• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس مرتبہ لندن میں کچھ زیادہ قیام کرنا پڑا۔ بیرسٹر صبغت اللہ قادری اور بھابھی کرینا کی میزبانی نے پردیس کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ گزشتہ ہفتے بھی انکے فلیٹ کی بالکونی میں بیٹھ کر کالم تحریر کیا تھا اور آج بھی اسی بالکونی میں بیٹھ کر یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ یہ بالکونی دریائے ٹیمز کی طرف واقع ہے۔ اس ایک ہفتے کے دوران کئی دعوتوں میں جانا ہوا، جہاں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ رکن سندھ اسمبلی لال چند نے بھی اپنے بیٹے کے گھر پر میرے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں بھی بہت اہم شخصیات نے شرکت کی۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی اپنے وطن کے حالات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟ اس پر بات کرنے سے پہلے ضمناً ایک اور بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ میں نے ایک ودست سے لال چند کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کے نمائندہ ہیں۔ اس پر لال چند نے انتہائی مہذب انداز میں وضاحت کی کہ وہ اقلیتوں کے نہیں ، غیر مسلموں کے نمائندہ ہیں۔ مجھے اس وقت بھی شرمندگی ہوئی اور آج بھی میں اپنی ندامت کا اظہار کرتا ہوں۔ لندن میں مجھے اس بات کا زیادہ احساس ہوا کہ کسی کیلئے اقلیت کا لفظ استعمال کرنا کس قدر توہین آمیز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لفظ ہمارے آئین اور ہماری لغت سے بھی نکال دینا چاہئے۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف کہ وطن سے دور رہنے والے پاکستانی اپنے وطن کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ میں کئی عشروں سے انگلینڈ آ رہا ہوں۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کے بارے میں اس قدر مایوس کبھی نہیں دیکھا۔ پاکستان عالمی جنگوں کا میدان رہا۔ پاکستان بحرانوں کا شکار رہا لیکن بیرون ملک پاکستانی ہمیشہ پرامید رہے اور وہ دور بیٹھ کر وسیع تر تناظر میں معاملات کو تجزیہ کرتے تھے اور انکے پرامید ہونے کے دلائل بھی بہت مضبوط ہوتے تھے۔ اب کی بار صورتحال اسکے برعکس ہے۔ دریائے ٹیمز کے کنارے خوبصورت مناظر میں اپنے خیالات کے اظہار کیلئے الفاظ ڈھونڈ رہا ہوں اور مایوسی کے اسباب تلاش کر رہا ہوں۔ مجھے برطانیہ کیساتھ تعلق کے تناظر میں اپنے خیالات کو ترتیب دینے میں آسانی محسوس ہو رہی ہے۔ 72سال پہلے ہم نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اس وقت برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ہر براعظم میں برطانوی نو آبادی تھی۔ جب دنیا میں آزادی کی تحریکیں چلیں تو اس وقت یہ تصور پایا جاتاتھاکہ نو آبادیاتی طاقتیں اب تباہ ہو جائینگی اور بات درست ثابت ہوئی لیکن پاکستان اور برطانیہ کے معاملے میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ برطانوی سلطنت اگرچہ سکڑ کر رہ گئی لیکن برطانیہ آج بھی ترقی یافتہ اور انتہائی مہذب معاشرے کی علامت ہے۔ ہم برطانوی نو آبادیاتی تسلط سے آزاد ہو کر جدید نو آبادیاتی تسلط میں آ گئے۔ برطانوی نو آبادیاتی اور سامراجی اسٹیبلشمنٹ اشرافیہ اور روایتی حکمراں طبقات پر مشتمل ہے جبکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بے بنیاد لوگوں کی اسٹیبلشمنٹ ہے، جو اپنے ماضی سے بھی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی۔ ہم نے برطانیہ سے آزادی کے 72برسوں میں معکوس ترقی کی ہے۔ برطانوی نو آبادی حکمرانوں نے جو انفرااسٹرکچر برصغیر میں تعمیر کیا تھا ، وہ ہم نے پاکستان میں تباہ کیا۔ مجھے یادہے کہ کراچی میں ٹرامز چلتی تھیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا بہترین انتظام تھا۔ شہر صاف ستھرا اور خوبصورت تھا۔ بہترین اسپتال تھے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بہترین تعلیم تھی۔ میں نے ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول سے حاصل کی۔ ہم نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھے ہوئے اپنی تاریخ دہرا رہا ہوں۔ برطانوی نو آبادی حکمراںبھی ظالم ہوں گے لیکن ان کے خلاف برصغیر میں فوج کے عام سپاہیوں نے بھی بغاوت کی۔ برطانیہ برصغیر پاک و ہند کوپہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اس طرح ملوث نہیں کر سکا، جس طرح امریکہ نے ہمیں سرد جنگ کے زمانے میں سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا کر ملوث کیا یا ہمیں سوویت یونین کیخلاف جنگ اور بعد ازاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کیا۔

عجیب محسوس ہو رہاہے۔ دریائے ٹیمز کا بہاؤ بہت سست ہے لیکن اس کی وجہ سے خیالات کا بہاؤ بہت تیز ہے۔ کالم کی طوالت سے بچنے کا احساس اس بہاؤ کیساتھ چلنے سے روک رہاہے لیکن خیالات آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف )کے مذاکرات کے بعد یہ ایک انکشاف ہو رہا ہے کہ امریکی جدیدنو آبادیاتی اور سامراجی اسٹیبلشمنٹ عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعہ دنیا کو چلاتی ہے اور پاکستان میں حکومتیں بننے اور گرنے کا عمل بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے لوگ کرپٹ بھی ہونگے اور ان میں بہت خرابیاں ہوں گی لیکن وہ عالمی مالیاتی اداروں کو مزاحمت دیتے تھے تاکہ دوبارہ لوگوں میں جا سکیں۔ یہ مزاحمت اب نظر نہیں آتی۔ اسی وجہ سے لندن میں مقیم پاکستانی بہت مایوس ہیں۔ وہ پاکستان میں بہت ابتری دیکھ رہے ہیں۔ ان کا اندازہ یہ ہے کہ ڈالر مزید مہنگا بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں شرح سود 15فیصد تک جا سکتی ہے۔ گیس اور بجلی کے ماہانہ بل 50فیصد آبادی کی کل ماہانہ آمدنی سے زیادہ ہونگے۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ حکومت اپنی مقبولیت اور استحکام کی بنیادیں کھو چکی ہے۔ دریائے ٹیمز بہہ رہا ہے۔ اس سے زیادہ بہاؤ خیالات یا یوں کہئے کہ خدشات کا ہے۔

تازہ ترین