عید کے پرمسرت لمحات ہمارے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔کہیں چوڑیوں کی کھنک سنائی دے رہی ہے تو کہیں مہندی کی مہک سےآنگن معطر ہے۔غرض یہ لمحات ہماری عبادتوں کا وہ ثمر ہیں جن کی بدولت نہ صرف خوشیاں دوبالا ہوتی ہیں بلکہ انہیں بانٹنے کا بھی سامان ہوتا ہے۔معاشرے کا ہر طبقہ ہی اس خوشیوں بھرے تہوار کو منانے کے لیے پرجوش دکھائی دیتا ہے،لیکن قارئین کو اس بات سے زیادہ دل چسپی ہوتی ہے کہ ان کے پسندیدہ ’ستارے‘ کس انداز سے عید مناتے ہیں۔چناچہ ہم نے عید کی تیاریوں پر مہنگائی سے پڑنے والے اثرات اور عید ڈراموں کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔امید ہےشو بزکی ان شخصیات کے دل چسپ جوابات سے قارئین لطف اندوز ہوں گے،ملاحظہ کیجیے۔
جاوید شیخ:۔عید ایسا خوشیوں بھرا تہوار ہے، جس میں اہل خانہ اور عزیز و اقارب کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔
لہٰذا اس کی تیاری بھی اسپیشل ہوتی ہے لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی میری وہ ہی معمول کی تیاری ہے۔ شلوار قمیص عید کی نمازکےلئے خرید لیا ہے۔البتہ عیدی دینے کی مکمل تیاری ہے۔خاندان بھر کے بچوں کو ضرور عیدی تقسیم کرتا ہوں ۔ مہنگائی ہر دور میں رہی ہے۔ اس مرتبہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں،لہٰذا لوگوں کی خریداری پر بھی فرق پڑتا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ عید کی خوشیوں میں سب کو شریک کروں ،اس لئے جس قدر ممکن ہوتا ہے میں ضرورت مندوں کی مدد ضرور کرتا ہوں۔ مہمانوں کے لیے عید کے پکوان کا مینو ضرور بناتا ہوں ۔عید کے دن ٹی وی بھی دیکھتا ہوں بہت معیاری کام ہو رہا ہے۔ عید کے حوالے سے بھی بہت اچھے پروگرام بنائے جا رہے ہیں۔
سنگیتا:۔اب چونکہ فلمی مصروفیات کم ہو گئی ہیں لہٰذا خوشیوں بھرے لمحات کو بہت انجوائے کرتی ہوں۔ عید روحانی تہوار ہے اور روزوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں انعام کے طور پر عطا کی ہے۔جہاں تک عید کی تیاریوں کا تعلق ہے تو اب بچیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ میں گھر پر ہوتی ہوں اور سارے کام خود کرتی ہوں۔
ایک بیٹی کراچی میں ہے اس سے ملنا جلنا رہتا ہے،باقی دو بیٹیاں ملک سے باہر ہیں۔عید کی بہت خاص تیاری نہیں کرتی ۔بس اتنا ہے کہ چاند رات کو ہی کچھ خاص اہتمام کرلیتی ہوں کہ عید کے موقعےپر مہمانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ چاند رات کوہی سویاں بنانے کے لیے پستے،بادام کاٹ کر رکھ لیتی ہوں ۔مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے، سمجھ نہیں آتا ،کیا خوشیاں منانے کا حق غریب کا نہیں ہے۔ میں بچوں میں ضرور عیدی تقسیم کرتی ہوں۔بچپن میں ہمیں بھی عیدی ملتی تھی ۔لیکن شادی کے بعد سسرال سے کبھی عیدی نہیں ملی،ہاں کبھی کبھار جوڑا مل جاتا تھا۔میرے دل سے بس یہی دعا نکلتی ہے’’چمکتا رہے آنگن عید کے دن‘‘۔ عید کے پروگرام بہت شوق سے دیکھتی ہوں، ماضی میں بھی یہ ڈرامے لاجواب ہوتےتھے اور آج بھی بہت معیاری اور دلچسپ ہیں۔
مصطفیٰ قریشی :۔ ہم تو اپنے بچوں کے چہروں پر خوشی دیکھ کر ہی عید کا مزا لیتے ہیں۔
