• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

19مئی بروز اتوار روزنامہ جنگ میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے دو اکابر بیرسٹر اعتزاز احسن اور مفتی سید عدنان کاکا خیل کے کالم مطالعے سے گزرے۔ پڑھ کر مجھے دائیں بازو اور بائیں بازو کی وہی پرانی بحث و تکرار کے سوا کچھ سجھائی نہ دیا جبکہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں انتہاؤں سے نیچے اتر کر کوئی درمیانی راہ اختیار کی جائے تاکہ حل کی جانب آگے بڑھا جا سکے۔ اعتزاز احسن صاحب کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کو مفتی صاحب نے یکسر رد کردیا ہے۔ لیکن دوسری جانب بھی انہیں اپنی وضاحت کا جائزہ لینا چاہئے۔ لکھتے ہیں ’’لڑکی کے پاس شادی کے لئے اقرار یا انکار کا حق ہے۔ اگر ولی اس کے والد کے علاوہ کوئی اور شخص ہے۔ والد بھی اس صورت میں جب وہ صاحبِ کردار ہو اور یقین ہو کہ وہ اپنی بیٹی کے مفادات کا تحفظ کرے گا، اگر وہ کوئی مفاد پرست شخص ہے اور اس نے کسی دنیاوی لالچ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں دے دیا ہے تو لڑکی کے پاس شادی سے انکار کا سیفٹی والو موجود ہے۔‘‘۔

مفتی صاحب کی پیش کردہ وضاحت یقیناً قرآن و سنت کی روشنی میں درست اور صائب ہوگی لیکن یہاں مفتی صاحب سے میرا سوال یہ ہے کہ جیسا آپ نے فرمایا ہے کہ یہ سیفٹی والو اخلاقی طور پر صحت مند معاشرے کے لئے کافی ہیں تو کیا آپ موجودہ معاشرے کو اخلاقی طور پر ایک صحت مند معاشرہ قرار دیتے ہیں؟ اگر تو یہاں قصور کی معصوم زینب جیسے واقعات رونما نہیں ہوتے تو درست ہے، اگر یہاں فرشتہ کے ساتھ زیادتی اور بہیمانہ قتل جیسے ان گنت شرمناک حادثات وقوع پذیر نہیں ہوتے تو ٹھیک ہے، ہم اِسے ایک صحت مند معاشرہ مان لیتے ہیں۔ اور کیا یہاں والد یعنی ولی لالچی نہیں ہیں؟ کیا 22کروڑ کی آبادی والے ملک میں تمام والد یعنی ولی صاحب کردار ہیں؟ کیا اپنی کم عمر بیٹیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دیہی پنجاب، اندرون سندھ، بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں ایسی ہزاروں مثالیں ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہیں؟

اور مفتی صاحب کیا ایک نابالغ بچی اپنے والد کی مرضی سے تصادم کر سکتی ہے؟ کیا ایک کم عمر بچی اپنے ولی کی مرضی کے خلاف کسی مسلمان جج کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں ایک کمسن بچی نکاح، طلاق اور خلع کے مسائل سے آگاہ ہے؟ جب کم عمر بچی کی شادی کا فیصلہ ولی کی مرضی کے تابع ہے تو طلاق اور خلع جیسے فیصلے کا حق وہ بیچاری کیا کرے گی؟

یہ سیفٹی والو اخلاقی طور پر ایک صحت مند معاشرے میں میسر ہوتے ہیں تو چونکہ کوئی ذی شعور ہمارے موجودہ معاشرے کو نہ تو اخلاقی طور پر صحت مند معاشرہ قرار دے سکتا ہے اور نہ اسلامی لہٰذا ان سیفٹی والو کی قدروقیمت صفر ہوجاتی ہے۔ جس دور کی مثالیں دی جاتی ہیں تو جان لینا چاہئے کہ نبی اکرمﷺ کے دور میں اور کچھ عرصہ بعد تک بھی جب تک اخلاقی طور پر ایک صحت مند معاشرہ قیام پذیر رہا اس شرعی حکم پر بطریق احسن عملدرآمد ہوتا رہا مگر جیسے جیسے اسلامی معاشرے میں طاغوتی طاقتوں کی آمیزش بڑھتی گئی، معاشرہ اخلاقی انحطاط پذیری کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اور آج اکیسویں صدی کے ان مہ و سال میں میں طاغوتی طاقتوں کی آمیزش اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے لہٰذا آج مقدس احکامات کا من و عن اطلاق ایک منطقی مغالطہ ہے، اس کا تدارک دائیں اور بائیں بازو کے علمبرداروں کو باہم مل کر کرنا چاہئے۔

یہاں پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کا عملی اطلاق آج کے دور میں ممکن نہیں۔ آنے والے وقت کی تبدیلیوں اور پیچیدگیوں کے پیش نظر ہی اللہ کے رسولؐ نے قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے’’اجتہاد‘‘ کا حکم صادر فرمایا ہے۔ اجتہاد کیا ہے؟ سب اہل دانش اس سے آگاہ ہیں۔ تفصیل میں جائے بغیر گزارش یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس زریں اصول سے استفادہ نہیں کیا جاتا بلکہ ہم اپنے اپنے نقطۂ نظر کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے پر پتھر برساتے رہتے ہیں۔ حل نہیں سوچتے۔ آئیے اب جانتے ہیں کہ بحث و تکرار سے حل کی جانب کیسے بڑھنا ہے۔ اجتہاد کی جملہ ضروریات پورا کرنے کے لئے ہمارے ملک میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے۔ زیر بحث معاملہ بھی اس ادارے کے سپرد کردیا جائے جہاں ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء و اکابرین موجود ہیں۔ محدود وقت میں سیر حاصل بحث کے بعد یہ ادارہ جو فیصلہ یا فتویٰ جاری کرے پارلیمنٹ اس کی توثیق کر دے اور پھر ریاست میں موجود ہر شہری پر اس کا اطلاق دیگر قوانین کی طرح ہو۔

موجودہ معاشرے کی اخلاقی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مسئلے کا ایک حل یہ بھی ممکن ہے کہ ایک طرف تو کم عمری کی شادی پر ریاستی قوانین کے تحت مکمل پابندی عائد کر دی جائے یعنی اس پر قانون سازی کر دی جائے تو دوسری طرف ایسے انفرادی کیسز میں جہاں ایک ولی کو کسی مجبوری کے تحت یا باہمی رضامندی کے تحت ایک نابالغ بچی کی شادی کرنا درکار ہوتو فیملی کورٹ سے باقاعدہ این او سی حاصل کرے یا کوئی بھی دوسرا ممکن طریقہ کار وضع کردیا جائے جس سے کم عمری کی شادی ایک سسٹم سے منسلک ہو جائے۔ اس طرح نہ تو کسی معصوم کی حق تلفی ہوگی، نہ انسانی حقوق کا مسئلہ جنم لے گا اور نہ ہی شرعی احکامات کی مخالفت ہو گی!

تازہ ترین