• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوگوسلاویہ کے باغی سیاست دان اور ادیب’’ملون دی جلاس‘‘ کی کتاب "Land Without of Justice" یعنی ’’انصاف سے عاری سرزمین‘‘گزشتہ صدی کے پانچویں عشرے کے دوران شائع ہوئی، آج ظلم و ستم کی ستائی ہر عورت کے ماتھے پر جلاس کی کتاب ’’انصاف سے عاری سرزمین‘‘ کا پوسٹر چسپاں ہے، جس پر اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی ’’سرخیاں‘‘ درج ہیں۔ جس کے بیانیے میں وہ داستان رقم ہے جو درد کا سمندر ہے۔ وہ سمندر جس میں دکھوں کی ندیاں رخساروں سے ڈھلکتے ہوئے آنسوئوں کی لکیروں کی طرح سرکتی سرکتی سمندر میں جذب ہوجاتی ہیں اور انصاف کی متلاشی آنکھیں روشنی کھو دیتی ہیں۔ وہ آنکھیں جن کے بارے میں باغی ادیب ’’وکٹرسرگی‘‘ نے اپنے ایک ناول ’’کامریڈ تلیائبف‘‘ میں مجرموں کے کٹہرے میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔ ’’مائی لارڈ! ہماری آنکھیں آئینہ ہیں۔ تم ان آئینوں کو توڑنا چاہتے ہو کیونکہ ان آئینوں میں تم اپنا عکس دیکھ رہے ہو، وہ عکس جس میں تم اپنے آپ پر فتوے صادر کرتے نظر آتے ہو۔ تم ان آئینوں سے ڈرتے ہو کیونکہ تم انصاف نہیں دلاتے۔‘‘ وکٹرسرگی کے ناول کا یہ کردار حقیقت کے کتنے قریب ہے، اس کا اندازہ امریکا کی سیاہ فام انقلابی خاتون اور بلیک پینتھر پارٹی کی سرگرم کارکن اینجیلا ڈیوس کی اس تقریر سے بخوبی ہوسکتا ہے جو اس نے نیویارک میں ایک جلسے میں کی تھی۔ اپنے خطاب میں اینجیلا نے کہا تھا۔ ’’کہاں کا قانون، کیسا انصاف، کیسی عدالتیں؟ یہاں جس کے پاس مہنگا وکیل ہے، وہ مقدمے سے بری ہوجاتا ہے اور جو غریب قیدی ہے، وہ وکیل نہ ہونے کے باعث جیلوں میں پڑا رہتا ہے خصوصاً خواتین، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور جن کے اپنوں نے ان پر جھوٹے مقدمے دائر کرکے انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ اب وہ انصاف مانگیں بھی تو کس سے…؟

اینجیلا ڈیوس لاوارث بچوں اور خواتین قیدیوں کو عرصے سے انصاف دلانے کیلئے سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ ناکامی کے بعد ججوں کو جلی کٹی بھی سناتی ہے۔ اپنے مقصدمیں وہ کس حد تک کامیاب ہوئی، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے لیکن تاریخ کے صفحات کھنگالتے کھنگالتے اتنا ضرور احساس ہوگیا کہ انصاف کی کشتی میں ناانصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

