• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ قبل ہالا جانا ہوا، تو روایتی نیلی ٹائلز بنتے دیکھ کر حیرت زَدہ رہ گئے، کیا خُوب صورتی اور کیا ہی مہارت تھی…کمال ہے!! ہم اس سے قبل ملتان میں بھی اسی طرح ٹائلز بننے کے دِل فریب مناظر دیکھ چُکے تھے۔ صدیوں پرانا یہ فن آج بھی جیسے تیسے زندہ ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس فن میں قدیم روایات کے ساتھ، جدیدیت کے رنگ بھی پوری آب وتاب سے جگمگا رہے ہیں۔ گو کہ اِن دِنوں اٹلی اور اسپین دنیا میں جدید ٹائل سازی کے مراکز ہیں، مگر پاکستان نے بھی عالمی معیار کی ٹائلز بنا کر بین الاقوامی مارکیٹ میں نام کمایا ہے۔ پاکستان میں اِن دنوں ٹائلز اور سرامکس بنانے والی8 کمپنیز کام کر رہی ہیں۔ اِن میں چھے ماہ قبل مارکیٹ میں آنے والی دو نئی کمپنیز بھی شامل ہیں، جن میں چین کی جانب سے سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس صنعت سے لگ بھگ 50ہزار افراد براہِ راست وابستہ ہیں اور ان میں سے بیش تر مزدور سطح کے ملازمین ہیں، گویا اس صنعت کے ذریعے نچلے طبقات کو اوپر آنے کے مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ٹائلز اور سرامکس کی ماہانہ کھپت ساٹھ لاکھ اسکوائر میٹر ہے، جس میں مقامی طور پر تیار ہونے والی ٹائلز کا حصّہ ساٹھ فی صد ہے، باقی چالیس فی صد اسمگل ہو کر آتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ٹائلز زیادہ تر لوکل میٹریل سے بنتی ہیں، بہت کم خام مال بیرونِ مُلک سے منگوانا پڑتا ہے، یوں قیمتی زرِ مبادلہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ مختلف اقسام کی مٹّی کو ایک پراسس سے گزار کر ٹائلز کی صُورت دی جاتی ہے۔ چوں کہ یہ مٹّی دور دراز علاقوں سے منگوائی جاتی ہے، تو اس طرح ان پس ماندہ علاقوں میں بھی روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

آج کل تقریباً ہر گھر، دفتر یا کسی بھی قسم کی تعمیر کے لیے رنگ برنگی، دیدہ زیب ٹائلز کا استعمال لازم و ملزوم ہے کہ ان سے جہاں جدّت کا احساس ہوتا ہے، وہیں کئی جھمیلوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عمارتوں میں تعمیراتی جدّت لانے کے لیے اب تک اس سے سستا اور خُوب صورت کوئی اور طریقہ سامنے نہیں آیا، یہی وجہ ہے کہ اب گھروں اور دفاتر میں کثرت سے ٹائلز لگائی جاتی ہیں۔ ٹائلز کے یوں استعمال سے معیارِ زندگی میں بھی بہتری آئی ہے۔نیز، ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹائلز کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اِس انڈسٹری کی نمو کی خاصی گنجائش ہے۔تاہم، حیرت انگیز طور پر پاکستان کی ٹائلز اینڈ سرامکس انڈسٹری کی سالانہ شرحِ نمو، دس فی صد سے کم ہو کر پانچ فی صد پر آچُکی ہے۔ مانگ میں اضافے کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ اور اس صُورتِ حال سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟ یہی سوال ہم نے ٹائلز انڈسٹری کے ایک معتبر نام،’’ شبّیر ٹائلز‘‘ کے سی ای او، مسعود جعفری سے پوچھا۔ جواباً اُن کا کہنا تھا کہ’’ انڈسٹری کو آگے بڑھنے کے لیے سازگار ماحول چاہیے، لیکن بدقسمتی سے کاروباری ماحول دن بہ دن غیر دوست ہوتا جا رہا ہے اور اِس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ٹائلز بہت بڑے پیمانے پر چین اور ایران سے پاکستان آ رہی ہیں۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ ٹائلز کی چالیس فی صد مقامی ضروریات درآمدی ٹائلز سے پوری کی جارہی ہیں۔ سالانہ80 ملین اسکوائر فِٹ ٹائلز باہر سے آ رہی ہیں، جس میں قانونی اور غیر قانونی، دونوں طرح کا مال شامل ہے۔ایرانی بارڈر تو اس مقصد کے لیے کُھلا ہوا ہے۔ تافتان سرحد سے ٹائلز کے ٹرک بَھر بَھر کر آرہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس صُورتِ حال نے انڈسٹری کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔ٹائلز صنعت کی کم رفتار ترقّی کی دوسری بڑی وجہ گیس قیمتیں ہیں۔ ٹائلز کی تیاری میں گیس بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے، کارخانوں کی بھٹّیاں اسی پر چلتی ہیں اور اسی لیے ٹائلز کی وَن تھرڈ قیمت گیس کے استعمال کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔اب گیس قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، بلکہ چھلانگیں لگا رہی ہیں، تو اس وجہ سے کاروبار جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘

