خودکش بمباروں کا خوف ساری دنیا میں طاری ہےجب کہ ہمارے ملک میں صورت حال یہ پیداہوگئی ہے کہ مساجد میں بھی نمازی کسی اجنبی شخص کی موجودگی کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ چلتا پھرتا بمبار نہ ہو جو عین نمازکے وقت پھٹ کردرجنوںنمازیوں کی جان لینے کا سبب بن جائے۔لیکن ہمارے یہاں گیس سے چلنے والی گاڑیاں حقیقتاً چلتی پھرتی بمبار بنی ہوئی ہیں، جن میں لوگ سفر کرتے ہوئے گھبرانے لگے لیکن انہیں مجبوراً ان میں بیٹھنا پڑتا ہے۔وطن عزیز میںٹریفک حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی شرح خطرناک حد تک بڑھی ہوئی ہے،جس کے نتیجے میں روزانہ لاتعداد انسان زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں اور متعددعمر بھر کی معذوری اپنالیتے ہیں، بالخصوص جب سے مسافر گاڑیوں میں سی این جی گیس سلنڈر کا استعمال شروع ہوا ہے اس کے بعد سے روڈ حادثات کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہونے کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ گیس سلنڈر نصب ہونے کے باعث حادثے کے بعد گاڑی میں آگ بھڑک اٹھتی ہے جس سےاس میں سوار مسافروں کی زندگی بچنے کے امکانات کم سے کم ہوکر رہ جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کشمور میں بھی ایسا ہی المناک حادثہ رونما ہوا، جس میں 6افراد زندگی کی بازی ہارگئے۔ گزشتہ سال ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی اس نوع کے درجنوں واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں لاتعداد انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ گزشتہ سال ایک ہی ماہ میں کراچی کے مختلف علاقوں میں گاڑیوں میں گیس سیلنڈر پھٹنے اور آتش زدگی کے نصف درجن واقعات میں بچوں اوربڑں سمیت ایک درجن افراد ہلاک ہوئے تھے ۔کشمورمیں انڈس ہائی وے ٹول پلازہ کے قریب مسافروین میں گیس سلنڈر دھماکہ ہوا، جس کے بعد وین میں آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں 6افراد جھلس کرجاں بحق ہوگئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بسوں، ویگنوں، میں لگے ناقص سلنڈروں کے پھٹنے سے کسی بڑے حادثے کےرونما ہونے کے بعد حکومتی سطح پرگیس سلنڈر پر چلنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں مگر کچھ دنوں بعد معاملہ سرد خانے کی نذر ہونے کے بعد ان گاڑیوں کے خلاف کاروائیاں بھی روک دی جاتی ہیں۔ سی این جی سلنڈروں کے پھٹنے کی وجہ سے درجنوںافراد ناگہانی موت کا شکار ہوچکے ہیں۔سی این جی اور ایل پی جی گیس دنیا کےبیشتر ممالک میں استعمال کی جاتی ہے لیکن وہاں ہماری طرح لاپروائی نہیں برتی جاتی، حادثات سے بچنے کے لیے گاڑیوں میں نصب سلنڈروں کی ہر سال جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں گاڑیوں کے زیادہ تر مالکان سی این جی اور ایل پی جی سلنڈر تو لگوالیتے ہیں، لیکن ان کی باقاعدہ چیکنگ کروانا اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے۔ ہر سی این جی اسٹیشن پر متعلقہ اداروں کا نوٹس لگا ہوتا ہے کہ بغیر ٹیسٹ کیے سلنڈر میں سی این جی نہیں بھری جاسکتی، لیکن اس کے باوجود سی این جی ڈالی جاتی ہے۔ اب اگر حادثہ ہوتا ہے تو اس کا ذمے دار کون ہوا؟ ذرائع کے مطابق جتنے سلنڈر گاڑیوں میں نصب ہیں، ان میں آدھے بھی معیار پر پورے نہیں اترتے، تو سڑکوں پر چلنے والی ایسی لاکھوں گاڑیاں چلتے پھرتے بم نہیں تو اور کیا ہیں، جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتے ہیں۔منی بسوں، کوچز، میں اضافی سلنڈرز موجود ہوتے ہیں جنہیں گاڑیوں کی چھتوں پر رکھا جاتا ہےجب کہ چھتوں پر مسافر بھی بٹھائے جاتے ہیں ، وہاں سگریٹ نوشی بھی ہورہی ہوتی ہے، ایک چنگاری سے کتنا بڑا دھماکہ ہوسکتا ہے، بس کے ڈرائیور اور کلینروں کو اس کا احساس نہیں ہے۔ اسکولوں سےبچوں کو لانے اور لے جانے والی گاڑیوں میں بھی غیر معیاری سلنڈرز استعمال ہوتے ہیں اور جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو حکومت کی آنکھیں کچھ دیر کے لیے کھلتی ہیں اور پھر شور کم ہوتے ہی بند ہوجاتی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ارباب و اختیارات اس حساس نوعیت کے مسئلے سے چشم پوشی کیوں برت رہے ہیں۔
