• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیل آئوٹ مذاکرات اہم دور میں داخل، 700 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم، ریونیو ہدف 5550 ارب روپے کیا جائے، آئی ایم ایف

اسلام آباد(مہتاب حیدر) پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بیل آئوٹ پیکیج کے اسٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے کیلئے مذاکرات انتہائی اہم دور میں داخل ہوگئے،اس اہم دور میں آئی ایم ایف کی جانب سے آئندہ 2سال کے لئے 700ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی شرط رکھی گئی ہے ، اس طرح پی ٹی آئی حکومت کو آئندہ بجٹ 2019-20میں 350ارب روپے کا سیلز ٹیکس،انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی پر عائد اہم ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا ہوگا،ایک ایسے وقت میں کہ جب رواں مالی سال میں ایف بی آر کی نظر ثانی شدہ ٹیکس وصولی 3950ارب روپےسے زیادہ نہیں دکھتی آئی ایم ایف نے آئندہ بجٹ کیلئے ایف بی آر کیلئے ٹیکس ہدف کو بڑھاکر 5550ارب روپے کرنے کاکہا ہے، یہ صورتحال نئے چیئرمین ایف بی آر کے لئے انتہائی چیلنجنگ ہوگی کہ ایک سال کے دوران وہ 1600ارب روپے کا اضافی ٹیکس وصول کرسکیں بہرحال ایف بی آر حکام نے آئی ایم ایف کےسامنے کہاکہ ٹیکس وصولی حقیقت پر مبنی صورتحال کو دیکھتے ہوئے طے کی جائے۔آئی ایم ایف کی ایک اور شرط یہ بھی ہے کہ موجودہ پالیسی ریٹ جوکہ 10.75فیصد ہے اس کے مقابلے میں شرح سود 75سے بڑھاکر 100بیسس پوائنٹ کردی جائے۔ایک اہم ہدف یہ بھی ہے کہ این آر آئی(نیٹ انٹرنیشنل ریزروز) پر غور کیا جائے جیسا کہ اسٹیٹ بینک سے کہا جائیگا کہ غیر ملکی ذخائر کو بڑھانے کیلئے سہ ماہی ہدف پورا کیاجائے، اس کے لئے اسٹیٹ بینک کو مارکیٹ سے ڈالرز خریدنا پڑینگےجس کے باعث شرح مبادلہ پر دبائو بڑھےگا۔پاور اور گیس سیکٹرپر سے سبسڈیز کا خاتمہ اور گردشی قرضوں کے خاتمے کیلئے روڈ میپ کی تیاری آئی ایم ایف کی اہم شرائط کا حصہ ہونگی۔اعلیٰ سطح پر اہم تبدلیوں کےبعد پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے اور آئندہ جمعے تک اگر دونوں جانب سے اسٹاف لیول معاہدے پر آمادگی ظاہر کی جاتی ہے تو یہ دیکھنا باقی ہوگا کہ کتنی سخت ترین شرائط رکھی گئی ہیں ۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران ایف بی آر حکام نے واضح کیا کہ 5اہم ایکسپورٹنگ سیکٹر پر زیرو ریٹنگ کے ساتھ ٹیکس استثنیٰ کے باعث سالانہ 90سے100ارب روپے کا ریونیو کم مل رہاہے تاہم ورلڈ بینک کی جانب سے تخمینہ لگایاگیا ہےکہ پاکستان کو سالانہ 300ارب روپے کا نقصان پہنچ رہاہے۔ایف بی آر کے اعلیٰ حکام نے تخمینہ لگایاہےکہ ایف بی آر 13فیصد نومینل گروتھ کے ساتھ 5000ارب روپے سے5001ارب روپے جمع کرسکتا ہے اور اگر حکومت ایف بی آر کے 5550ارب ٹیکس ہدف پر غور کرےتو اس کے نتائج رواں مالی سال کے ٹیکس ہدف 4398ارب روپے سےمختلف ہوسکتے ہیں۔حکام کا کہنا ہےکہ آئی ایم ایف نے خالص ٹیکس وصولی کے اعداد و شمار پر بات نہیں کی تاہم آئی ایم ایف ٹیکس کو جی ڈی پی ریشیو کے حساب سے بڑھانے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ آئی ایم ایف نے کہاہے کہ پاکستان کا جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی)حقیقت میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس موڈ کی شکل میں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں جس کے باعث اس کی اسکی اصل شکل تبدیل ہوگئی ہے۔حکام کا کہنا ہےکہ آئی ایف ایم نے ان تبدیلیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

تازہ ترین