• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسرت راشدی

پاکستان کی کل آبادی میں خواتین کا تناسب باون فیصد کے قریب ہے، مگر عملاً 3 سے 5 فیصد خواتین عملی زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔آج بھی سول سروس میں ٹاپ کرنے والی لڑکیوں کی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ اور پولیس سروس میں حوصلہ شکنی کی جاتی ہے،جبکہ وہ کسی صورت بھی مردوں کی ذہانت و متانت سے کم نہیں ۔ ایک طرف خواتین کی تخلیقی اور انتظامی صلاحیتوں کو مردوں کو تسلیم کرنے میں دشواری ہے تودوسری طرف ان پر ذہنی اور جسمانی تشد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔عورتیںمعاشرے پر بوجھ نہیں ہیں۔ ان کی مادی اور ذہنی تخلیق کی طوفانی یلغار کے سامنے مرد ہتھیار ڈال چکے ہیں ،اس کے باوجود صنفی امتیاز برتتے ہوئے صلاحیتوں کے باوجود محض اس لئے آگے بڑھنےنہیں دیا جاتاکہ وہ عورت ہے۔یہ قرین انصاف کیسے ہو سکتا ہے۔ عورتیں سائنسدان بھی ہیں انجینئر بھی اور حکمران بھی تو پھر کیوں عورتوں کو زندگی کے اہم اور فیصلہ کن معاملات میں شمولیت سے باز رکھا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے، ان کی اکثریت کو مردوں نے اپنے تعصب اور تنگ ذہنیت اور محدود سوچ کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔صنفی امتیاز ہماری جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ آج کل لڑکیاں ا سکول، کالج اور یونیورسٹی تک میںتعلیم حاصل کر رہی ہیںاور نوکری بھی ، مگر اس سب کے باوجود فرق کی بو ہوا میں سونگھی جا سکتی ہے۔ بیٹا مہنگےا سکول میں جاتا ہے تو بیٹی ذرا کم مہنگے اسکول میں، وجہ یہ کہ گھر کے قریب ہے۔ بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجا جاتا ہے تو بیٹی کو کسی قریبی یونیورسٹی میں، وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ باہر کا ماحول خراب ہے۔ بیٹا نوکری سے آتا ہے تو پورا گھر اس کے آگے بچھ جاتا ہے بیٹی کو چائے بنانے کا حکم دے دیا جاتا ہے کہ بھائی تھکا ہارا آیا ہے۔ بیٹے کی شادی کا سوچتے ہوئےاُس سے پوچھ لیا جاتا ہے کہ کوئی پسند ہے تو بتا دو۔ بیٹیوں کو اجنبیوں کے سنگ رخصت کر دیا جاتا ہے کہ لو یہ تمہارا نصیب ہے، جس کے اچھا ہونے کی دعا بچپن سےدے رہے ہیں۔ اب نیک نکل آیا تو تمہاری قسمت ورنہ ہماری عزت کی خاطرچپ چاپ زندگی گزار دینا۔کیا عورت ہمیشہ افسانوں اور رومانی غزلوں کا موضوع ہی رہے گی۔

انسانی حقوق کے عالمی قانون کے تحت مرد و زن کے لیے سماجی اور قانونی معاملات میں یکساں رویہ اختیار کرنے کا تحفظ موجود ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیشہ معاشرے میں صنفی مساوات سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن یہ امر قابل افسوس ہے کہ آج کے جدید دور میں معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والی عورتوں سےصنف کی بنیاد پر دنیا بھر میں تعصب برتا جاتاہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ کہ انہیںمردوں کے برابر کام کرنے کے باوجود مساوی معاوضہ نہیںدیا جاتاہے۔

پاکستان میں صنفی امتیاز دماغوں میں اس قدررچ بس گیا ہے کہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب وہ عورت سے بیزاری کا ثبوت دے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کی کرکٹ ٹیم کو ویسی پذیرائی نہیں ملتی، جیسی مرد کرکٹ ٹیم کو ملتی ہے۔صنفی امتیاز ہر معاشرے کا حصہ رہا ہے اور اب بھی کسی نہ کسی صورت میں دنیا کی ہر ثقافت میں موجود ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور وہ اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے،جبکہ ہمارے ہاں اسے سرے سے مسئلہ ہی تصور نہیں کیا جاتا۔

ورلڈ اکنامک فورم کی اٹھارہ دسمبر کو جاری کردہ ایک رپورٹ میںیہ بات پیش کی گئی، کہ عالمی سطح پر نہ صرف سیاست میں خواتین کی شرکت میں کمی آتی جا رہی ہے، بلکہ صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں بھی بین الاقوامی سطح پر عورتوں کو حاصل رسائی قطعی غیر مساوی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مردوں اور خواتین کو ایک ہی طرح کا کام کرنے پر برابر تنخواہیں ادا کیے جانے کے حوالے سے جرمنی عالمی سطح پر 14 ویں نمبر ہے، جبکہ امریکا کی پوزیشن مزید نیچے جا کر اب 51 ویں ہو گئی ہے۔اس فہرست میں شمالی یورپی ممالک ابھی تک سب سے آگے ہیں۔ دنیا بھر میں مردوں اور خواتین کے مابین سب سے زیادہ مساوات آئس لینڈ میں پائی جاتی ہے، جس کے بعد ناروے، سویڈن اور فن لینڈ کے نام آتے ہیں۔دوسری طرف جن ممالک میں صنفی عدم مساوات سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، ان میں شام، عراق، پاکستان اور (فہرست میں سب سے نیچے) یمن کے نام آتے ہیں۔

جب تک اس مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھیں گے تب تک ہم اسے حل بھی نہیں کر سکیں گے۔ یہ مسئلہ بار بار اپنی شکل بدل کر ہمارے سامنے آتا رہے گا۔

تازہ ترین