• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں بہت سی مشہور شخصیات نے متاثر کن تقاریر کی ہیں، جن کے الفاظ کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ انہوں نے بیسیوں سال پہلے جو الفاظ کہے تھے، وہ آج کے دور پر بھی صادق آتے ہیںاور کہیں نہ کہیں ہماری گفتگو میں ان کا ذکر آہی جاتاہے۔ ان مشہور تقاریرمیں سے ایک تقریر امریکی شہری حقوق کے فعالیت پسند رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی ’’ میرا ایک خواب ہے‘‘ (I Have a Dream)، عشروں سے لوگوں کے ذہنوں میں گونج رہی ہے۔ یہ تقریر انھوں نے 28اگست 1963ء کو ملازمتوں اور آزادی کیلئے واشنگٹن کی جانب کیے گئے عوامی مارچ کے دوران کی تھی، جس میں امریکا میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے ساتھ شہری اور اقتصادی حقوق کیلئے آواز بلند کی گئی تھی۔ تقریباً 55سال قبل مارٹن لوتھر کنگ نے یہ تقریر ڈھائی لاکھ حامیوں کے سامنے واشنگٹن ڈی سی میں لنکن میموریل کے زینے پر کھڑے ہو کر کی تھی۔ مارٹن لوتھر کنگ کا یہ تاریخی مارچ ’’واشنگٹن مارچ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ تقریر امریکا کی حالیہ تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس تقریر کے الفاظ کچھ یوںتھے، ’’میرا ایک خواب ہے کہ جارجیا کے سرخ پہاڑوں پر ایک دن سفید فام آقائوںاور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے گلے ملیں ، میرا ایک خواب ہے کہ میر ے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں ، میرا ایک خواب ہے کہ۔۔۔۔ ‘‘

امریکا میں اظہار رائے کی آزادی صدیوںسے ہے، اسی لیے مارٹن لوتھر کنگ نے نسلی مساوات کی جدوجہد میں اس آزادی کا استعمال کرتے ہوئے جلسے میں مطالبہ کیا کہ سرکاری اسکولوں اور ملازمتوں میں نسلی تعصب ختم کیا جائے اور کم سے کم اُجرت 2ڈالر مقرر کی جائے۔ واشنگٹن ڈی سی کا یہ جلسہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی شہرہ آفاق تقریر ’’میرا ایک خواب ہے ‘‘ کی وجہ سے تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا۔

15جنوری کو مارٹن لوتھر کنگ کی سالگرہ منائی جاتی ہے ، ہر سال انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی سالگرہ والے دن واشنگٹن میں قائم ویٹیکنزپرائمری اسکول کی پانچویں جماعت کے بچے لنکن میموریل میں جمع ہوتے ہیں اورشہری حقوق کے حوالے سےاہم سنگ میل قرار دی جانے والی مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر ’’میر ایک خواب ہے ‘‘ دہراتے ہیں۔ یہ تقریر کوئی ایک بچہ نہیں بلکہ بہت سارے بچے مل کر کرتے ہیں۔ ہر بچہ ایک بڑے مجمعے کے سامنے مائیکروفون پر آکر 1963ء کی تقریر کی ایک ایک لائن پڑھتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے ہر بچہ اپنے اندر وہی جوش و ولولہ اور طاقت محسوس کرتاہے، جو مارٹن لوتھر کنگ کے اند ر تھی۔

مختصر زندگی نامہ

مارٹن لوتھر کنگ جونیئرنے 15جنوری 1929ء کو اٹلانٹا میں ایک پادری گھرانے میں آنکھ کھولی۔عمرانیات (Sociology)میں گریجویشن کرنے کے بعد وہ پنسلوانیا کے ایک برٹش چرچ میں اپنے والد کے ساتھ تعلیمات پھیلانے میں مصروف ہوگئے۔ 1953ء میں کوڑیتا اسکاٹ نامی خاتون سے شادی کے بعد انھیں اس چرچ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ چرچ کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انہوںنے علم کے حصول کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔1955ء میں مارٹن نے بوسٹن یونیورسٹی سے Systematic Theology میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔

مارٹن لوتھر کنگ انسانی حقوق کے علمبردار اور افریقی -امریکی شہری حقوق کی مہم کے اہم رہنما کے طورپر تاریخ میں مشہور ہوئے۔ مارٹن نے امریکا میں مساوی شہری حقوق کیلئے زبردست مہم چلائی۔ ان کو چند ایک مسیحی چرچ نے شہید کا درجہ دیا۔ انھوں نے 1955ءکے منٹگمری بس مقاطعہ کی قیادت کی اور 1957ءمیں جنوبی مسیحی قیادت اجلاس کے قیام میں مدد کی، انھوںنے اس کے صدر کا منصب بھی سنبھالا۔ انھوں نے مساوی حقوق کے حوالے سے عوام میں شعور اُجاگر کیا اور امریکی تاریخ کے عظیم ترین مقرروں میں اپنا نام لکھوایا۔

1964ء میں نسلی تعصب اور امتیاز کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے اور دیگر پر امن اندازِ احتجاج اپنانے پر مارٹن لوتھر کنگ کوامن کا نوبل پرائز دیا گیا۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ کم عمر ترین شخص تھے۔ 1968ء میں انہوںنے غربت کے خاتمے اور ویتنام کی جنگ کی مخالفت میں جدوجہد کی اور دونوں کے حوالے سے دنیا کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھا۔ 4اپریل 1968ء کو میمفس، ٹینیسی میں انہیں قتل کردیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد 1977ء میں انھیں صدارتی تمغۂ آزادی سے نوازا گیا۔ 1986ء سے ہر سال جنوری کے تیسرے پیر کو مارٹن لوتھر کنگ سے منسوب کرکے امریکا میں قومی تعطیل کی حیثیت دی گئی۔ 2004ء میں انہیں کانگریس گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔

تازہ ترین