• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ویڈیو گیمنگ کی عادت‘ نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے، اس لیے اسے اسمارٹ فون کی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ہاں! یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اسمارٹ فون نے اس عادت کو مزید پختہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ آج اس عادت کا شکار نہ صرف بچے اور نوجوان ہیں بلکہ بڑے بھی ہیں۔ شاید اس عادت کو آپ بھی آج تک محض ایک عادت ہی(gaming habit) سمجھتے آئے ہوں لیکن یہ عادت اگر پختہ ہوجائے تو بعض افراد میں جنون اور ایک خطرناک لت کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اس لت کے شکار افراد اپنے اردگرد سے بے خبر ویڈیو گیمز میں اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ انھیں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ دن بھر میں روزانہ 8گھنٹے گیم کھیلنے کی عادت، گزشتہ برس فلپائنی بچے میں تشنج اور مختلف اقسام کی بیماریوں کا سبب بنی۔ اس سے قبل پسند کی شادی کرنے والے ایک جوڑے کے درمیان علیحدگی کی وجہ بھی ایک ویڈیو گیم ’کنگ آف گلوری‘ بنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس عالمی ادارہ صحت کی جانب سے گیمز کھیلنے کی عادت کو ایک’ذہنی بیماری‘ تسلیم کیا گیا، جسے ماہرین ’ گیمنگ ڈس آرڈر‘ کانام دیتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے گزشتہ سال انٹرنیشنل کلاسیفیکیشن آف ڈیزیزز (دنیا کی 11بڑی بیماریوں )کے جاری کردہ ڈرافٹ میں، پہلی مرتبہ گیمز کھیلنے کی عادت کو ’گیمنگ ڈس آرڈر‘تجویز کرنے کی سفارش کی گئی۔ اس ڈرافٹ میں گیمزکی لت کا شکار افراد کو ان کے ذہنی مسائل سے منسلک کیا گیا۔ ڈرافٹ میںکہا گیا ہے کہ جنون کی حد تک گیمز کے شکار افراد ڈپریشن، بے چینی، رویوں میں تبدیلی، ناکافی غذائیت اور ہاضمے سمیت کیٹالونیا جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، جس کے سبب گیمز کی لت کو ذہنی بیماری کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ آخر یہ گیمنگ ڈس آرڈر کیا ہے؟ اس سے ہونے والے نقصانات اور علامات کیا ہیں؟ان پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟ یہ سب جاننے کے لیے انٹرنیشنل ہیلتھ کے ایسوایسی ایٹ پروفیسر بروس وائے لی کی پیش کی گئی وضاحتیں زیر غور ہیں۔

گیمنگ ڈس آرڈر کے منفی اثرات

گیمنگ ڈس آرڈر سے متعلق سب سے پہلا سوال جو زیادہ اہم ہے، وہ یہ کہ گیمنگ کی عادت ایک عام فرد کی زندگی پر کس طرح منفی اثرات مرتب کرتی ہے؟ڈاکٹر لی کے مطابق گیمنگ کی لت کسی بھی انسان کی عادتوں اور سرگرمیوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔تاہم، اگر یہ لت کسی شخص کی کسی بھی سرگرمی میں مدد کررہی ہے اور اس کے روزمرہ معمولات میں آڑے نہیں آرہی تو اس کے سبب یہ غور کرنا مشکل ہے کہ گیمز کا جنون انسان کی زندگی میں منفی طور پر اثر اندازہوتا ہے۔ لیکن انٹرنیشنل کلاسیفیکیشن آف ڈیزیزز کے مطابق گیمز کی لت کسی بھی انسان کی زندگی میں منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے،جس کے تحت اگر کوئی شخص ایک سال تک باقاعدگی سے گیم کھیلنے کی لت کا شکار رہے تو یہ کیفیت اس شخص کے ذہنی مسائل یا ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

گیمنگ ڈس آرڈر کی علامات

ماہرین گیمنگ یاڈیجیٹل لت کو کوکین اور سگریٹ جتنا خطرناک تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ نشہ دماغ کو ایسے ہی متاثر کرتا ہے، جیسے کہ یہ دونوں نشے۔ ڈبلیو ایچ او کو دی گئی وضاحتوں کے مطابق، اس ڈس آرڈر سے متاثرہ شخص میں مندرجہ ذیل رویے ’گیمنگ ڈس آرڈر کی علامات‘ کی صورت ظاہر ہوسکتے ہیں ۔

٭گیم کھیلنے کو حد درجہ ترجیح دینا۔٭کھیلنے کے دوران جذبات پر کنٹرول قائم نہ ہونا۔٭کثرت سے گیم کھیلے جانا۔٭ شدت محسوس کرنا۔٭گیمز کے جنون کے سبب دیگر سرگرمیوں پر توجہ نہ دینا۔٭گیم کھیلنے کا جنون زندگی کے روزمرہ اور ضروری کا موں پر حاوی ہوجانا۔ ٭منفی نتائج کے باوجود بار بار گیم کو ری- اسٹارٹ کرنا۔

WHOکی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، جن افراد میںگیم کھیلنے کے دوران مندرجہ بالا علامات تقریباً ایک سال سے موجود ہوں تو طبی ماہرین ایسے افراد کو گیمنگ ڈس آرڈر(دماغی خلل) رکھنے والے افراد میں شامل کرتے ہیں۔ اس صورتحال کی وضاحت ڈاکٹر لی ،کچھ یوں کرتے ہیں

٭جب گیم آپ کو کنٹرول کرے اور آپ اس کو کنٹرول نہ کرپارہے ہوں۔

٭گیم کھیلنے کا جنون آپ کو زندگی کی تمام سرگرمیوں سے دور لے جارہا ہو۔

٭آپ یہ جانتے ہوں کہ یہ جنون آپ کی ذاتی زندگی پر منفی طور پر اثر انداز ہورہا ہے مگر پھر بھی اس سے پیچھا نہ چھڑا پارہے ہوں۔

٭ یہ صورتحال ا گرپچھلے بارہ ماہ سے آپ کے اندر موجود ہے تو آپ گیمنگ ڈس آرڈر والے مریضوں میں شامل ہیں کیونکہ مختصراً مدت کیلئے ایسی صورتحال کا سامنا ایک عام شخص کو بھی کرنا پڑتا ہے۔

اگر یہ علامات آپ میں موجود ہیں تو پھر آپ کوڈاکٹر یا کسی اچھے تھیراپسٹ سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے، جو آپ کو رویوں میں برداشت سے متعلق آگاہی فراہم کرسکے۔ دوسری جانب اپنی مدد آپ کے تحت آپ کو گیمنگ یا پھر زندگی کی کسی بھی سرگرمی کے لیے پیرامیٹر سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اپنی توجہ سوشل گیدرنگ کی جانب مبذول کریں تاکہ آپ گیمنگ ڈس آرڈر کے نقصانات سے محفوظ رہ سکیں۔

تازہ ترین