انصاف کے کفن میں لپٹی ناقابل تصور دکھ کی ایسی لاتعداد داستانیں عنوان چاہتی ہیں جنہیں کبھی پوری طرح نہ سنا جاسکے گا، جو مشرق سے مغرب تک بکھری پڑی ہیں۔ کہیں جیلوں میں، کہیں پناہ گاہوں میں لیکن بیشتر عدالتوں کی فائلوں میں دبی پیشیوں کی منتظر ہیں۔ ایسی ہی ایک فائل نیشنل جیوگرافک میں تصویروں، اخباری صفحوں اور ہڈیوں کے ڈھیر کی صورت میں ’’زمرد بی بی‘‘ کے نام سے دفن ہے جو دنیا کی توجہ کا مرکز اس وقت بنی جب نیشنل جیوگرافک نے سرورق پر اسے نمایاں چھاپا۔ اس کا چہرہ اس وقت کی مجبور و بے کس عورت کی سسکتی زندگی کا عکاس تھا۔ اس کی داستان حیات میں لکھا ہے کہ اس کے معصوم چہرے پر شبنم کے قطروں کی پھوار کے بجائے تیزاب کا آبشار انڈیلا تو وہ جھلسے ہوئے گلاب کو سنہری بالوں کی لٹوں میں چھپائے ایک کمرے میں مقید ہوگئی۔ وہ خود ہی قیدی اور خود ہی صیاد بن گئی۔ زمرد بی بی کی داستان منظرعام پر آنے کے بعد ٹی وی چینلز پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن گئی۔ زمرد، اینکرز کے سوالوں کے جواب ضرور دیتی اگر اسکرین پر اپنے گلاب جیسے چہرے کو مرجھایا دیکھ کر سترہ منزلہ عمارت کی بالکونی سے کود کر جان نہ دیتی۔ اس کی خودکشی دوسری بریکنگ نیوز تو بنی لیکن اس وقت وہ اپنے احساسات کے ساتھ منوں مٹی تلے دب چکی تھی۔ اب اس کی قبر ایک تنکے کی طرح اس وقت تک آنکھوں میں چبھتی رہے گی جب تک اس کا چہرہ جھلسانے والے کو سزا نہیں مل جاتی۔ اس دن کا انتظار زمرد کے بوڑھے ماں، باپ کو ہے۔

ظلم کا نشانہ بننے والی زمرد اس سرزمین کی پہلی عورت ہے نہ آخری تصویر ہے۔ ہر صبح ہی ناظرین ٹی وی چینلز پر اینکرز کی گھن گرج آوازوں سے اذیت ناک خبروں کا ناشتہ کرتے اور اندوہناک خبروں سے پیٹ بھر کر بستر پر دراز ہوتے ہیں۔ اس روشن صبح کو بھی بھولنا آسان نہیں جب اینکرز کی چیختی دھاڑتی آوازیں کسی درندے کی غراہٹ سی لگ رہی تھیں۔ دماغ کی گیلی گیلی سوچوں سے سانسوں کا گرم لوبان جلتا محسوس ہورہا تھا۔ ٹی وی پر نظریں جمائے ایسا لگ رہا تھا جیسے پیچ و خم، اتار چڑھائو، موسیقی ہی میں نہیں، الفاظ میں بھی ہوتے ہیں جن کا حرف حرف، نقطہ نقطہ اظہار کی کھڑکی پر چڑھا ہوتا ہے۔ اینکرز بریکنگ نیوز دیتے ہوئے الفاظ کا چنائو محتاط انداز میں ایسے کررہے تھے کہ الفاظ آگے پیچھے ہوگئے تو کہیں ان پر مقدمہ دائر نہ ہوجائے۔ بریکنگ نیوز تھی سندھ کے متوسط طبقے کی تعلیم یافتہ نائلہ کی! جس کی لاش سندھ یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل کے کمرے سے برآمد ہوئی۔ نائلہ سندھ یونیورسٹی میں سندھی شعبے کی پوزیشن ہولڈر تھی۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرچکی تھی صرف تھیسسز جمع کرانے کیلئے اس گرلز ہاسٹل میں رکی ہوئی تھی جس کا نام سندھی ثقافت کی علامت ’’ماروی‘‘ سے منسوب ہے۔ معاشرتی غلاموں کی اس چھوٹی سے آزاد دنیا میں کسی کو معلوم نہ تھا کہ ماروی ہاسٹل میں ایک مسافر کی زندگی کا سفر ختم ہوگیا ہے۔ کمرے کا دروازہ پہلے دستک اور پھر زور سے بجانے پر بھی نہ کھلا تو چوکیدار نے دروازہ توڑا تو پنکھے میں لٹک رہی تھی نائلہ کی لاش! اس کی ساتھیوں کی چیخوں نے پورے ہاسٹل کو ہلا دیا۔ دوپٹے کو پھندا بنا کر جھول جانے والی نائلہ کی تصاویر ٹی وی پر دیکھ کر ناظرین کی بھی چیخیں نکلی ہوں گی۔ صرف دس پندرہ منٹ میں پنکھے سے جھولتی لاش کی تصاویرسوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو کسی نے افسوس کا اظہار کیا، کسی نے ’’ریسٹ ان پیس‘‘ لکھا لیکن جب کسی نے لکھا ’’کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ خودکشی ہے، قتل بھی تو ہوسکتا ہے۔‘‘ اس سوال کے اٹھنے سے سوشل میڈیا پر احتجاج کا طوفان آگیا۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’’یہ خودکشی نہیں، قتل ہے‘‘ کسی نے اسٹیٹس لکھا کہ ’’لاش کی تصاویر اپنے بند ہونٹوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ نائلہ کو قتل کیا گیا ہے۔‘‘ دوسرے دن تمام اخبارات نے ’’نائلہ کی خودکشی یا قتل‘‘ کی سرخی کے ساتھ نمایاں خبر شائع کی۔ نائلہ کے بھائی نے تھانے میں ایف آئی آر درج کراتے ہوئے حکومت سے جلد قاتلوں کو گرفتار کرنے اور انصاف دلانے کا مطالبہ کیا لیکن قاتل پکڑے گئے نہ ہی مقدمہ درج ہوا۔ یوں ایک اور فائل بند ہوگئی۔

