آج کے دور میں ہر شعبہ زندگی میں صنفی عدم مساوات ایک اہم مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کے خلاف دنیا بھر میں کئی ادارے اور حکومتیں کام کررہی ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی تحقیق کے مطابق، موجودہ رفتار کے حساب سے، خواتین کو مردوں کے برابر تنخواہیں حاصل کرنے اور دفاتر میں برابر نمایندگی کے حصول کے لیے217برس تک انتظار کرنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق، دنیا کے 144ممالک میں سے آئس لینڈ، ناروے، فن لینڈ، روانڈا اور سویڈن نے تعلیم، صحت، بقاء، معاشی مواقع اور سیاسی طاقت کے شعبوں میں سب سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ تعلیم کے شعبہ میں خواتین نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تحقیق کے مطابق 13برسوں میں صنفی تفریق کا خاتمہ ممکن ہے، جبکہ سیاسی طاقت کے حصول میں برابری کے لیے مزید99سال درکار ہوں گے۔ اس تحقیق کے مطابق، خواتین کام کی جگہوں پر مردوں کے مقابلے میں آدھی تنخواہیں حاصل کرپاتی ہیں۔ ڈبلیو ای ایف نے اس تحقیق میں کہا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں اقتصادی فرق 58فیصد تک ہے، جو کہ گذشتہ 10برسوں میں سب سے بڑا فرق ہے۔ ڈبلیو ای ایف کی سینئر اہلکار سعدیہ زاہدی کا کہنا ہے، ’’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ فرق بڑھتا جائے۔ صنفی مساوات یا برابری، معاشی اور اخلاقی ضرورت ہے۔ یہ بات چند ممالک میں سمجھی جا چکی ہے اور ہم اس وجہ سے وہاں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح صنفی تفریق کم کی جا رہی ہے‘‘۔
فِن لینڈ کو خواتین کے رہنے کیلئے دنیا کا بہترین ملک قرار دیا جاتا ہے، جہاں خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ فِن لینڈ میں خواتین کی تنخواہیں مردوں کے مساوی ہونے کا قانون موجود ہے، جس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرنے کے اقدامات بھی نظر آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے باوجود خواتین کو نوکریاں ملنے اور نوکریوں میں ترقی پانے کے مواقع نہیں مل رہے۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ مَردوں اور خواتین کے درمیان تنخواہوں کا فرق ختم کرنے سے برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار میں250ارب ڈالر تک اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ امریکا میں 1750ارب ڈالر اور چین کی مجموعی قومی پیداوار میں ڈھائی کھرب ڈالر تک اضافے کا امکان ہے۔
صنفی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے اب چین نے بھی سنجیدہ کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ چین کے9سرکاری اداروں، جن میں وزارتِ انسانی وسائل اور سماجی تحفظ، آل چائنا ویمن فیڈریشن اور سپریم پیپلز کورٹ شامل ہیں، نے ملک میں کام کرنے والے تمام کاروباری اداروں کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔ ان نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ادارہ کسی خالی اسامی پر امیدوار کا انتخاب کرتے وقت درخواست دینے والے تمام امیدواروں کو مساوی معیار پر جانچے گا۔ مزید برآں، کسی بھی نوکری کے لیے کسی مخصوص صنف، جیسے خواتین پر مردوں کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ نوٹسز میں مزید کہا گیا ہے کہ اداروں میں ایسے غیر مسابقتی طریقوں کو اپنانے کو جرم تصور کیا جائے گا۔
اسی طرح، اشتہارات میں مخصوص نوکریوں کے لیے کسی خاص صنف کو ترجیح دینے کا ذکر نہیں کیا جائے گا (جیسے کچھ نوکریوں کے لیے درج کردہ ضروریات میں لکھا ہوتا ہے کہ اس نوکری کے لیے صرف مرد حضرات درخواست دینے کے اہل ہیں وغیرہ وغیرہ)۔ ایسے اشتہارات شائع کرنے والے اداروں پر 50ہزار یوان (7ہزار400امریکی ڈالر) جرمانہ عائد کیا جائے گا جبکہ ایسا کرنے والی ریکروٹنگ ایجنسیوں کے لائسنس یا اجازت نامے منسوخ کردیے جائیں گے۔
