• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1983ء میں بابائے تھری ڈی(3D)پرنٹنگ چَک ہال (Chuck Hall)نے ایک ایسی چیز ایجاد کی، جو سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ انقلابی بھی تھی۔ چک ہال نے ایک تھری ڈی پرنٹر مینوفیکچر کیا اور اس سے دنیا کی پہلی تھری ڈی پرنٹڈ شے تیار کی، جو کہ ایک کپ تھا!

وہ کالے رنگ کا ایک چھوٹا ساکپ تھا، جو دِکھنے میں بالکل سادہ سا تھا لیکن اس نے انقلاب کے لیے راہ ہموار کی، جو آج ہیلتھ کیئر (صحت کی دیکھ بھال) اور میڈیسن (طب) کی دنیا کو ڈرامائی انداز میں بدل رہی ہے۔

دنیا بھر میں صحت پر اُٹھنے والے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں، ایسے میں غالباً تھری ڈی ٹیکنالوجی ہی ایک ایسی چیز نظر آتی ہے، جو لوگوں کو کچھ ریلیف فراہم کرسکتی ہے۔

تھری ڈی پرنٹنگ اور ہیلتھ کیئر

ایک اندازہ ہے کہ 2025ء تک ہیلتھ کیئرکے شعبہ میں تھری ڈی پرنٹنگ کی مالیت 17.7فی صد سالانہ شرحِ اضافے سے 3.5ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ طب کے شعبے میں تھری ڈی پرنٹنگ کے بنیادی طور پر چار کام ہیں، جو حالیہ عرصے میں اختراع (Innovation)کے ذریعے سامنے آئے ہیں

1- ریشوں اور عضو کی تیاری (Creating tissues & organoids)

2- آلاتِ جراحی (Surgical Tools)

3- مخصوص بیماری میں مبتلا مریضوں کے لیے مخصوص جراحی ماڈلز (Patient-specific surgical models)

4- مصنوعی انسانی اعضاء کی تیاری (Custom-made prosthetics)

اس ٹیکنالوجی کے تحت اکثر میڈیکل اِمیجنگ تکنیکس جیسے ایکسرے، کمپیوٹڈ ٹوموگرافی (سی ٹی) اسکین، میگنیٹک ریزونانس اِمیجنگ (ایم آر آئی) اسکین اور الٹراساؤنڈ کے ذریعے کسی بھی عضو کا ڈیجیٹل ماڈل تیار کیا جاتا ہے، جسے پھر تھری ڈی پرنٹر میں Feedکیا جاتا ہے۔

عضوئی ریشوں کی بائیو پرنٹنگ

میڈیکل ڈیوائس کے شعبہ میں تھری ڈی پرنٹنگ کا ایک استعمال بائیو پرنٹنگ ہے۔ بائیو پرنٹنگ کے لیے پلاسٹک یا دھات کو استعمال کرنے کے بجائے، کمپیوٹر کی نگرانی میں ایک نالچے (Computer-guided pipette)کو استعمال کیا جاتا ہے، جو زندہ خلیوں کو تہہ کی صورت میں ایک دوسرے پر رکھتا ہے اور اس طرح لیبارٹری میں مصنوعی زندہ خلیے بنائے جاتے ہیں، جو مخصوص انسانی اعضاء کے کام انجام دینے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان مصنوعی زندہ خلیوں یا اسٹیم سیل (Stem cells)کی مدد سے چھوٹے حجم کے انسانی عضو (Miniature Organoids) بنائے جارہے ہیں۔ ان Organoidsمیں انسانی جسم کے اندر بڑا ہونے کی صلاحیت ہوگی اور جب کسی شخص کا کوئی عضو جیسے گردہ یا جگر ناکارہ ہوجائے گا تو یہ Organoidاس کی جگہ لے لے گا۔

میڈیکل جرنل آف آسٹریلیا کے مطابق، مستقبل میں انسانی اعضاء کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

آلات جراحی کی 3D پرنٹنگ

جراثیم سے پاک آلاتِ جراحی جیسے چمٹی (Forceps)، نشتر یا چھری کا ہینڈل (Scalpel Handles) اور کلیمپ وغیرہ کو تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے پرنٹ یعنی تیار کیا جاسکتا ہے۔

تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے نہ صرف جراثیم سے پاک آلات جراحی بنائے جاسکتے ہیں بلکہ اس میں زیادہ تر قدیم جاپانی روایت اوریگیمی (Origami)کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آلات نہ صرف توقعات کے عین مطابق ہوتے ہیں بلکہ انھیں بہت چھوٹے سائز میں بھی بنایا جاسکتا ہے۔ چھوٹے سائز کے یہ آلات چھوٹی جگہوں پر سرجری کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں اور مریض کو اضافی تکلیف و نقصان سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔ روایتی طریقے کے مقابلے میں، تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے آلات جراحی بنانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے پیداواری لاگت میں قابلِ ذکر کمی آجاتی ہے۔

مصنوعی انسانی اعضاء کی 3D پرنٹنگ

طب کے شعبہ میں تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے مصنوعی انسانی اعضاء تیار کیے جاسکتے ہیں۔ روایتی طریقہ کار کے تحت، معذور افراد کو مصنوعی عضو حاصل کرنے کے لیے ہفتوں اور مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے، تاہم تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی نے اس عمل کو نہ صرف تیز کردیا ہے بلکہ اس سے لاگت بھی کم ہوجاتی ہے۔ تھری ڈی پرنٹڈ اعضاء، معذور افراد کے لیے اتنے ہی فعال ہوتے ہیں، جتنے روایتی طور پر تیار کردہ مصنوعی اعضاء۔

تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے مصنوعی اعضاء کی کم لاگت تیاری کا ایک اور فائدہ، ان کا بچوں میں استعمال ہے، جنھیں جسمانی بڑھوتری کے باعث ہر چند ماہ یا سال بعد بڑے سائز کے عضو کی ضرورت پڑتی ہے۔

سرجری کی تیاری کیلئے 3D پرنٹڈ ماڈل

طب کے شعبہ میں تھری ڈی پرنٹنگ کا ایک اور کام یہ ہے کہ انتہائی پیچیدہ سرجری کرنےکے لیے ڈاکٹرز متاثرہ عضو کا تھری ڈی Replicaتیار کرتے ہیں اور اس پر سرجری کی تیاری کرتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا فائدہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ز جب آپریشن تھیٹر میں مریض کی سرجری کرتے ہیں تو نہ صرف انھیں وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ مریض کی تکلیف کی شدت بھی کم ہوجاتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا Full-faceٹرانسپلانٹ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی سرجری تک، کئی آپریشنز میں کامیاب استعمال کیا گیا ہے۔

تازہ ترین