کوئی تو انصاف کرے!!
اینجیلا ڈیوس نیویارک میں جلسے سے خطاب جبکہ دوسری تصویر میں لاوارث خواتین اور بچوں کے بارے میں اظہارِخیال کرتے ہوئے

انصاف کی چوکھٹ پر پے درپے کیس آتے ہی رہتے ہیں، لیکن جب انصاف دلانے کی دہلیز پر علم و انصاف کے عاشق بھی گولیوں کی زد میں آجائیں تو زبانیں گونگی ہوجاتی ہیں جیسا کہ قانون دان فضہ ملک کو بھری عدالت میں قتل کردیا گیا جس نے مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے کالا کوٹ پہنا تھا، وہ اپنی پریکٹس کے دوسرے ہی دن اس دھرتی پر مظلومیت کا نشان چھوڑ چلی۔ قاتلوں کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ انہوں نے ایک خاتون وکیل کو نہیں بلکہ ایک ایسے خواب کا خون کردیا ہے جو تعبیر کی تلاش میں قانون کی، انصاف کی وہ کتابیں پڑھتی تھی جو آج بھی اس کے گھر کے بک شیلف میں موجود ہیں۔ وہ اس وقت وکیل نہیں تھی مگر جب اس نے ناانصافی کے ہزار در دیکھے تو اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ وکیل بنے گی اور جن لوگوں کے بنیادی حقوق پامال کئے جاتے ہیں، جن خواتین کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرکے قید کیا جاتا ہے، جن کے پاس مقدمہ لڑنے کیلئے وکیل کو دینے کی بھاری بھرکم فیس ہوتی ہے اور نہ گواہ! ان کا مقدر چمکانے کیلئے وہ سارے مقدمے فیس لے کر نہیں لڑے گی۔ اس دن بھی وہ عدالت میں انصاف کیلئے لڑنے آئی تھی مگر مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے جج سے مخاطب ہوتے ہوئے ’’مائی لارڈ!‘‘ کہنے سے قبل ہی اس پر گولیاں برسا دی گئیں۔ یہ ناحق خون اس عدالت میں ہوا جہاں انصاف ملتا ہے۔ مگر فضہ ملک کو بے انصافی سے بھری ایک ایسی موت ملی جس نے انصاف کے دروازے پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ وہ لڑکی جس نے اپنے ملک میں انصاف کیلئے ہونے والے احتجاجوں میں حصہ لیا تھا، اس کیلئے کوئی احتجاج نہیں ہوا، نہ بے حسی کا سفر تھما۔ دراصل بے حسی کا سفر کبھی رکتا نہیں شاید اسی لئے ہماری آنکھوں سے حیرت رخصت ہوچکی ہے۔

