• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے سرکاری ٹی وی کے عید شو کی ریکارڈنگ کے لئے لاہور پہنچنا تھا، کومل سلیم نے یہ پروگرام بڑی محبت سے ترتیب دیا تھا، اس پروگرام میں سیاستدانوں، فنکاروں اور دوسرے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔ میں یہاں تاخیر سے پہنچا، یہ تاخیر بھی نہ ہوتی مگر اسلام آباد سے جہاز بہت لیٹ اڑا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا

اسی دن اسلام آباد میں مجلس وحدتِ مسلمین نے یوم القدس کے حوالے سے تقریب منعقد کر رکھی تھی، ایم ڈبلیو ایم کے دو اراکین سید اسد عباس اور محسن شہریار نے مجھے کھسکنے کا موقع نہ دیا۔ اس تقریب سے ڈاکٹر شیریں مزاری، پیر صابر شاہ، سینیٹر منظور کاکڑ، میاں اسلم، فرحت اللہ بابر، راجہ ناصر عباس اور دیگر نے خطاب کیا۔

مجھ عاصی و خاطی کا دل تو ویسے بھی مسلمانوں کی حالت زار پر خون کے آنسو روتا ہے مگر مجھے حیرت ہے مسلمان حکمرانوں پر کہ انہیں نیند کیسے آجاتی ہے؟ جب برما، کشمیر، فلسطین، شام، یمن اور افغانستان سمیت دیگر ملکوں میں مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے، ہماری بہنوں کی عزت کا خیال نہیں کیا جاتا، ہمارے بھائیوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں تو ایسے میں مسلمان حکمران کیسے آرام سے سو لیتے ہیں، کیا ان حکمرانوں نے روزِ قیامت اپنا ’’چہرہ‘‘ خدا اور رسولؐ کے سامنے لے کر نہیں جانا؟ کیا انہیں نبی پاک حضرت محمد ﷺ کا یہ فرمان یاد نہیں کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جب جسم کے کسی حصے کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ پتہ نہیں جب شام، یمن اور فلسطین میں ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو ہم مسلم ملکوں کے حکمران کیسے گہری نیند سو لیتے ہیں، مجھے خاص طور پر نہتے فلسطینیوں کا خیال رہ رہ کر آتا ہے کہ ان پر بارود بھی برستا ہے، انہیں بے گھر بھی کیا جاتا ہے، دھکے بھی دیئے جاتے ہیں، ان کی تذلیل بھی کی جاتی ہے۔ میں ایک پاکستانی کے طور پر سچے عاشق رسولؐ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے خیالات کو بھی پیش نظر رکھتا ہوں، کون نہیں جانتا کہ قائداعظمؒ نے اسرائیل کے بارے میں کہا تھا کہ ’’یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ قائداعظمؒ آزاد اور خودمختار فلسطین کے حامی تھے۔ آج آپ اگر اسرائیل کے نقشے کو دیکھیں تو یہ خنجر سے مشابہ نظر آئے گا۔ قائداعظمؒ نے اس خنجر کو کتنے عشرے قبل دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے 1937ہی میں فلسطین کو درپیش خطرات محسوس کر لئے تھے اور ممکنہ یہودی ریاست کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی تھی۔ جب دوسری جنگ عظیم میں امریکیوں نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کی کوششیں شروع کیں تو اس مرحلے پر قائداعظمؒ نے کڑی نکتہ چینی کی تھی اور واضح طور پر کہا تھا کہ ’’یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے‘‘۔قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ کے تقسیم فلسطین کے فیصلے پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ’’برصغیر کے مسلمان تقسیم فلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ناجائز اور غیرمنصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین احتجاج کرتے ہیں، انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہرممکن طریقے سے مدد کریں‘‘۔ آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے ڈھائی لاکھ رائفلیں چیکوسلواکیہ سے خرید کر عربوں کو دی تھیں، اٹلی سے تین جنگی جہاز خرید کر مصر کے حوالے کئے تھے۔ بھٹو صاحب نے بھی فلسطینیوں اور کشمیریوں کا مقدمہ خوب لڑا۔ پھر جب ضیاءالحق اور اس کی روحانی اولاد اقتدار میں آ گئی تو ہمارا فلسطینیوں کا ساتھ دینا کمزور ہو گیا۔