تاہم آج کل عید بہت مہنگی ہو گئ ہے۔ ظاہر ہے ہر طبقہ ہی اپنی استطاعت کے لحاظ سے عید مناتا ہے اور ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو اچھی سے اچھی چیز خرید کر دے، لیکن موجودہ حالات اور خصوصاً ملک کی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مہنگائی نے غریب کیا متوسط طبقے کی بھی کمر توڑ دی ہے۔ بہرحال یہ ہمارا تہوار ہے اور اسے اس کی اصل روح کی طرح مناتے ہیں۔ ذاتی طور پر تو میں بہت زیادہ شاپنگ کا قائل نہیں ہوں کہ باقاعدہ بجٹ بنائوں نہ ہی خود خریداری کے لئے گھر سے باہر نکلتا ہوں ۔شادی کے بعد جب ہماری پہلی عید ہوئی تو ہمیں اچھی خاصی رقم عیدی میں ملی تھی اور ساتھ ہی جوڑا بھی ملا تھا۔ اب ہم صرف عیدی دیتے ہیں۔چاند رات کا تصور یقیناً بہت پرسکون اور رومانوی ہوتا ہے، لیکن اب ہمیں تو بس اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ بچوں کی شاپنگ مکمل ہو جائے۔ ماضی میں عید کے حوالے سے بننے والے ڈرامے شاہکار ہوتے تھے تاہم آج بھی معیاری کام ہو رہا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اب بہتات زیادہ ہے۔
عابد علی :۔درحقیقت روزے رکھنا ہی عیدکی تیاری ہے، اس سے بڑھ کراور کیا تیاری ہوگی، ظاہر ہے عید کے لیے نیا جوڑا بھی خریدنا ہو تاہے لیکن یہ ہم سب کا فرض ہے کہ پہلے مستحقین کا تن ڈھانپیں۔
عید کا دن رسمی ہی ہوتا ہے۔زیاہ تر ملنے ملانے کا سلسلہ رہتا ہے۔ بچوں میںعیدی ضرور تقسیم کرتا ہوں ،ہمیں بھی بچپن میں ہی عیدی ملتی تھی ،اب کوئی نہیں دیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ رجحانات تبدیل ہوئے ہیں،پہلے بہت زور و شور سے شاپنگ ہوتی تھی اب وہ بات نہیں ہے۔ مہنگائی کا طوفان آ گیا ہےماضی میں عید کے موضوع پر بہت اچھے ڈرامے بنتے تھے۔اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا تھا۔ اب گلیمر زیادہ ہے مقصد کچھ نہیں ہے ۔
رابی پیرزادہ :۔ اس پرمسرت موقعے پر دیگر مسلمانوں کی طرح میں بھی خاص اہتمام کرتی ہوں، اپنی اور اہل خانہ کے لیے خریداری سے پہلے ہی دو ضرورت مند خاندانوں کی عید کی ضروریات پوری کرتی ہوں۔ ان کے کپڑوں،جوتوں اور دیگر ضروری اشیا کے لئے خریداری کرتی ہوں۔
فی زمانہ مہنگائی سے ہر شخص ہی متاثر ہے۔ حالات اس قدر بگڑے ہیں کہ نہ مرسکتے ہیں اور نہ ہی کھل کر جی سکتے ہیں، پھر بھی اپنی استطاعت کے مطابق ہر تہوار منانے کی کوشش کرتے ہیں۔چاند رات کا زیادہ تر وقت میرا اپنے سیلون میں گزرتا ہے۔ محض چاند رات ہی نہیں عید سے کئی روز پہلے سے ہی باقاعدہ سیلون جاتی ہوں، وہاں میں نے ورکرز لڑکیاں ملازمت پر رکھی ہیں۔ یہ غریب گھرانے کی لڑکیاں ہیں جنہیں میں بیوٹیشن کے کورس کی تربیت بلامعاوضہ دیتی ہوں اور بعد میں انہیں اپنے ہی سیلون میں روزگار بھی دیتی ہوں۔ لہٰذا چاند رات تک ان ہی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہوں اور ان کی عید کی تیاریوں کے حوالے سے بات چیت کرتی ہوں۔ اپنی عید کی شاپنگ میں رمضان سے قبل ہی کر لیتی ہوں،عید کے روز والدین سے عیدی وصول کرنا بہت پسند ہے۔بچپن سے اب تک پانچ ہزار روپے عیدی ملتی ہے۔ اس مرتبہ میں سوچ رہی ہوں والدین سے کہوں کہ کچھ پیسے بڑھائیں،مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ تاہم سسرا ل سے کبھی عیدی نہیں ملی۔آج کل عید کے موضوع پر ڈرامے بہت اچھے بن رہے ہیں میں نے بھی کئی عید ڈراموں میں کام کیا اور گایا ہے۔ تاہم ماضی کے ڈرامے کلاسک ہیں اور روایتی بھی ہوتے تھے۔
ایوب کھوسو :۔اس مرتبہ عید پر وہ رونق نہیں رہے گی کیوں کہ حال ہی میں میرے جواں سال بھائی کا انتقال ہوا ہے، لیکن بہرحال یہ دینی فریضہ ہے اس کے لیے اپنے اطراف کے لوگوں اور ضرورت مندوں کا ہمیشہ خیال رکھتا ہوں۔