چینی حکام کے مطابق، اس اقدام کا مقصد نوکریاں دینے کے عمل اور کام کی جگہ پر خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہے۔ اس اقدام کا دوسرا مقصد، ریاست کی طرف سےملکی خواتین کو یہ پیغام دینا بھی ہے کہ چین کی ریاست اپنی خواتین کا خیال رکھتی ہے اور ان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں بھرپور کردار ادا کریں گی۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے ’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن‘ کے مطابق، 1990ءسے 2018ء کے دوران چین کی سرگرم افرادی قوت میں خواتین کی شرکت بڑھنے کے بجائے، اس میں تقریباً 10فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 1990ء میں، 79.39فی صد چینی خواتین، ملکی سرگرم افرادی قوت کا حصہ تھیں، جبکہ 2018ء میں یہ شرح کم ہوکر 68.58رہ گئی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے یہ اعدادوشمار چین کی 15سال کی عمر سے 64سال کی عمر تک کی ایسی خواتین کے عکاس ہیں، جو عملی زندگی میں سرگرم ہیں۔
چینی حکومت کا خیال ہے کہ کاروباری اداروں کے خواتین ورکرز اور ایگزیکٹوز کی طرف امتیازی رویے کے باعث، خواتین کی عملی میدان میں شمولیت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیںاور غالباً اسی وجہ سے ملکی افرادی قوت میں سرگرم خواتین کی شرح میں کمی آئی ہے۔
ہرچندکہ چین میں پہلے سے موجود کئی قوانین افرادی قوت میں خواتین کو مساوی حقوق دیتے ہیں، جن میں ویمنز رائٹس پروٹیکشن لاء، لیبر لاء اور ایمپلائمنٹ پروٹیکشن لاء شامل ہیں۔ تاہم صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے انسانی حقوق کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان قوانین کا مفہوم مبہم رکھا گیا ہے، جن پر یا تو عمل درآمد کمزور ہے یا پھر خواتین ان میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ 2018ء میں نوکری کی تلاش کرنے والے پلیٹ فارم ’زَہاؤ پِن‘کی جانب سے ایک لاکھ افراد سے کیے جانے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ چین میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو 22فی صد کم تنخواہیں دی جاتی ہیں، جبکہ کام کرنے والی ایک تہائی خواتین کا خیال تھا کہ شادی کرنے یا حاملہ ہونے کی صورت میں انھیں خطرہ ہے کہ ان کی ترقی کے امکانات کم ہوجائیں گے۔
چین کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نئے رہنما اصولوںکے تحت، آجروں کو خواتین سے ان کی ازدواجی حیثیت یا حاملہ ہونے کے ارادوں سے متعلق پوچھنے سے روک دیا گیا ہے، کیونکہ چین کے کئی کاروباری اداروں میں خواتین امیدواروں کو نوکری کی پیشکش کرنے سے پہلے حاملہ ہونے کے طبی ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے یا پھر ملازمت کے دوران ان کے حاملہ ہونے پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ نئے اعلامیہ میں کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کا سامناکرنے والی خواتین کو سرکاری اداروں کی جانب سے قانونی معاونت فراہم کرنے کی شق بھی شامل کی گئی ہے، تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ حکومت متاثرہ خواتین کو کس نوعیت کی قانونی معاونت فراہم کرے گی اور اس کا دائرہ کار کیا ہوگا۔
چین میں صنفی عدم مساوات کے خلاف کام کرنے والے کئی رہنما، چینی حکومت کے اس نئے اقدام سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ بیجنگ میں چائنا ویمنز یونیورسٹی کی ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ حکومت کے نئے اقدامات دفاتر اور کام کی جگہوں پر صنفی عدم مساوات ختم کرنے کے لیے درکار حکومتی لائحہ عمل سے اب بھی عاری ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ ٹھیک ہے کہ نئے قوانین کے ذریعے نوکری دینے کے عمل کو ایک ضابطہ کار کے تحت لانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے، تاہم یہ قوانین ایک خاتون کو نوکری ملنے کے بعد ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کرتے‘‘۔