گزشتہ ہفتےڈی کے ایونٹس کی جانب سے گلوبل مارکی میں ’’قوالی نائٹ‘‘ کا اہتمام کیا گیا، جس میں عالمی شہرت یافتہ گائیک استاد راحت فتح علی خان نے آواز کا جادو جگایا۔محفل سماع میں شرکت کے لیے شائقین موسیقی افطار کے بعد ہی آنے لگے تھے،جب کہ قوالی نائٹ رات گیارہ بجے شروع ہوئی۔اس موقع پرنوجوانوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی پنڈال کو رمضان المبارک کی مناسبت سے سجایا گیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ گائیک استاد راحت فتح علی خان نے قوالی نائٹ میں بر صغیر کے ممتاز شعراء کا صوفیانہ اور عارفانہ اپنی مدھر اور سریلی آواز میں پیش کرکے سماعتوں میں ایسا رس گھولا کہ محفلِ لوٹ لی۔رمضان المبارک میں صوفی موسیقی کے رنگ بکھیرے۔اس موقع پر حاضرین نے سحری تک روح کو گرما دینے والی محفل میں شریک رہے۔ استاد راحت فتح علی خان نے محفل سماع کا آغازحمدیہ کلام اللہ ہو اللہ ہو سے کیا۔استاد راحت فتح نے پہلی بار کراچی میں قوالی نائٹ میں پرفارمینس دی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھےقوالی نائٹ میں ذاتی طور پر بہت مزا ایا۔اس طرح کی محفل وقت کی اہم ضرورت ہے۔قوالی کا فن کبھی ماند نہیں پڑا۔ قوالی پاپولر عوامی میوزک ہے، تاقیامت درگاہوں اور درباروں میں قوالی کی محفلیں ہوتی رہیں گی۔ یہ صدیوں پُرانا فن ہے۔ آئندہ چند برسوں میں فنِ قوالی کو مزید عروج ملے گا۔ آج کے دور کے گانوں میں جو صُوفیانہ رنگ نظر آتا ہے، وہ قوالی کی مرہون منت ہے، جس فلم میں بھی قوالی شامل کی جاتی ہے، وہ فلم سپرہٹ ثابت ہوتی ہے۔دُنیا بھر میں صوفی موسیقی کو بے حد سراہا جاتا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں قوالی کا فن تقریباً چھ سو سال پُرانا ہے، جو پشت در پشت منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچ رہا ہے۔ پاکستان میں استاد نصرت فتح علی خان نے قن قوالی کو پُوری دنیا میں نئے رنگ اور منفرد انداز سے متعارف کروایا۔ ان کے والد فتح علی خان کی فنی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ استاد نصرت فتح علی خان کے انتقال کے بعد میں اپنے ملک اور خاندان کا نام پُوری دنیا میں روشن کررہا ہوں۔میں بنیادی طور پر ایک قوال ہوں، مجھے گلوکار سے زیادہ خود کو قوال کہلوانا پسند ہے۔ صُوفیانہ کلام میری روح میں بسا ہوا ہے۔ قوالی ہمارا خاندانی کام ہے۔انگریز کو قوالی بہت پسند ہے۔ وہ ہماری ثقافتی موسیقی کو بے انتہا چاہتے ہیں۔