اس سے قبل پروین رحمان دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ اس وقت بھی بریکنگ نیوز سے ماتمی گیت، شب کے پرندوں کی طرح نمکین ہوائوں میں اڑنے لگے تھے۔ ٹیلیویژن اسکرین پر ایک ایسی خاتون کے خون کا رنگ نمایاں تھا جو انجینئرنگ کالج سے گریجویشن کے بعد ایک کامیاب اور خوشحال پیشہ ورانہ زندگی گزار سکتی تھی مگر اس نے ایسا کرنے کے بجائے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں کراچی کے غریب علاقوں میں کام کو ترجیح دی۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون تھی جس نے اراضی کے قبضہ گروپ کے خلاف جدوجہد کی اور تین عشروں تک قبضہ مافیا کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھی جبکہ کسی مرد نے قبضہ مافیا کے خلاف آواز بلند نہ کی۔ پروین کی کام سے محبت اور اس کی دیدہ دلیری سے مردوں کا معاشرہ اتنا خوف زدہ تھا کہ 2013ء کی ایک شام اسے قتل کردیا گیا۔ اس وقت وہ زندگی کے 56؍ویں سال میں تھی۔ پروین کے قتل کی فائل ابھی کھلی ہوئی ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ دوسری فائلوں کی طرح یہ فائل بھی جلد یا بدیر بند ہوجائے گی۔

انصاف کی دہلیز پر تو سبین محمود کی ماں بھی بیٹھی ہوگی جس کے سامنے دہشت گردوں نے بیٹی کی سانس کی ڈوری کاٹ دی۔ کیا قصور تھا سبین کا! یہی ناں کہ وہ عورتوں کے حقوق کیلئے بڑھ چڑھ کر بولتی تھی۔ وہ بضد تھی کہ پاکستان کے عوام کو ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا جائے جہاں تمام موضوعات پر گفتگو ہوسکے۔ چاہے ان موضوعات سے فرقہ وارانہ تنظیمیں ناراض ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس نے جمہوریت دشمن قوتوں کے خلاف جدوجہد کی۔ اس نے آرٹ کی استانی بن کر انسانیت کا بھولا بسرا سبق یاد دلایا تھا لیکن اس کی آواز کو کیسے خاموش کیا گیا۔ وہ دفتر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھی ڈرائیونگ سیٹ اس نے خود سنبھالی تھی، برابر کی سیٹ پر ماں کو بٹھایا۔ گاڑی پہلے گیئر ہی میں چند قدم آگے بڑھی تھی کہ دہشت گردوں کا نشانہ بن گئی۔ ماں سکتے کے عالم میں بیٹی کا بہتا خون دیکھتی رہی۔ چند منٹوں میں ہر چینل پر بریکنگ نیوز چلی پھر ایسی ہی خاموشی چھا گئی جس طرح اسے ڈیفنس فیز ون کے خاموش گوشے میں دفن کردیا گیا۔ ماں کے سامنے بیٹی کو قتل کرنے والے بہادروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، کسی کو کچھ پتا نہیں۔ ماں کس حال میں ہے، یہ بھی کسی کو نہیں معلوم لیکن اس کی روتی آنکھیں انصاف کی منتظر ضرور ہوں گی۔

یہ جیتی جاگتی ادھوری داستانیں اس تلخ حقیقت کی ایک ہلکی سی جھلک ہیں ۔ جنہیں دیکھ کر آنکھیں ہی نہیں دل بھی روتے ہیں لیکن دنیا کو سنانے کیلئے، مردوں کے معاشرے کو بتانے کیلئے خواتین کی ایسی سچ بیتیاں بھی ہیں جنہوں نے تاریخ کے بدترین آمروں کے پائوں اکھاڑ دیئے اور انصاف کا پرچم بلند کردیا۔ بھلا لائبیریا کی ’’لیماہ بودی‘‘ کو فراموش کیا جاسکتا ہے جس نے صرف پندرہ برس کی طویل خانہ جنگی اور تاریخ کے بدترین آمر چارلس ٹیلر کے خلاف تحریک کا آغاز انوکھے احتجاج سے کیا۔ ابتداء میں اس نے دعائیہ گیت گائے پھر ہزاروں خواتین کو جمع کرکے امن کے، انصاف کے نعرے لگائے اور وہ کچھ کر دکھایا جس کے بارے میں آج کا مرد سوچ بھی نہیں سکتا۔

