پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا ایم ڈی
عمومی طور پر جگر تین طرح کے عوارض کا شکار ہوتا ہے، جن کی وجوہ بھی مختلف ہیں۔ سرِفہرست تو ہیپاٹائٹس بی اور سی ہیں، جن کے باعث جگر انتہائی مضر اثرات سے دوچار ہوجاتا ہے۔ دوسری قسم میں ہر قسم کے جراثیم، وائرسز، پیراسائٹس(خصوصاً ملیریا)اور مختلف اقسام کے کیمیائی مادّوں کے سبب جگر کے افعال کا بگاڑ اور تیسری قسم میں جگر کی اپنی بیماریاں شامل ہیں۔ لیور سیروسز ایک ایسا عارضہ ہے، جو عموماً ہیپاٹائٹس بی، سی اور الکحل کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے، جب کہ جگر کے کم و بیش تمام دائمی امراض آخری اسٹیج پر سوزشِ جگر ہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس مرض کی ابتدا جگر کی سُوجن سے ہوتی ہے، جو بتدریج اسےکم زور کر کے مفلوج کردیتی ہے۔ نیز، جگر جسم سے فاسد مادّے خارج کرنے کے قابل نہیں رہتا اور بسا اوقات یہ مادّے مریض کے دماغ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، جسے طبّی اصطلاح میں ہیپٹک انسیفالوپیتھی (Hepatic Enecphalopathy) کہا جاتا ہے۔
عام طور پر جب ہیپاٹائٹس بی اور سی آخری مراحل میں داخل ہوتا ہے، تب بھی مریض کی دماغی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ بعض کیسز میں لیور فیلئرکے سبب بھی اچانک دماغی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے، تو کبھی کوئی انفیکشن، خون کا اخراج، نمکیات کا عدم توازن اور بعض ادویہ بھی وجہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح آنتوں میں بننے والی امونیا گیس بھی دماغ کو متاثر کرسکتی ہے۔ ابتدا میں مریض گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور طبیعت میں اشتعال نمایاں رہتا ہے ۔یعنی مزاج بگڑ جاتا ہے اور بلاوجہ زیادہ غصّہ آتا ہے ۔ دوسرے مرحلے میں دِن میں سوتا اور رات بَھر جاگتا ہےاور یہی وہ دورانیہ ہے، جب مختلف جسمانی ٹیسٹس کے ذریعے مرض کی بروقت تشخیص کی جاسکتی ہے۔مثلاً مریض کو ہاتھ سیدھے کر کے ہاتھ کے پنجوں سے اٹھا کے اُوپر رکھنے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اس کیفیت میں مریض کے ہاتھ ہر وقت ہلتے رہتے ہیں، جسے Flapping of Liver کہتے ہیں۔بعد کی علامات میں ہر چیز کا بھولنا اور ایک ہی کام بار بار دہرانا وغیرہ شامل ہیں۔ تیسرے مرحلے میں مریض عموماً وقفے وقفے سے کومے یعنی غنودگی میں چلا جاتا ہے۔ دیگر اہم علامات یرقان، پیٹ میں پانی بَھر جانا، سانس سے ناگوار بو آنا، دماغ اور پیروں پر سُوجن وغیرہ ہیں۔ چوں کہ اس عارضے کی بنیادی وجہ امونیا گیس ہے، جو عموماً پروٹین سے بنتی ہے، تو مرض کے تیسرے مرحلے میں پروٹین والی غذائیں مثلاً گوشت، مرغی وغیرہ کا استعمال کم کروادیا جاتا ہے۔ اگر آنتوں سےخون خارج ہو، تو وہ بھی جگر کو خاصا نقصان پہنچتا ہے۔ اسی طرح اگر مریض کو قبض رہے( یعنی کم از کم دو بار رفعِ حاجت نہ ہو)، تو فضلے سے بننے والی امونیا گیس بھی نقصان کا باعث بنتی ہے، لہٰذا معالج کو اس علامت پر بھی کنٹرول پانا ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر مختلف اقسام کے نمکیات کا، جن میں سوڈیم شامل ہوتا ہے، استعمال ترک کروا دیا جاتاہے۔ پھر ایسی ادویہ بھی، جو دماغ ماؤف کرتی ہیں(یعنی نیندآور )سخت نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ اس سے اگلے مرحلے میں مریض کو کسی بھی انفیکشن میں مبتلا ہونے سے بچانا ہوتا ہے اور اگر کوئی انفیکشن موجود ہو، تو اینٹی بائیوٹک کے ذریعے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ نیز، مریضوں کوغیر ضروری سرجری کروانےسے بھی منع کیا جاتاہے۔ یہ مرض کسی حد تک قابلِ علاج ہے کہ اس کے لیے مخصوص ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، تاکہ امونیا گیس پیدا نہ ہو۔ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال بھی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً40فی صد مریضHepatic Enecphalopathy کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے قریباً نصف محض ایک آدھ سال ہی جی پاتے ہیں۔ تاہم، جگر کی پیوندکاری کے ذریعے زندگی کے دورانیے میں کم از کم 5سال تک کا اضافہ ممکن ہے، مگر اس علاج سے مستفیض ہونے والے مریضوں کی تعداد30 فی صدہی ہے۔ بہرحال، یہ ایک ایسا پیچیدہ مرض ہے کہ جس کی تشخیص ایک ماہر امراضِ جگر ہی کرسکتا ہے، تو خدارا اتائیوں، نیم حکیموں کے ہتھے چڑھنے کے بجائے علامات ظاہر ہوتے ہی کسی مستند معالج سے رجوع کریں۔
(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال ،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)