• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5550 ارب محاصل کا ہدف حاصل کرنا بہت مشکل ہے، کراچی چیمبر

کراچی (رفیق بشیر/سہیل افضل) مالی سال 2019-20 کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ پر تاجر برادری کا کہنا ہے کہ5550؍ ارب محاصل کا ہدف حاصل کرنا بہت مشکل ہے، چینی، سیمنٹ کی قیمت اضافے سے ریلیف دینے کا حکومتی دعویٰ غلط ثابت ہوا، عمران خان سے امیدیں تھیں پورا نہیں اترے، سیمنٹ کی قیمت میں اضافہ سے اپنا گھر بنانے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، جبکہ کاشتکار رہنمائوں کا کہنا ہے کہ آلو، پیاز، زرعی پیداوار پر ٹیکس سے کسا ن اور عوام متاثر ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی چیمبر کے صدر جنید اسمعیل مکڈا سابق صدر سراج قاسم تیلی، زبیر موتی والا، ہارون فاروقی، انجم نثار، شمیم احمد فرپو، اور جاوید بلوانی نےکراچی چیمبر آف کامرس میں دیگر تاجروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں کئی اقدامات خوش آئند کیے ہیں اور 5 ہزار 550 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف طے کیا گیا جو گزشتہ سال سے 1550 سے 1600 ارب زیادہ ہے تاہم ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ʼبجٹ میں چینی کی قیمتوں پر لگنے والے ٹیکس میں اضافے سے حکومت کا عام آدمی کو ریلیف دینے کا دعوی غلط ثابت ہوا جبکہ سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اپنا گھر بنانے کے خواہش مند افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ʼتاجر برادری نے جو عمران خان سے امیدیں رکھی تھیں اس پر وہ پورا نہیں اترے ڈالر کی وجہ سے صنعتوں کا پہلے ہی برا حال ہے صنعت کار اتنا ٹیکس کہاں سے دیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ʼعمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس صنعت پر وہ ٹیکس لگارہے ہیں کیا اس کی اتنی استطاعت ہے کہ وہ اضافی ٹیکس ادا کرسکے۔انہوں نے تجویز دی کہ بجٹ میں تبدیلیاں کرنی چاہیے۔لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر الماس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی بجٹ 20-2019 کو مناسب قرار دیدیا۔ کاشت رہنمائوں نے بجٹ کو زراعت دشمن بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلو، پیاز اور زرعی پیداوار پر ٹیکس لگانے سے کاشتکار اور عوام متاثر ہونگے، کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ پہلے ہی ملکی زراعت کی پیداواری لاگت دیگر ممالک سے زیادہ ہے اور اب بجٹ میں ریلیف نہ دینے پر کاشت کاروں سے کھلی دشمنی کا اظہار ہے ۔ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کاشت کاروں شیر محمد جکھرانی ، علی محمد جوکھیو، عزیر اللہ فاضلانی ، عبداللہ شیخ اور نور محمد نظامانی نے کہا کہ بجٹ میں حکومت نے زراعت کے شعبے کو نظر انداز کردیا ہے ، حکومت میں جاگیر دار اور سرمایہ دار ہیں جسکے باعث حکومت نے غریب کاشت کاروں کے باعث انکے مفادات کا خیال رکھا ہے، بجٹ میں ٹریکٹر یا دیگر آلات کی خریداری پر کوئی زر تلافی نہیں دی ،جبکہ زرعی ادویات پر بھی کوئی رعایت کا اعلا نہیں کیا، بجٹ میں زرعی شعبے کی ترقی کے لئے جو 280ارب روپے مختص کئے ہیں یہ رقم اپنی پارٹی کے لوگوں میں تقسیم کردی جائے گی، رقم مختص کرنے کے بجائے حکومت کو منصوبے بنانے چاہیں تھے تاکہ تمام کاشت کار فائدہ اٹھاسکتے۔ انہوں نے کہا کہ گندم، چاول، گنے اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کیلئے 44.8 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں ، لیکن یہ رقم بھی من پسند افراد کو دے دی جائے گی جبکہ فی ایکٹر پیداوار بڑھانے کے لئے حکومت جدید زرعی مشینری کو درآمد کرنے کی یکساں اجازت دیتی ، رقم بجٹ میں مختص کرنے سے کرپشن بڑھتا ہے اور اسطرح کی رقم سے سرف چند لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ،انڈے اور پولٹری کی پیداوار بڑھانے کیلئے نئے منصوبے پیش کرنے کے بجائے حکومت کو پولٹری فارمرز کو پیکیج دینا چاہیے تھا، کراچی میں پولٹری فارم کی صنعت تباہ ہوگئی ہے اس کو بحال کرنے کے لئے پیکج کی ضرورت ہے ،فش فارمنگ کے لئے سندھ میں زرعی پانی کی قلت کو دور کیا جانا چاہیے ، سندھ سے تعلق رکھنے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ بجٹ میں زراعت کے حوالے سے جو فنڈ مختص کئے ہیں ان فنڈ سے سب سے زیادہ فائدہ کے پی کے اور پنجاب کو ہوگا، کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ فصل کے نقصان کے ازالے کے لئے انشورنش کی اسکیم پہلے سے موجود ہے لیکن اس کا فائدہ بڑے کاشت کار کو ہوتا ہے، انشورنس ا سکیم کے لئے 2.5 ارب روپے سے کیا ہوگا ، کاشت کاروں کو بعض فصل میں اتنا نقصان برادشت کرنا پڑتا ہے جس سے حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرتے، کاشت کاروں کا کہنا تھا کہ پیاز آلو دیگر سبزی پر ٹیکس سے کاشت کار کے ساتھ عوام بھی متاثر ہونگے ،سبزیوں پر ٹیکس عائد کیا ہے اس سے سبزیاں مہنگی ہوجائیں گئیں۔

تازہ ترین