ ترین