خانہ جنگی کے ماحول میں پلنے بڑھنے والی لیماہ بودی کو یقین تھا کہ معاشرے میں تبدیلی خواتین ہی لا سکتی ہیں کیونکہ وہ معاشرے کا بہت سا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ اس نے خواتین کے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ماضی میں ہم مکمل طور پر خاموش تھے لیکن اب قتل و غارت، اجتماعی زیادتیوں اور انسانیت سوز سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

خواتین کے احتجاج نے صدر چارلس ٹیلر کو مذاکرات کی میز بچھانے پر مجبور کردیا۔ بعدازاں اقوام متحدہ بھی حرکت میں آگئی۔ اس نے صدر چارلس پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کرکے مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ اس دوران انقلابی خواتین کی تحریک میں مرد بھی شامل ہوگئے۔ پورے ملک میں ایک ایسا منظر دکھائی دینے لگا جس کا چارلس نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ بالآخر مظاہروں نے چارلس کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں ’’بودی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگنے لگے۔ چارلس کے استعفیٰ اور ملک سے فرار ہونے کے بعد لیماہ بودی نے کہا ’’اب خواتین کو ایسے کام کرنا ہوں گے جو اس سے پہلے کسی نے نہ کئے ہوں۔‘‘ پھر ایسا ہی ہوا۔ صدارتی انتخابات ہوئے تو ملک کی صدر خاتون ایلن جانسن منتخب ہوئیں۔ کسی افریقی ملک میں اس سے پہلے کسی خاتون کو سربراہ مملکت کا منصب نہیں سونپا گیا تھا۔ لیماہ بودی ہی نے صدارتی مہم چلا کر ایلن جانس کو ایوان صدر میں پہنچایا۔ یہ سب کرنے کے بعد لیماہ نے اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کیا جو احتجاجی تحریک کی نذر ہوگئی تھی۔ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتی ہے جو ہے ’’انصاف‘‘ صنفی تفریق کا خاتمہ اور خواتین کے حقوق جو انہیں ہر سطح پر ملنے چاہئیں۔ جن میں جینے کا حق اول نمبر پر ہے۔ انہیں یہ حق ملے گا تو انصاف بھی ملے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ جو عورت مرد کی غالب حیثیت کو للکارتی ہے، وہ خطرہ بنتی ہے، اس کیلئے زندگی دشوار کردی جاتی ہے۔ جو عورتیں اپنے وجود کو اولیت دیتی ہیں، صنفی تفریق ختم کرنا چاہتی ہیں، انصاف کی صدا بلند کرتی ہیں، انہیں عجیب و غریب القابات سے نوازا جاتا ہے۔ آج کوئی کچھ کہے، سچ بیانی یہی ہے کہ مردوں کے معاشرے میں انہوں نے اپنی اہمیت اس طرح تسلیم کرائی ہے کہ خود مرد حیران ہیں۔ پھر بھی وہ دبے دبے لفظوں میں عورت کو کمزور، کمتر کہنے سے باز نہیں آتے لیکن کسی کے کہنے سننے سے کیا ہوتا ہے۔ اب وہ چیلنجز سے گھبرانے والی نہیں اسی لئے جہدمسلسل پر عمل پیرا ہے۔ وہ پرانی سماجی اقدار سے کھلی بغاوت کرکے ایک تحریک منظم کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اس تصور پر استوار ہے کہ اب صنفی امتیازات کو ختم ہوجانا چاہئے۔ عورت کو بطور انسان وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو ایک مرد کو حاصل ہیں۔ اسے انصاف ملنا چاہئے۔ ’’کاری‘‘ کہہ کر قتل نہ کیا جائے، اس پر تعلیم کے دروازے بند نہ کئے جائیں، اسے اس کی مرضی سے جینے دیا جائے۔ دراصل کسی بھی عورت کی ذہنی پیچیدگی اس سوچ کی کوکھ سے جنم لیتی ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے اپنے اہل خانہ کیلئے کسی کام کی نہیں۔ اس کا معاشی طور پر انحصار پذیر رہنا، اس کے وجود کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ معاشی انحصار نے ہی عورت کیلئے مختلف سانچے تیار کئے ہیں جن میں وہ ڈھلتی رہتی ہے یا ڈھلنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اگر عورت اپنی گزربسر کا اہتمام کرسکتی ہو تو پھر اس کیلئے آزادی کا حصول بھی چنداں دشوار ثابت نہیں ہوتا لیکن مردوں کے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہی عورت کے کردار کو محدود کرنے کا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ غیر روایتی کردار اپنانے والی عورتوں کو بھی مردوں کے مقابلے میں اہمیت نہیں دی جاتی۔ بسااوقات عورت اپنی آزادی سے خود ہی یوں محروم ہوتی چلی جاتی ہے کہ اسے انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی یہ خواہش غلط نہیں کہ ہر معاملے میں اس کی رائے کو بھی اتنا ہی اہم سمجھا جائے جتنا کسی مرد کی رائے کو سمجھ جاتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے اور وہ آواز بلند کررہی ہے تو اس کو سنا جائے، اسے انصاف دیا جائے۔