یہاں دو سوالات سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ہماری ٹائل انڈسٹری مُلکی ضروریات پوری ہی نہیں کر پارہی، تو پھر باہر سے ٹائلز منگوائے بغیر کیسے گزارا کیا جا سکتا ہے اور دوسری بات یہ کہ پاکستان میں بننے والی ٹائلز سے ایران اور چین سے آنے والی ٹائلز کم ازکم 35 فی صد سَستی ہیں، تو عوام لوکل کی بجائے باہر سے آنے والی ٹائلز کی خریداری کو ترجیح کیوں نہ دیں ؟ ان سوالات کے جواب میں مسعود جعفری کا کہنا تھا کہ ’’بات اتنی سادہ نہیں ہے، جتنی نظر آرہی ہے، اس معاملے کے کئی پہلو ہیں۔ جہاں تک ایران اور چین سے آنے والی ٹائلز سَستی ہونے کی بات ہے، تو ذہن میں رکھیے کہ وہاں گیس کی قیمتیں پاکستان سے کئی گُنا کم ہیں، خاص طور پر ایران میں تو گیس بہت ہی سَستی ہے۔ چوں کہ ایرانی ٹائلز کسٹم ڈیوٹیز اور دیگر ٹیکسز کے بغیر پہنچ رہی ہیں، اس لیے مقامی صنعت اسمگل شدہ ٹائلز کے ساتھ قیمتوں کے معاملے میں مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نیز، یہ بھی یاد رکھیے کہ ایک ہی مشین سے ٹائلز کی تین، چار اقسام بنتی ہیں۔ لوگ باہر سے ہلکا مال خرید کر پاکستان لارہے ہیں اور یہاں اُس کی کٹنگ کرکے مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ٹھیک ہے، سرِدست ہماری انڈسٹری مُلکی ضروریات پوری نہیں کرپارہی، لیکن ٹائلز کی اسمگلنگ اور غیر منظّم درآمد رُکنے تک صنعتوں کی گنجائش بھی نہیں بڑھ پائے گی، کیوں کہ جب مال باہر سے آرہا ہے، تو یہاں کون بنائے گا؟ اور کوئی کیوں نئی سرمایہ کاری کرے گا؟‘‘ آل پاکستان سرامکس اینڈ ٹائلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن(اے پی سی ٹی ایم اے) کا بھی کچھ ایسا ہی مؤقف ہے۔ اُس کے مطابق، ’’ٹائل کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کیے جانے کے باوجود مقامی انڈسٹری مشکلات سے دوچار ہے، کیوں کہ ٹائلز کم ویلیوایشن پر درآمد ہورہی ہیں، حالاں کہ دنیا بھر میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں تن خواہوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، خصوصاً ایران اور چین میں، اس لیے یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ ان ٹائلز کی امپورٹ ٹیرف پرائس اتنی کم سطح پر ہو۔نیز، ٹائل انڈسٹری کی جانب سے ایف بی آرکو بارہا مطلع کیا جا چُکا ہے کہ کراچی، کوئٹہ، مکران، لاہور اور مُلک کے دیگر شہروں میں ایرانی ٹائلز کی وسیع پیمانے پر ڈمپنگ ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے درآمد، اسمگل شدہ اور انڈر انوائس ٹائلز کا مارکیٹ شیئر 45 فی صد سے بڑھ گیا ہے۔‘‘ اب ذرا دُکان داروں کی بھی سُن لیجیے۔ محمّد امین لاثانیا’’ آل پاکستان ٹائلز مرچنٹس ایسوسی ایشن‘‘ کے چیئرمین ہیں، اُنھوں نے ہمارے سوالات کے جواب میں کہا’’ لوکل انڈسٹری ضرور پَھلنی پُھولنی چاہیے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ٹائلز کی اسمگلنگ اس کی ترقّی میں رکاوٹ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری ٹائل انڈسٹری عوامی ڈیمانڈ پوری نہیں کر پا رہی، وہ جتنا مال بناتی ہے، سارا بِک جاتا ہے، بلکہ ایڈوانس میں بِک رہا ہے۔مُلک بھر میں 50 ہزار کے قریب ٹائلز شو رومز ہیں، یہ کمپنیز تو اُن ہی کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر پا رہیں۔ مسئلہ یہی ہے، اگر ہماری کمپنیز مقامی کھپت کے مطابق مال بنانے کی صلاحیت حاصل کرلیں، تو پھر باہر سے مال منگوانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ویسے بھی روپے کی قدر گرنے سے چین سے تو ٹائلز کی درآمد تقریباً رُک ہی گئی ہے۔پھر یہ بھی کہ اگر آج ٹائلز کی درآمد رُک جائے، تو لوکل کمپنیز کل ہی اپنی پروڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ کردیں گی۔‘‘

