ڈاکٹر انور سجاد بھی دنیا چھوڑ گئے،انہوں نے اپنی زندگی کی کئی بہاریں دیکھیں اور بھرپور،کام یاب زندگی گزاری،لیکن آخری ایام کسمپرسی میں بسرکیے۔ڈاکٹر انور سجاد27مئی 1935کولاہور میں پیدا ہوئے ،ان کا اصل نام سید محمد سجاد انور علی بخاری تھا ۔انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا،اس وقت وہ کم عمر تھے۔رفتہ رفتہ ان کا فن نکھرتا گیااور ان کا قلم تیزی سے چلتا رہا۔انہوں نے اداکاری کے ساتھ ڈرامے لکھنے شروع کیے توپہلا ڈراما ریڈیو پاکستان لاہور کے لیے تحریر کیا۔ جدیدیت کے قائل ڈاکٹر انور سجاد گلوکاری سمیت فنونِ لطیفہ کے سات مختلف شعبوں پرعبور رکھتے تھے۔وہ رقص کے اسرارورموز سے بھی آگاہ تھے۔بلاشبہ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے طبی تدریس کے مشہور ادارے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا تھا،پھر ڈی ڈی ایم اینڈ ایچ امتحان لندن سے پاس کیا ۔وہ ایک مدت تک اپنا کلینک چلاتے رہے اور ساتھ ساتھ ٹی وی ڈرامے بھی قلم بند کرتے رہے اور جلد ہی ڈراما نگار کی حیثیت سے بھی نام کما لیا۔ڈاکٹر انور سجاد نے 1965 میں پاکستان ٹیلی ویژن سے اپنے کیریئر کا آغاز بطور اداکار ومصنف کیا تھا۔
انہوں نے لاتعداد ڈرامے اور افسانے لکھنے کے ساتھ ساتھ کئی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے،خاص طور پر ان کے طویل دورانیے کے ڈرامے بہت پسند کیے گئے۔ان کی ایک ٹیلی فلم بعنوان’’ایک سال کا‘‘بہت مقبول ہوئی،جب کہ ٹی وی ڈراموں میں ’’پکنک‘‘،’’رات کا پچھلا پہر‘‘،’’کوئل‘‘،’’صبا اور سمندر‘‘،’’یہ زمین میری ہے‘‘ قابل زکر ہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد کی اداکاری بھی کما ل کی تھی۔’’صبااورسمندر‘‘ میں بہترین اداکاری پر انہیں پی ٹی وی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔ان کی ایک ڈراما سیریز’’زرد دوپہر‘‘بھی بہت مشہور ہوئی،جو 90 کی دہائی میں پی ٹی وی سے پیش ہوئی تھی۔وہ مختصر عرصے تک ایک ٹی وی چینل سے بھی وابستہ رہے۔کئی ڈراموں میں پس پردہ آواز بھی ان ہی کی تھی۔ حکومت پاکستان نے 1989ء میں جمالیاتی فنون کے شعبے میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں تمغہٴ حسن کارکردگی سے نوازا ۔ڈاکٹر انور سجاد کی تحریریں بھی ان کے محسوسات کی وسعت کی عکاس اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔ انہوں نےاداکاروں اور فنکاروں کے حقوق و مفادات کے لیے 1970 میں آرٹسٹ ایکٹویٹی کی بنیاد رکھی اورحلقہ ارباب ذوق لاہور کے سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ 1973 میں انہوں نے برلن میں منعقد ہونے والے ڈرامے اور موسیقی کے میلے میں پاکستانی وفد میں رکن کی حیثیت سے شرکت کی۔عمر کے آخری ایام ڈاکٹر انور سجادنے بہت مشکل اور بے بسی میں گزارے۔ ان کی اہلیہ نے صدر پاکستان کو مدد کے لیےخط بھی لکھا جس کے بعد حکومت پنجاب نے انہیں پانچ لاکھ روپے کا چیک بھی دیا تھا ،تاہم یہ رقم ان کے علاج معالجے کے لیے ناکافی تھی۔ ماضی میں فن کاروں کے حقوق کی بات کرنے والے انور سجاد کے مشکل وقت داد رسی کے لیے محض چند آوازیں بلند ہوئیں اور دم توڑ گئیں۔