• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجب منظر تھا۔ شاید پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگ کسی سیاسی رہنما کو جیل چھوڑنے گئے اور اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ بے گناہ ہے اور آمرانہ قوتوں کے سامنے کھڑا ہونے کی پاداش میں سزاوار ٹھہرا۔ انگریزوں کے دور میں سول نافرمانی یا پھر مارشل لائوں کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں جیل بھرو تحریکیں چلتی تھیں اور جمہوریت کے پروانوں کو ہاروں سے لاد کر جیل یاترا کے لیے وداع کیا جاتا تھا۔ تحریکیں تو سیاسی قائدین کی رہائی کے لیے بھی چلائی جاتی تھیں، لیکن میاں نواز شریف کو پھر سے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ جیل روانہ کرنے کا منظر عجب بے بسی کا مظہر تھا۔ سپریم کورٹ سے دل کے مریض کو چھ ہفتوں کی ضمانت میں توسیع نہ ملنے پر مسلم لیگ نواز کے کارکن بجھے بجھے بھی تھے اور سخت ناراض بھی۔ مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ اتنے پُرجوش لوگوں کے آنے کے باوجود، مسلم لیگ ن کی بیشتر قیادت پارٹی کی جانب سے کال نہ دینے کے گناہ پہ کیوں اتنی مصر رہی۔ جانے یہ لیگی لوگ مزاحمت کے نام سے کیوں بدکتے ہیں۔ ایسے تو ووٹ کو عزت ملنے سے رہی اور سویلین جمہوری آئینی بالادستی کی راہ کبھی ہموار ہو گی؟ شاید لیگی روایت ہی ایسی ہے کہ جو ایک بدعت کی طرح اس کے خمیر میں رچی بسی ہے۔ لیکن نواز شریف اور مریم نواز کے لاہوری متوالوں نے قیادت کے وسوسوں کو غلط ثابت کر دیا اور جیل کے دروازے ’’گنتی بند ہونے‘‘ کے چھ گھنٹے بعد بھی کھولنے پڑے۔

پاکستان بھی عجب مملکت ہے اور اس کی سیاست بھی انوکھی۔ پاکستان آیا تو وجود میں جمہوری حقِ خودارادیت کے طفیل، مگر اس کی زیادہ تر سیاست بگڑی تو مارشل لائوں کی کوکھ میں اور بنی بھی تو اُن کی مزاحمت میں۔ نواز شریف کی سیاست بھی یا تو مارشل لا کی مرہونِ منت تھی یا پھر اُن کی مزاحمت سے عبارت۔ جنرل جیلانی کی نرسری میں پروان پا کر اور جنرل ضیا الحق کے دست شفقت سے ووٹ کی دھجیاں بکھیرتے وہ اپنی ہی پارٹی کے سربراہ کا تختہ اُلٹتے مسلم لیگ نواز کے قائد اس طرح بنے کہ جنرل ضیا الحق نے اپنے ہی چُنے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو چلتا کیا تھا۔ لیکن جونہی نواز شریف نے مسندِ وزارتِ عظمیٰ سنبھالی اُن کی جُون بدل گئی اور نوکرِ شاہی کے پدرِ اعلیٰ غلام اسحاق خان کے ساتھ ٹکرائو میں اگر وزیراعظم گھر سدھارے تو طاقتور صدر کو بھی صدارتی محل چھوڑنا پڑا۔ آخر وزارتِ عظمیٰ کی نشست میں ایسا کیا ہے کہ زیادہ تر وزرائے اعظم کی گورنر جنرل/ صدر/ چیف سے نہ بنی۔ نواز شریف آئے تو اُن کے کندھوں پہ سوار ہو کر لیکن ایک نہیں تین بار حکومت سے نکالے گئے، تاآنکہ اُنہیں سمجھ آئی کہ اصل سوال کیا ہے۔ ملک کا مقتدرِ اعلیٰ عوام اور اُن کے منتخب نمائندے ہیں یا غیرمنتخب ادارے۔ بس یہ سمجھ آنی تھی کہ ووٹ کو عزت دو کا جادو سر چڑھ کر بولا۔