ہماری ٹائلز سازی سے وابستہ جتنے بھی افراد سے بات چیت ہوئی،وہ سب اس نکتے پر متفّق تھے کہ مقامی صنعت کو اوپر لانے کے لیے ٹائلز کی درآمدات اور اسمگلنگ پر تو ہر صُورت قابو پانا ہوگا۔ اُن کے مطابق،حکومت اینٹی ڈمپنگ اور ریگولیٹری ڈیوٹیز میں فی الفور اضافہ کرے، جس سے اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ایران بارڈر کو کسی صورت اِس مقصد کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ اس کے ساتھ، اس سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری بھی لانی ہوگی تاکہ موجودہ صلاحیت کو کم از کم دُگنا تو کیا جاسکے۔ نیز، گیس قیمتوں میں بھی کمی ضروری ہے، خاص طور پر حالیہ دِنوں میں جس طرح گیس قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، اُسے واپس لینا بے حد ضروری ہے۔

ٹائلز انڈسٹری.... مسائل اور مواقع
مسعود جعفری

ہم گلوبل ویلیج کے باسی ہیں، سو اب مصنوعات خواہ کسی بھی طرح کی ہوں، اُن کے معاملے میں عالمی معیارات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ ٹائلز سازی کے دَوران بھٹّی میں درجۂ حرارت ایک خاص سطح پر رکھنا ضروری ہے،تو دوسری طرف ٹائل کی رفتار کو بھی مین ٹین رکھنا ہوتا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی ڈِس بیلنس ہو جائے، تو کوالٹی متاثر ہوجاتی ہے۔ جس نے سَستی ٹائل بنانی ہوتی ہے، وہ ٹائل کی آگے بڑھنے کی رفتار بڑھا دیتا ہے یا گیس کم خرچ کرنے کے لیے ٹمپریچر کم کردیا جاتا ہے، یہی سبب ہے کہ ایسی ٹائلز دو، چار برس بعد ہی ٹوٹنے لگتی ہیں۔ نیز، ٹائلز میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت کی جانچ پڑتال بھی بہت اہم ہے۔ اسی طرح کی نزاکتوں کے پیشِ نظر عالمی سطح پر ٹائل سازی کے لیے کچھ معیارات مقرّر کیے گئے ہیں تاکہ صارفین کو معیاری مصنوعات فراہم کی جا سکیں، مگر ہمارے ہاں ابھی تک اس صنعت میں عالمی قوانین اور اصولوں کو نظرانداز کرنے کی روش عام ہے۔نیز، حکومتی سطح پر بھی کوئی ایسا ادارہ نہیں، جو ٹائل انڈسٹری میں اس طرح کے قوانین پر عمل درآمد کروانے کا پابند ہو،تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ایک پاکستانی کمپنی’’ stile‘‘ نے عالمی اور آئی ایس او معیارات کی پابندی یقینی بنانے کا سفر شروع کیا ہے، بلکہ کئی معاملات میں تو اُس کی مصنوعات عالمی معیار سے بھی بلند ہیں۔ یہ پاکستان کی واحد کمپنی ہے، جو اٹالین لیب سے اپنی مصنوعات کی تصدیق کرواتی ہے۔ یہ کمپنی عوام کے لیے آگاہی مہم بھی چلا رہی ہے کہ وہ سَستی کی بجائے معیاری ٹائلز ہی کو ترجیح دیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف اداروں سے وابستہ آرکیٹیکٹس کو بھی آن بورڈ لیا جا رہا ہے۔نیز، اٹلی کے ماہرین کی پاکستانی آرکیٹیکٹس سے ملاقاتیں بھی کروائی گئی ہیں، کیوں کہ کسی بھی تعمیراتی منصوبے میں ان کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔

خریداری کے لیے چاہیے مہارت

ٹائلز کی خریداری آپ کے ذوق کا امتحان تو ہے ہی، مطلوبہ مال کے لیے جانچ پَرکھ کی صلاحیت کا ہونا بھی لازم ہے۔ پھر یہ بھی کہ ٹائلز روز روز تو تبدیل ہونے سے رہیں، لہٰذا ایک ہی بار اچھی اور معیاری نہ خریدی گئیں، تو پھر عُمر بھر نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔رابعہ جاوید، ٹائلز انڈسٹری سے وابستہ ہیں اور اس ضمن میں صارفین کو رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ سو، ہم نے اُنہی سے کہا کہ خریداری کے کچھ سیکریٹس تو بتا دیجیے، اُنھوں نے ٹِپس دیتے ہوئے بتایا’’ سب سے پہلے تو یہ پتا ہونا چاہیے کہ ٹائلز لگانی کہاں ہیں، کیوں کہ ہر مقام کے لیے الگ ڈیزائن ہی مناسب ہوتا ہے۔ باتھ رومز اور والز پر سرامک، جب کہ فلور پر پورسلین ٹائلز لگتی ہیں۔ پھر یہ کہ صرف دُکان دار کی لچّھے دار باتوں میں نہ آئیں کہ اُسے تو اپنا وہ مال ٹھکانے لگانا ہوتا ہے، جس میں زیادہ منافع مل رہا ہو۔ ہمیشہ اچھی کمپنی کا مال خریدنے کو ترجیح دیں، جو مارکیٹ میں دوسروں کے مقابلے میں کچھ مہنگا تو ہوگا، مگر معیار اور پائیداری میں بھی سب سے بڑھ کر ہوگا۔ بہت سے دُکان دار اچھی کمپنی کے نام پر ایرانی یا چینی ٹائلز تھما دیتے ہیں، تو خریداری کرتے ہوئے ٹائلز کی پُشت پر لکھے کمپنی کے نام کو دیکھنا ہرگز مت بھولیے۔ بعض اوقات گریڈ ٹو کو گریڈ وَن بنا کر بیچ دیا جاتا ہے، اس لیے ٹائلز خریدتے اور وصول کرتے ہوئے اچھی طرح تسلّی کرلیں کہ آپ کو مطلوبہ گریڈ ہی کا مال دیا گیا ہے۔ باکس پر گریڈ کی وضاحت ہوتی ہے، اس لیے اسے ضرور دیکھنا چاہیے۔

