سندھ دھرتی تو اپنی گونا گوں خصوصیات اور کئی ہزار سال پرانی تہذیب و ثقافت کی وجہ سےدنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سندھ کے شہر بھی تاریخی لحاظ سے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ وادی مہران کا ہر شہر کسی نہ کسی خصوصیت کا حامل ہے جو کہ دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں کو حیران کردیتی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع سکھرکا ضلع، جغرافیائی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایک تاریخ بھی رکھتا ہے ۔ سکھر کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ پورا شہر دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے، شہر کے ایک طرف آبادی ہے تو دوسری طرف دریائے سندھ بہہ رہا ہے، جس سے اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے ہیں، اور اگر ایک لمحے کے لئے ان سب چیزوں کو فراموش بھی کردیا جائے تو بھی سکھر اپنی شناخت کے کئی دیگرمنفرد اور دلچسپ حوالے رکھتا ہے جن میں سے ایک حوالہ اس شہر کا سنہری ٹکریوں (پہاڑی چوٹیوں) پر آباد ہونا ہے۔ ہم خیبر پختون خواہ کے پہاڑی بلندیوں پر آبادقصبات اور گاؤں کی نہیں بلکہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے سنہری ٹکریوں پر آباد ہونے کی بات کررہے ہیں اور یہ چیز تاریخ سے ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
درحقیقت ،قدرت نے سکھر کو سجانے میں فراخ دلی سے کام لیا ہے۔ وقت کا دھارا بہتا ہے تو اپنے پیچھے لازمی طور پر تبدیلیاں چھوڑ جاتا ہے اور وہ تبدیلیاں زمانےمیں موجود ہر شے پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ وہ محلات جو کبھی شان و شوکت میں اپنی مثال آپ ہوا کرتے تھے آج کھنڈرات کا ڈھیرہیں اور زمانے کی نظروں میں قصہ پارینہ بن چکے ہیں،مگر ہم تاریخ کے دریچوں سے ان محلات کا تذکرہ ختم نہیں کرسکتے۔ اسی طرح سکھر کی یہ سنہری ٹکریاں ،جہاں اب انسانی آبادیاں قائم ہیں، سکھر کی منفرد و دلچسپ شناخت کا حوالہ رکھتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سکھر شہر کا آدھے سے زیادہ حصہ ان ٹکریوں پر آباد ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
سکھر کی سنہری ٹکریوںکا سلسلہ اروڑ سے شروع ہو کر نواں گوٹھ کی آدم شاہ ٹکری پرختم ہوتا ہے۔ یہ ٹکریاں جنوب کی جانب 34میل تک جاتی ہیں۔ بعض مقامات پر یہ چوٹیاں تین سو فٹ کی بلندی پر ہیں۔ سابق ریاست خیرپور میں کوٹ ڈیجی بھی انہی کی ایک شاخ پر مشتمل ہے جو پانی نہ ہونے کے باعث ویران ہیں مگر سکھر کی ٹکریوں پر، جہاں آبی وسائل کی فراوانی ہے،وہاں پارک اور باغات ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی آبادیاں بھی ہیں۔ اروڑ کی ویران ٹکریوں پر پہلے ہاکڑو دریا بہتا تھا جس کی روانی کے نشانات بہاولپوراورمیرپورماتھیلوتک نظر آتے ہیں ۔دریائے،ہاکڑو انبالا، سیوالک جبل سے نکلتا ہوا ، بیکا نیر، بھٹ نیر، کوٹ ڈراور اروڑ سے ہوتا ہوا کوری کے نار تک بہتا تھا۔آبکلانی کے موسم میں ستلج کا پانی آکر ہاکڑو سے ملتا تھا، مشرقی پنجاب میں دریائے گھگھر ہاکڑو کی یادگار ہے۔
پاکستانی آثار قدیمہ کے ماہرین کو کوٹ ڈیجی کے دروں کی کھدائی کرتے ہوئے کچھ اشیاء ملی ہیں ۔ان کی رائے کے مطابق یہ ’’موئن جو دڑو‘‘ کی تہذیب سے بھی زیادہ قدیم ہیں، اس سے دریائےہاکڑو کی قدامت کا اندازہ کیا جا سکتاہے۔ اروڑ کی ٹکریوں میں زمانہ قدیم میں سونے اور چاندی کی کانیں ہوا کرتی تھیں پھر وہ کانیں ختم ہوگئیں۔ اس وقت صرف چونے کاپتھر،میٹ کی پہاڑی ٹکریاں ہیں جہاں سے پتھر نکال کر تعمیراتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہی پہاڑی ٹکریوں کی وجہ سے روہڑی کے قریب سیمنٹ فیکٹری قائم ہے۔روہڑی کا شہر بھی ان ٹکریوں کی ایک شاخ پر ہی آباد ہے۔ روہڑی کی ٹکریوں سے کنکریٹ اور چونے کاپتھر نکالا جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ سکھر بیراج کی تعمیر میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے وہ سکھر اور روہڑی کی ٹکریوں سے لیا گیا تھا۔ ستیوں کے آستان کی ٹکری (سات سہیلیوں کا مزار) جوکہ روہڑی کے ریلوے پل کے برابر میں نہایت دلکش نظاروں کی حامل ٹکڑی ہے اور اروڑ کی ٹکریوں کی شاخ ہے جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ لوگ دور دراز کے شہروں سے ستیوں کے آستان کی سیاحت کے لیےسکھر آتے ہیں ۔خواجہ خضر کا آستان اوربکھر کا مضبوط قلعہ بھی دو ٹکریوں پرہی قائم ہیں۔ بکھر کی ٹکری کے باعث دریائے سندھ روہڑی کے نزدیک دو شاخوں میں بٹ جاتا ہے اوربکھر کی ٹکری کےاختتام پر ان کا سنگم ہوجاتا ہے ۔سکھر اور بکھر کی دریائی شاخ لمبائی میں 200گز طویل ہے جو ’’کھرڑی‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہیںجو کہ 1903ء میں خشک موسم کے باعث سوکھ گئی تھی،بکھر اور روہڑی والی دریائی شاخ کی لمبائی 400گز ہے جس کا نام تاریخی کتب میں ’’کار ماتری‘‘ہے۔سکھر کی ٹکریوں میں سے شہر میں ایک ٹکری پر میاں آدم شاہ کلہوڑو کا مزار ہے اور یہ ٹکری ان ہی کے نام سے موسوم ہے۔انگریزوں نے سکھر شہر کی ٹکریوں پر انگریزی نام رکھے جیسے واٹر ورکس جس میں سے شہر کو پانی ملتا ہے، مشن لیڈی اسپتال کے سامنے والی ٹکری، میر معصوم شاہ منارہ کی ٹکری، ملٹری بنگلے کی ٹکری، فریک ہل جس پر سول اسپتال، ریلوے کوارٹر اور گھاڑ بنگلہ ہے۔کنگز ہل ٹکری جو سینٹ میری ہائی اسکول سے شروع ہوکر غریب آباد تک ہے اور اس پر ریلوے کے بنگلے، عید گاہ، ریلوے انسٹیٹیوٹ میونسپل ریسٹ ہائوس اور ریلوے گرلز ہائی اسکول قائم ہیں۔ٹکریوںکے 80 سلسلے پر انگریزوں نے 19ویں صدی میں فوجیوں کے مورچے تعمیر کرائے تھے جو پہلی عالمی جنگ تک قائم رہے۔ ان ٹکریوں پر بے شمار قبریں ہیں۔ انگریزوں نے ان ٹکریوں پر دفاتراور بنگلے تعمیر کرائے تھے لہذا آج یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان ٹکریوں پر موجود قبریں کن بزرگوں کی ہیں۔ ان ٹکریوں کے بڑے پتھر لائیڈ (سکھر بیراج) کی تعمیر کے بعد گڈوبیراج میں ہیں 1961ء سے 1962ء تک روزانہ 20مال گاڑیاں بڑے پتھروں سے بھر کر کشمور جاتی تھیں،اس کے علاوہ نواں گوٹھ کے سامنے چونے کے بھٹے ہیںجن میں لاکھوں من چونا بنتا ہے اور کنکریٹ لاکھوں ٹن ماہانہ ریلوے لائنیںبچھانے کے لئے باہر جاتا ہے اور شہر کی سڑکوں اور پختہ راستوں کی تعمیرا ت میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ان ٹکریوںکے منافع بخش ہونے اور بزرگان دین کی قبروں کے باعث عوام الناس میں یہ ٹکریاں سنہری ٹکریوں کے نام سے معروف ہیں۔ روایات کے مطابق انگریزوں نے آتے ہی ان ٹکریوں پر قائم قبریں مسمار کرائیں اور وہاں سے باقیات نکال کر ان ہڈیوں کو کشتیوں کے ذریعے دریا میں بہایا گیا ۔اتنی بربادیوں کے باوجود بھی متعدد ٹکریوں پر کئی خالی قبریں نظر آتی ہیں جن کو نہ تو برٹش حکومت گرا سکی اور نہ ہی ان کو زمانے کے انقلابات مٹا سکے۔کچھ قبروں پر کاشی کاری اور میناکاری کا کام کیا گیا ہے، پتہ نہیں چل رہا کہ یہ امراء کی آخری آرام گاہیں ہیں یا اولیاء اللہ کی، جومحکمہ آثار قدیمہ کے کی زیر نگرانی ہیںاور زمانے کی سختیوں سے محفوظ ہیں ۔ ان میں سے کئی خانقاہیں حکومت پاکستان نے محکمہ اوقاف کی تحویل میں دے دی ہوئی ہیں، جو اچھا اقدام ہے ۔
بعض قبروں کے کتبے نہ ہونے کے باعث قطعی گمنام ہیں، مثلًا واٹر ورکس کے قریب ایک چبوترا پرانی اینٹوں سے بنا ہوا ہے جس میں کاشی کا کام کیاگیاہے۔ انگریزوں کے دور میں سکھر میونسپلٹی نے وہاں ایک لوہے کی بینچ رکھوادی تھی جس پر شام کو لوگ بیٹھ کر گردونواح کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اس پر قبریں بنائی گئیں اور سیڑھی کو گرادیا گیا۔ میر عبدالباقی پورانی کے قبرستان میں کئی ایسے چبوترے تھے اور کچھ موجود ہیں اور کچھ امتداد زمانہ کے ہاتھوں نیست و نابود ہوچکے ہیں۔ میر کے قبو کے پیچھے ایک ٹکری کے دوکونوں میں بھی خوب صورت چبوترے ہیںجہاں مقامی لوگوں کے مطابق بزرگان دین کی قبریں ہیں۔ وہ کن ہستیوں کی آخری آرام گاہیں ہیںتحقیق کے باوجود بھی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ سکھر کی سنہری ٹکریوں میں تاریخ سمائی ہوئی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ان سنہری ٹکریوں کو تاریخی ورثہ قرار دے کر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ بیرون شہر سے آنے والے لوگ تاریخی آثار سے واقفیت حاصل کرسکیں۔