کشمور میں مسافر گاڑی میں گیس سلنڈر پھٹنے سے 6افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ڈاکٹر جمیل احمد کی جانب سے آٹھوں اضلاع کی پولیس کو سختی سے احکامات دیے گئے ہیں کہ وہ گیس سلنڈرز سے چلنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون کریں تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ ان احکامات کے بعد کشمور پولیس نے کریک ڈائون کرتے ہوئے 100سے زائد گاڑیوں کا چالان کیا۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی کشمور سید اسد رضا شاہ نے جنگ کو بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں کندھکوٹ سے کشمور آنیوالی مسافر وین میں انڈس ہائی وے ٹول پلازہ کے قریب گیس سلنڈر میں دھماکے اور آگ لگنے کے باعث 6افراد جاں بحق اور 5افراد زخمی ہوگئے تھے، جس کا مقدمہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں گاڑی کے ڈرائیور عابد سنجرانی، گاڑی کے مالک نیک محمد اور اشرف سنجرانی کیخلاف درج کیا گیا تھا، ڈکھن بنگلو کے مقام پر مسافر وین کے فرار ہونے والے وین ڈرائیور عابد علی کو گرفتار کرلیا تھا۔ دوسری جانب قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لئے پولیس مسافر گاڑیوں سے گیس سلنڈر اتار رہی ہے اور گیس سلنڈر سے چلنے والی گاڑیوں کےخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کیا جارہا ہے، 200سے زائد گاڑیوں کا چالان کرکے متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ 100گاڑیوں سے گیس سلنڈر اتار دیے گئے ہیںاور یہ سلسلہ جاری ہے۔ مسافر گاڑیوں کے ڈرائیور و مالکان کو سختی سے ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ گاڑیوں میں گیس سلنڈر کا استعمال کسی صورت نہ کریں۔ غیر معیاری گیس سلنڈرز کے ذریعے ایل پی جی گیس فروخت کرنے والی متعدد دکانیں بھی بند کرادی گئی ہیں اور تمام دکانداروں کو سختی سے ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ مسافر گاڑیوں میں لگے ہوئے گیس سلنڈرز کے معیار کو چیک کریں، اگر وہ معیار پر پورا اترتے ہیں تو انہیں گیس کی فراہمی کی جائے اور اگر وہ معیا رپر پورا نہیں اترتے تو پھر انہیں گیس فراہم نہ کی جائے۔
شہری و سماجی حلقوں نے پولیس کی کارروائیوں کو کو مثبت اقدام قرار دیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے طویل عرصے سے مسافر گاڑیوں میں گیس سلنڈر کا استعمال کیا جارہا ہے لیکن حکومت، ٹرانسپورٹ اتھارٹی سمیت دیگر متعلقہ محکموں کی جانب سے نہ تو گاڑیوں کی فٹنس چیک کی جاتی، اور نہ ہی گاڑیوں میں نصب گیس سلنڈز کا معیار پرکھا جاتا۔متعدد واقعات رونما ہونے کے باوجود حکومت و دیگر متعلقہ محکموں کی جانب سے ان حادثات کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے تاحال کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سی این جی اور ایل پی جی سلینڈرز کی چیکنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ لیبارٹریاں قائم کی جائیں ، جن میں سلینڈرز کی کوالٹی چیک کرنے کا انتظام ہو اور چیکنگ کے بعد باقاعدہ سرٹیفکٹ جاری کیے جائیں۔ ۔سی این جی مالکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سی این جی اسٹیشن پر تربیت یافتہ عملہ متعین کریں جو اس بات پر نظر رکھے کہ اگر کسی گاڑی میں ٹرانسپورٹ وہیکل اسٹینڈرڈ کے مطابق فٹنگ یا سلینڈر کٹ نہیں ہوتواس میں گیس نہیں بھری جائے، ان اقدامات سے گیس سلینڈر پھٹنے کے واقعات میں نمایاںکمی واقع ہوسکتی ہے۔