کون سی ٹائل کہاں لگانی ہے؟ آرکیٹیکٹ سے ضرور مشورہ کریں

ثمینہ بٹ گزشتہ 29 برسوں سے نیسپاک(NESPAK) سے وابستہ ہیں اور اِن دنوں چیف آرکیٹیکٹ اور جنرل مینیجر کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ہم نے ٹائل انڈسٹری میں آرکیٹیکٹس کے کردار کے حوالے سے اُن سے متعدّد سوالات کیے، جن کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ کچھ عرصہ قبل تک صرف ماربل ہی کے استعمال کو ترجیح دی جاتی تھی ، مگر ٹائلز کی نت نئی ورائیٹز نے اب ماربل کو خاصا پیچھے چھوڑ دیا ہے،خاص طور پر پورسلین ٹائلز نے بہت جگہ بنائی ہے۔یہ اس لحاظ سے اچھا ہوا کہ ماربل مارکیٹ کی ضروریات پوری کر بھی نہیں سکتا تھا۔

ٹائلز اس لیے بھی بہتر رہتی ہیں کہ یہ صفائی اور چمک وغیرہ میں ماربل سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ابتدا میں تو ٹائلز کا استعمال صرف فرش تک محدود تھا، مگر اب کچن، باتھ رومز، گھر کی اندرونی دیواروں، لانز تک میں انھیں لگایا جا رہا ہے، جب کہ ان کے بعض ڈیزائنز، جو ثقافتی رنگ لیے ہوئے ہیں، انھیں خُوب صُورتی کے لیے گھروں یا دفاتر کے نمایاں مقامات پر بھی نصب کیا جا رہا ہے۔اسی طرح اب عمارتوں کے بیرونی حصّوں میں بھی ٹائلز لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے کہ اس سے ہر سال، چھے ماہ بعد رنگ و روغن کے جھنجھٹ سے جان چُھوٹ جاتی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک یہ شعور مناسب طور پر اجاگر نہیں ہوسکا کہ کون سی ٹائل کہاں لگانا بجٹ، ضرورت اور خُوب صورتی کے لحاظ سے مناسب رہے گا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں آرکیٹیکٹس سے رجوع کرنے کا رواج نہیں۔ صرف اپنی پسند یا زیادہ سے زیادہ دُکان داروں اور مستریوں کے مشورے سے ٹائلز خرید لی جاتی ہیں۔ ابھی تک لوگ ایسی ٹائلز خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ،جو کم قیمت اور زیادہ چمک دمک والی ہو، خواہ وہ ایرانی یا چینی ہی کیوں نہ ہوں۔ تاہم، پوش علاقوں اور اچھے تعمیراتی منصوبوں میں آرکیٹیکٹس سے بھی مشاورت کی جانے لگی ہے، البتہ چھوٹے بلڈرز اب بھی گاہکوں کو مائل کرنے کے لیے ایسی ٹائلز کو اہمیت دیتے ہیں، جن میں چمک وغیرہ زیادہ ہو، مگر یہ چوں کہ ناقص ہوتی ہیں، تو اس لیے جلد ہی اپنے ساتھ عمارت کو بھی کھنڈر میں بدل دیتی ہیں، جب کہ ہم ہر برس کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور دیگر شہروں میں ایسی نمائشوں کا انعقاد کر رہے ہیں، جہاں آرکیٹیکٹس، ٹائلز مینو فیکچررز اور بلڈرز کو مل بیٹھنے کے مواقع میّسر آتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے تجربات سے خُوب استفادہ کرتے ہیں۔‘‘

تازہ ترین