فیصل کانپوری
معروف قوال امجد صابری آج اس دُنیا میں نہیں، مگر ان کا فن آج بھی زندہ جاوید ہے۔ انہوں نے فنِ قوالی میں وہ شہرت حاصل کی جس کی تمنا ہر قوال کو ہوتی ہے، مگر منزل کوئی کوئی پاتا ہے۔ امجد صابری 23دسمبر 1976کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے،بی کام تک تعلیم حاصل کی ،اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا گئے، لیکن اپریل1994 میں اپنے والد معروف قوال غلام فرید صابری کے انتقال کے باعث وطن واپس آ گئے۔ امجد صابری کا گیارہ بہن بھائیوں میں آٹھواں نمبر تھا، لیکن انہیں یہ فخر حاصل تھا کہ وہ اپنے والد کے جانشین اول تھے۔ امجد صابری نے اپنے فنی سفر کا آغاز کم عمری میں کیا۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں برصغیر کے ممتاز اداکار شہنشاہ جذبات محمدعلی کی فلم ’’سہارے‘‘ میں بہ طور چائلڈ اسٹار کام کیا۔ اس فلم میں امجد صابری نے علامہ اقبال کی مشہور زمانہ نظم ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری ‘‘ کو پیش کیا ۔انہوں نے اپنے والد محترم کی قوالیوں کو اس انداز سے پڑھیں کہ اس سے سننے والے کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ اگر آنکھ بند کر کے امجد صابری کی قوالیوں کو سنا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے غلام فرید صابری پڑھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس محنت اور ریاضت کا نتیجہ تھا، جس میں امجد صابری نے اپنے والد مرحوم کے ساتھ کرنی شروع کی تھی۔ فضائوں میں جب ’’بھر دو جھولی میری یا محمدؐ ‘‘ اور ’’تاجدار حرم ہو نگاہ کرم‘‘ کی صدائیں گونجتی ہیں تو ہر شخص بے خود ہو جاتا ہے۔ امجد صابری نے قوالوں کے ساتھ ساتھ منقبت بھی دلکش انداز میں پڑھی۔ انہوں نے ایک منقبت ’’علی کے ساتھ ہے زہرہ کی شادی ‘‘کو عمدہ انداز سے پڑھا ہے، جسے بہت پسند کیا گیا۔ امجد صابری اسی قوال خانوادے کے چشم و چراغ تھے،جنہیں دنیائے قوال میں بہت شہرت حاصل ہوئی ۔ عوامی سطح پر امجد صابری کا پہلا بڑا پروگرام پاک پتن شریف میں ہوا۔1996 سے انہوں نے باقاعدہ قوالی پڑھنا شروع کی ۔1997میں انہوں نے اجمیر شریف میں حاضری دی اور قوالی کا پروگرام کیا 1998میں ان کا پہلا آڈیو البم ’’تاجدار حرم‘‘ ریلیز ہوا، جس کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس اڈیو البم کی کام یابی سے امجد صابری پر شہرت کی دیوی مہربان ہو گئی ۔ اس کام یابی نے ان کی شہرت کو مزید دوام بخشا۔ اُن کی قوالیوں کے یادگار پروگراموں میں سے ایک یادگار پروگرام لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والی ایک یادگار محفل قوالی ہے۔ یہ محفل اسد جہاں کے توسط سے ہوئی تھی۔ اس میں لاہور کے میاں علی بہ طور خاص تشریف لائے تھے امجد صابری نے کئی صوفیانہ کلام عمدہ انداز سے پڑھے۔ ’’ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جاکے دیکھ‘‘ اس کے علاوہ’’ میں تو دیوانی خواجہ کی دیوانی ‘‘ مزید دیگر کلاموں میں ’’کرم مانگتا ہوں عطامانگتا ہوں ‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنا آخری کلام نجی ٹیلی ویژن کی نشریات میں پڑھا تھا، اس کے بول یہ تھے، ’’ اے سبز گنبد والے منظور یہ دُعا کرنا‘‘۔ امجد صابری کا کہنا تھا وہ محفل میں حمد کے ساتھ نعت اور منقبت پڑھتے ہیں، جسے سامعین ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں۔ انہوں نے مختلف نعتیہ شاعروں کا کلام پڑھنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ ان میں پیام سہالوی، پرنم الہ آبادی ،بہزاد لکھنوی، امام احمد رضا بریلوی، شامل ہے۔ کینیڈا میں منعقدہ ایک محفل نعت کا ذِکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس محفل میں کلام الٰہی کی بدولت غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ بالی وڈ کے سپر اسٹار اجے دیوگن کی بھارتی فلم میں بھی امجد صابری کی ایک قوالی کو فلم بند کیا گیا۔ ان کو قوالی کے روک اسٹار کا خطاب دیا گیا۔
امجد صابری فخر پاکستان تھے۔ پُوری دنیا میں جہاں جہاں قوالی کو سننے اور پسند کرنے والے موجود ہیں، وہ سب آج بھی امجد صابری کو یاد کرتے ہیں۔ شعبہ قوالی کے فن کا وہ چمکتا ہوا ستارہ تھے، جن کی جلائی ہوئی شمعیں آج بھی روشن ہیں۔ آج بھی یو ٹیوب اور نیٹ پر ان کی قوالیوں کو سب سے زیادہ سُنا جاتا ہے انہیں مختلف اداروں کی جانب سے مختلف ایوارڈ سے نوازا گیا، جو ان کی اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ 40سال کی عمر میں رمضان المبارک میں ہم سے جدا ہو ئے۔ ان کی شہادت بہت بڑا سانحہ ہے ، کل کی بات لگتی ہے۔ان کو ہم سے جدا ہوئے ،تین سال بیت گئے۔ انہوں نے لاکھوں مداحوں میں اپنے والد کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں۔ صوفی شاعر حیرت شاہ وارثی کے مزار کے احاطے میں مدفن ہیں۔ امجد صابری آج اس دنیا میں نہیں لیکن وہ اپنے فنِ والی کی بدولت سننے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