ان کے برعکس ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز تو جنرل ایوب خان کی سرپرستی میں کیا، لیکن اُنہوں نے ایوب آمریت کی مخالفت میں کھڑے ہو کر پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور مغربی پاکستان میں 1968 کی عوامی جمہوری لہر کو اپنے انقلابی نعروں کی گونج میں لے اُڑے اور اس ملک کی تاریخِ بے آئین کے سب سے پاپولر اور سب سے طاقتور وزیراعظم بنے۔ مشرقی پاکستان میں یحییٰ ٹولے کی شکست پر طاقت کا جو خلا پیدا ہوا وہ بھٹو نے زوردار طریقے سے پُر کرتے ہوئے 1973 کا متفقہ آئین دیا اور آخر میں سیاسی و مقتدرہ ریشہ دوانیوں کے ہاتھوں اقتدار سے نکالے جانے پر ایک اور مارشل لا ڈکٹیٹر کے سامنے جھکنے کی بجائے پھانسی کے تختے پہ جھول کر امر ہو گئے۔ لیگیوں کے برعکس، جیالوں کا موٹو ’’شہادت ہماری منزل‘‘ ٹھہرا۔ لیکن لیگیوں کو چند ماہ جیل جانے میں کیوں اتنی آفت دکھائی پڑتی ہے۔ میاں صاحب بھی چند مہینوں میں جیل سے باہر ہوں گے، گو کہ اُنہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔

جو بیانیہ نواز شریف اور مریم نواز نے پاپولر کیا تھا، لیگی اس جمہوری ورد پر کھڑے نہ رہ سکے اور خود نواز شریف کے برادرِ خورد شہباز شریف پائوں پکڑو، جان چھڑائو کی لے پر قلابازیاں کھاتے نظر آئے۔ اور نواز شریف اپنے جگر گوشے مریم کے ساتھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے حلقہ زنجیر میں زبان رکھے بیچارگی سے تکا کیئے۔ ایسے میں چھوٹے میاں کی پھرتیاں دیدنی تھیں۔ وہ قائدِ حزبِ اختلاف بنے بھی تو اس منصب کی بے توقیری کا باعث بنے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سنبھالی بھی تو نیب کی حراست سے بچنے کے لیے۔ شہباز شریف نے اپنے برادرِ محترم پر لگنے والے الزامات سے پہلو بچایا بھی تو کام نہ آیا اور اُن سمیت اُن کا پورا خاندان اب نیب کی گرفت میں ہے۔ چلے تو بھائی جان کے گناہ بخشوانے لیکن خود ہی دامِ صیاد میں پھنس گئے۔ بھلا ہو عدالتِ عظمیٰ کی انسانی ہمدردی کا کہ نواز شریف کو دل کو بہلانے کے لیے چھ ہفتے کی رخصت ملی بھی تو برادرِ خورد اپنے علاج کے لیے لندن سدھار چکے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب سابق وزیراعظم نے اپنی پارٹی کی کایا پلٹ دی اور اس کا رُخ اپنے مزاحمتی بیانیے کی جانب موڑ دیا اور پھر سے کمر ٹھونک جیل روانہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی ’’ڈیل اور ڈھیل‘‘ کی دھول اُڑانے والے نوٹنکیوں کو منہ چھپانے کی بنی۔ لیکن دوبارہ جیل جاتے جاتے وہ اپنی جانشین مریم کو جماعتی بے نامی سے نکال کر اس کی صفِ اوّل میں کھڑا کر گئے۔ یہ اس لیے بھی کرنا پڑا کہ جواں سال بلاول بھٹو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپوزیشن کی سنٹر اسٹیج سنبھال چکے تھے اور اُن کے والد آصف علی زرداری اپنی پینترے بازیوں سے مایوس ہو کر ماضی کی طرح پھر سے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے کمربستہ ہو چکے تھے۔

اب جبکہ نواز شریف جیل میں ہیں، شہباز شریف چُھٹی پہ، تو شریف خاندان کی خاندانی سیاست میں اگلی پیڑھی کے میدان میں اُترنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات تو دُور سے ہی نظر آ رہے ہیں جبکہ حمزہ کے تلوں میں تیل نہیں۔ اب یا تو مریم آگے آئیں گی یا پھر شہباز شریف کے ہاتھوں مسلم لیگ نواز ایک اور قاف لیگ بنی بھی تو عزت گنوا کر۔ ہماری سیاست کا یہ المیہ ہے اور تلخ حقیقت بھی کہ ووٹ کو عزت بھی دو سیاسی خاندانوں کے اقتدار کا نذرانہ بن کے رہ گئی ہے یا پھر تازیانہ! ابھی لاڈلے کے ہاتھوں جو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے وہ بھی تاریخ کے جوار بھاٹے کی نذر ہونے کا منتظر ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ جو آ چکی، شرمندہ بھی ہو چکی۔ آگے آگے دیکھیے ایسی سونامی آنی ہے کہ سونامی کے نام لیوائوں کا نام و نشان بھی نہیں ملنے والا۔ لیکن حقیقی عوامی جمہوری کایا پلٹ کے لیے بڑی تاریخی جدوجہد درکار ہے جس کی کہ خاندانی نوآبادیاں متحمل نہیں۔ حقیقی عوامی سونامی کی جھلک دیکھنے کو آنکھیں پتھرا سی گئی ہیں۔ وہ صبح کبھی تو آئے گی!

تازہ ترین