یہ 1948ء کی ایک زرد شام کی روداد ہے، جب فلسطین کی آنکھیں نیند کی سیاہی میں غروب ہوگئی تھیں، تو آنے والی صبح کا سورج عوام کے لہو میں ایسا ڈوبا کہ دوبارہ نہ ابھرا۔ غلامی کی یہ شام فلسطین کے جسم میں ایک زہر کی طرح پھیلی، بدی کی تصویر کی طرح چھائی اور گناہ کی خواہش کی طرح وطن کی رگوں میں بسیرا کرلیا اور جب لوگوں کی آنکھیں کھلیں، تو ستم کی یہ شام درد میں ڈوبے ہوئے وقت کی طرح ٹھہر چکی تھی۔ فلسطین کی وادیاں، صحرا اور پہاڑ بحیرئہ روم کی طرف سے آنے والی سازشوں کے اندھیروں میں ڈوب چکے تھے۔ شام اور گہری ہوگئی۔ ’’زرقا‘‘ دراصل فلسطین کی اسی مستقل شام کی کہانی ہے، جس کی صبح آج تک نہیں ہوئی اور نہ ہی یورپ کے بجھے ہوئے سامراجی نظام کا دھواں عربوں کے آسمان پر امید کی کوئی کرن ہی پھوٹنے دے گا، لیکن تاریخ گواہ ہے اور ہمیں بھی یقین ہے کہ الجزائر کی جمیلہ کا لہو پکار سکتا ہے، تو ایک نہ ایک دن فلسطین کی ’’زرقا‘‘ اور دوسرے شہیدوں کا خون بھی ضرور رنگ لائے گا۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے، تو مٹ جاتا ہے۔ خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا۔‘‘ یہ ریاض شاہد کی تخلیق کردہ شاہ کار فلم ’’زرقا‘‘ کی کہانی کا خلاصہ تھا۔
ریاض شاہد کا فلمی صنعت میں پہلا تعارف مصنّف کی حیثیت سے1958ء میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار جعفر بخاری کی فلم ’’بھروسا‘‘ سے ہوا۔ بہ حیثیت مصنّف اور مکالمہ نویس انہوں نے اپنی فلمی کہانیوں اور مکالموں میں پُورے خلوص، نیک نیتی اور سچائی سے زندگی کے ان پہلوئوں کا بغور جائزہ لیا، جنہیں بعدازاں اپنے تجزیے اور مشاہدے کے ذریعے جانچا اور پھر برتا۔ اپنی فلموں میں سماجی برائیوں اور زخموں کا علاج بتایا۔ وہ نہایت قابل اور مستحسن اقدام تھا۔ انقلابی سوچ کا مظہر ان کی تحریر کردہ کہانیوں میں جابہ جا نظر آتا ہے۔ وہ 1947ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں علمِ سیاسیات کے طالب علم تھے۔ اسی دور میں وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اسلامیہ کالج کے سرگرم رکن بنے۔ تحریک پاکستان کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصّہ لیا۔ مسلم لیگ کے کارکن کی حیثیت سے ان کی سیاسی خدمات کے صلے میں قائداعظم نے اپنے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا۔ وہ اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے خواہش مند تھے، مگر اپنی سادہ اور بے باک طبیعت کی بِنا پر سیاست کو خیرباد کہہ کر فلم کی طرف آگئے۔ قبل ازیں انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ مولانا اظہر امرتسری کی زیر ادارت شائع ہونے والے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں کچھ عرصہ کام کیا، پھر روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور میں بہ طور کالم نویس وابستہ ہوگئے، بعدازاں آغا شورش کاشمیری کے رسالے ’’چٹان‘‘ سے منسلک ہوئے۔ پھر ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ میں چلے گئے۔ ان ہی دنوں وہ اپنا ایک ناول ’’ہزارداستان‘‘ لکھ رہے تھے، جس کا دیباچہ فیض احمد فیض نے لکھا۔ یہ1957ء کا ذکر ہے۔ اداکار علائوالدین کے ساتھ ان کی دوستی ہوئی اور اس طرح فلم انڈسٹری میں ان کا آنا جانا شروع ہوا۔ اداکار علائوالدین انہیں فلمی دنیا میں لے آئے۔ فلم ’’بھروسا‘‘ کی کام یابی نے انہیں کام یاب مصنّف کے طور پر متعارف کروایا۔ 1962ء میں بہ طور ہدایت کار فلم ’’سسرال‘‘ بنائی، جس کی کہانی ان کے ناول ’’ہزار داستان‘‘ سے لی گئی تھی۔ لیلیٰ، علائوالدین، نگہت سلطانہ، یوسف خان، طالش اور لہری اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ اسی سال ریلیز ہونے والی فلم ’’دوشیزہ‘‘ میں اداکارہ نیلو کے ساتھ ان کی ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ ریاض شاہد کو نیلو کی جرات اور بہادری نے بے حد متاثر کیا اور اسے اپنے نکاح میں لے لیا۔ 1965ء میں نیلو، جن کا اصل نام الیگزینڈر پروین تھا، عابدہ ریاض بن گئیں۔
جن دنوں فلم ’’امن‘‘ زیرتکمیل تھی، اس دوران انہیں کینسر کا مرض لاحق ہوگیا۔ فلم مکمل ہونے کے باوجود سینسر میں پھنسی رہی۔ فلم کو ریلیز کروانے کے لیے انہوں نے سینسر بورڈ سے ایک ایسی لڑائی لڑی، جس کے نتیجے میں وہ خود اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کی فلم ’’امن‘‘ بعد میں ’’یہ امن‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی ریلیز کے کچھ عرصے بعد وہ دُنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی زندگی کی آخری رات بڑی نازک تھی۔ رات کے دس یا گیارہ بجے موسیقار نثار بزمی ان کی عیادت کے لیے آئے۔ وہ حافظِ قرآن تھے۔ انہوں نے تین بار ریاض شاہد کے سرہانے کھڑے ہو کر سورئہ یٰسین پڑھی۔ وہ بہت تکلیف میں تھے۔ سورئہ یٰسین سے انہیں بہت سکون ملا۔ نمازِ فجر تک بزمی صاحب ان کے پاس رہے۔ یکم اکتوبر1971ء صبح سات بج کر35منٹ میں ریاض شاہد دائ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ریاض شاہد کا نام فلمی صنعت میں، جس جرات اور عزم کا نشان بن کر ابھرا، وہ ریاض شاہد مرا نہیں، وہ جس کی سوچ اور نظریات نے اس فلمی صنعت کو شہید، فرنگی، زرقا، یہ امن جیسی شہرئہ آفاق فلمیں دیں، وہ کیسے مرسکتا ہے۔ اپنے نظریات اور تخلیقات کی صورت میں آج بھی زندہ ہے۔
چند منتخب فلمیں
نیند، 1959ء بہ طور مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
شہید، 1962ء بہ طور کہانی نویس، مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
شکوہ، 1963ء بہ طور مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
خاموش رہو، 1964، بہ طور کہانی نویس، مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
فرنگی، 1964ء بہ طور مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
رواج، 1965ء بہ طور مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
آگ کا دریا، 1966ء بہ طور مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
بدنام، 1966ء بہ طور مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
گناہ گار، 1967ء بہ طور کہانی نویس، مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
زرقا، 1969ء فلم ساز، ہدایت کار، کہانی نویس، مکالمہ نویس، نغمہ نگار، نگار ایوارڈ
یہ امن، 1971ء فلم ساز و ہدایت کار، کہانی، مکالمہ نویس، نغمہ نگار، نگار ایوارڈ
ایک رات، 1972ء بہ طور مکالمہ نویس
زخمی، 1973ء بہ طور کہانی نویس، مکالمہ نویس
بہشت، 1974ء فلم ساز، کہانی نویس، مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ
حیدر علی، 1978ء کہانی نویس، مکالمہ نویس، نگار ایوارڈ