خواتین و حضرات! تاریخ کے یہ اوراق مجھے اس لئے الٹنا پڑے کہ ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے حالیہ او آئی سی کانفرنس میں وہی کیا جو پاکستانیوں کے دل کی خواہش تھی، جو قائداعظمؒ کے فرمودات کے عین مطابق تھا، ہمارے وزیراعظم کی تقریر نے گریٹر اسرائیل کے پورے منصوبے پر پانی پھیر دیا، انہوں نے ایک ماہ بعد ہونے والی ’’ڈیل آف سینچری‘‘ کانفرنس کا بھی ستیاناس کر دیا، اب پتہ نہیں بحرین میں کیا ہوتا ہے۔ او آئی سی کی حالیہ کانفرنس میں پانچ اہم ملکوں کے سربراہ تو شریک ہی نہ ہو سکے اگرچہ ان میں سے کچھ امریکی حامی بھی تھے، کچھ وہ بھی تھے جن کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں، اس کانفرنس پر بڑا سرمایہ خرچ کیا گیا تھا، اس کی کامیابی کی محبت میں دو کانفرنسیں بھی رکھی گئی تھیں مگر عمران خان امریکیوں اور اسرائیلیوں کے سارے منصوبے خاک میں ملا کر آ گئے ہیں۔ پوری مسلمان دنیا اس عاشق رسولؐ کو داد دے رہی ہے۔ عمران خان نے کمال مہارت سے جہاں مسلمانوں کو ایک ہونے کا درس دیا، وہیں آپس میں نہ لڑنے کی بات کر ڈالی۔ عمران خان خطہ عرب پر منڈلانے والے جنگی بادلوں کو بھی کم کر آئے ہیں۔ اس عمل سے مشرق وسطیٰ میں سارے امریکی ایجنٹس پریشان ہو گئے ہیں کیونکہ عمران خان نے گولان کی پہاڑیوں کا ذکر بھی کر دیا ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب سے او آئی سی کا فورم بنا ہے، یہ کسی بھی مسلمان رہنما کی سب سے شاندار تقریر ہے۔ اس کانفرنس میں عمران خان نے ایک سچے اور پکے عاشق رسولؐ ہونے کا حق ادا کیا، او آئی سی کی اس حوالے سے ناکامیاں بھی گنوا ڈالیں، دنیا کو بتا دیا کہ محمد ﷺ ہمارے دلوں میں بستے ہیں، صاف کہا کہ ’’ہم یورپی یونین اور اقوام متحدہ کو یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ آزادیٔ اظہار رائے کی چھتری تلے ایک ارب تیس کروڑ لوگوں کے جذبات مجروح نہیں کر سکتے‘‘۔ عمران خان نے ہولو کاسٹ کی بات بھی کی، یہودیوں کی چالاکی بھی بیان کی، عمران خان نے دہشت گردی کی وضاحت بھی کر ڈالی اور کہا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ عمران خان نے مغرب کو لاحق اسلاموفوبیا پر بھی بات کی، ہندوئوں کے دھماکوں کی بات بھی کی، امریکیوں کو پرانی تاریخ بھی یاد کروا ڈالی۔ وزیراعظم پاکستان نے کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا نہ صرف تذکرہ کیا بلکہ یہ کہا کہ ایسا او آئی سی کی کمزوریوں کے باعث ہو رہا ہے۔

او آئی سی کے حالیہ اجلاس سے امریکی حواری جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ حاصل نہیں ہو سکے حالانکہ اس سے پہلے امریکیوں نے اسرائیل کی محبت میں کئی مسلمان ملکوں کی فوجوں کو ختم کیا مگر حال ہی میں اسے کئی جگہوں پر پسپائی اختیار کرنا پڑی، وہ شام کی فوج کا خاتمہ چاہتا تھا مگر اب وہاں فوج کی تین کے بجائے پانچ کوریں بن گئی ہیں۔ عراق میں فوج پھر سے مضبوط ہو چکی ہے، حماس کی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، اسرائیل کے اردگرد مسلمان طاقتور ہو چکے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر ایران کی جنگی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، پاکستانی فوج دنیا کی پانچ ایجنسیوں سے لڑ کر بھی قائم و دائم ہے، امریکیوں کا ہر حربہ پسپا ہو رہا ہے، گریٹر اسرائیل کا خواب بکھرتا جا رہا ہے، منظر تبدیل ہو رہا ہے، آنے والے دنوں میں تبدیلیاں عملی طور پر نظر آئیں گی۔ بس آج اقبالؒ کا شعر یاد آ رہا ہے کہ ؎

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے

تازہ ترین