خاص کر میرے گائوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو مہنگائی سے شدید متاثر ہیں لہٰذا یہ میرا فرض ہے کہ میں اپنے اخراجات میں کمی کر کے دوسروں کو خوشیاں بانٹوں کیونکہ عید کی خوشی وہ خوشی ہوتی ہے جس پر سب کا حق ہوتا ہے۔اس مرتبہ مہنگائی نے لوگوں کی قوت خرید کو بہت متاثر کیا ہے اور بازاروں میں رش کم دکھائی دے رہا ہے۔عید کے دن ٹی وی ضرور دیکھتا ہوں لیکن ڈرامے زیادہ نہیں دیکھتا۔ یقیناً ماضی کے ڈرامے معیاری اور حقیقت سے قریب تر تھے۔
انعم تنویر:۔میں عیدکی بھرپور تیاری کرتی ہوں۔زیادہ تر روایتی ملبوسات خریدتی ہوں،لیکن اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ لباس بہت قیمتی ہو۔
یہ پسند پر منحصر ہے ،کم پیسوں میں بھی کپڑے خرید لیتی ہوں،لہذاعید کی خریداری کے لیے کوئی مخصوص بجٹ نہیں بن پاتا،مستحقین میں ضرور عید کی تیاری کے لیے تحائف تقسیم کرتی ہوں۔مجھے عیدی لینا اور دینا بہت پسند ہے۔عید کے دن ڈیڈی کبھی چار اور کبھی پانچ ہزار روپے عیدی دیتے ہیں،عید کے جوڑے کے لیے بھی ڈیڈی پیسے دیتے ہیں۔وہ مجھے جتنے بھی پیسے دیں میں بخوشی لے لیتی ہوں۔چاند رات کو شاپنگ پہ نہیں جاتی،عید پر زیادہ تر ٹی وی دیکھتی ہوں۔مجھے عید کے رنگا رنگ پروگرامز بہت پسند ہیں۔
یاسر حسین :۔عید کی شاپنگ نہیں کرتا ،شو بز میں ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ ڈیزائنر کپڑے بھجوا دیتے ہیں تو خریدنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
عید کی نماز کے لیے تحفے میں وصول کیا ہوا شلوار قمیص پہن لیتا ہوں۔ عید کی دیگر تیاریاں گھر والے بہت جو ش و خروش سے کرتے ہیں ،انہیں مشورے دینے میں سب سے آگے ہوتا ہوں۔اس حوالے سے بجٹ بھی بناتا ہوں کہ ان تیاریوں میں کتنا پیسہ لگے گا۔ مہنگائی نے معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔لہٰذا اپنے بجٹ میں ضرورت مندوں کا خیال بھی رکھنا ہوتاہے۔ میرے خیال میں ہم سب کو چاہئے کہ غریب اور ضرورت مندوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے عید سادگی سے منائیں۔ ظاہر ہے ہمارا ملک معاشی اعتبار سے بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے اس لئے اصراف کی گنجائش ہی نہیں ہونی چاہئے۔ میں اپنے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ بھی اس مرتبہ عید پر نیا جوڑا نہ خریدیں۔ ہم سب مل کر ہی ملک کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ عید کے ڈراموں اور ٹیلی فلموں میںبہت شوق سے کام کرتا ہوں،ایک مرتبہ میری بڑی بہن نے کہا کہ تم عید کے ڈراموں میں کام کیا کرو کیوں کہ عید کے ڈرامے لوگ بہت شوق سے دیکھتے ہیں،میں نے عید کے ڈراموں میں کام کیا تو واقعی لوگوں نے بہت پسند کیا۔
جنید خان:۔میرا تعلق چونکہ لاہور سے ہے،کراچی میں ڈراموں کی شوٹنگ کے سلسلے میں قیام رہتا ہے۔ عید جب قریب ہوتی ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد کام ختم کر کے اہل خانہ کے درمیان لاہور پہنچ جائوں۔
عید کی شاپنگ میری بیگم ہی کرتی ہیں، دراصل وہ بہت کفایت شعار خاتون ہیں تو وہ پیسہ بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرتی ہیں۔ مہنگائی سے بہت فرق پڑا ہے۔ ملبوسات و دیگر اشیاء مہنگی ہو گئی ہیں اور لوگوں کی قوت خرید بھی متاثر ہوئی ہے۔ میرا تعلق چونکہ شو بز سے ہے تو ہمیں ڈیزائنر اپنے ملبوسات تحفتاً دے دیتے ہیں۔ اس لیے مجھے زیادہ شاپنگ نہیں کرنی پڑتی ہے اورنہ ہی میں کبھی چاند رات کو شاپنگ پر جاتا ہوں۔عید کے دن چھوٹوں، بڑوں سب کو عیدی دیتا ہوں،لیکن مجھے کوئی عیدی نہیں دیتا۔عید کے ڈرامے ماضی میں بھی دلچسپ ہوتےتھے اور آج بھی اچھے بنتے ہیں۔ فرق یہ آیا ہے کہ ماضی میں صرف ایک چینل تھا جسے پوری فیملی دیکھتی تھی ور اب متعدد چینل ہیں،ناظرین کو چوائس مل گئی ہے۔