یہ کڑوا سچ ہے کہ غیر معمولی تبدیلیاں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں لیکن مردوں کی فطرت بدل کر نہیں دے رہی۔ اب تو خواتین پر پے درپے ظلم و زیادتی کی لہر میں کچھ زیادہ ہی تیزی آگئی ہے۔ اس کی وجہ خواتین کی خود اعتمادی، خود مختاری اور ہر میدان میں ان کے بڑھتے قدم بتائے جاتے ہیں جو مردوں سے برداشت نہیں ہورہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 21؍ویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں بھی صنف قوی کی سوچ، رویئے اور مزاج ہی نہیں بدل رہے۔

اقوام متحدہ کے اعدادوشمار 2017ء کے مطابق دنیا میں ہر سال کم ازکم دو لاکھ خواتین اور لڑکیاں جنسی درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ اعدادوشمار پولیس ریکارڈ کے مطابق ہیں جبکہ ایسے بہت سے واقعات درج ہی نہیں ہوتے، تیسری دنیا کے ممالک میں! اقوام متحدہ کے اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق ہر سال امریکا میں ایک تہائی خواتین اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ گوئٹے مالا میں ہر روز چھ سے دس خواتین انتقام کی آگ میں جلا دی جاتی ہیں۔ ہر سال تقریباً 8؍لاکھ خواتین اسمگلروں کے ہتھے چڑھتی ہیں۔ جنوبی ایشیا اور افریقہ کے جنوبی صحرائی خطے میں لاکھوں بچیوں کی شادی کم سنی یا 18؍برس سے قبل کردی جاتی ہے۔ تیزاب پھینکنے کے زیادہ تر واقعات پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان اور کمبوڈیا میں ہوتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں خواتین پر تشدد، کم سنی کی شادی، غیرت کے نام پر قتل، اغوا، ہراساں کرنے کے قوانین تو موجود ہیں لیکن مجرم گرفتار ہوتے ہیں نہ خواتین کو انصاف ملتا ہے۔

ہم جس دنیا میں پل بڑھ کر بڑے ہوئے ہیں، وہ آج ہمیں ایک مختلف جگہ معلوم ہوتی ہے۔ ایک طرف خواتین صنفی تفریق سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے اپنا کردار منوا رہی ہیں، دوسری طرف ان پر تشدد ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ماضی سے حال تک کا سفرکچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آرہا۔

مانا کہ زندگی میں جو دکھ ہوتے ہیں وہ ہمیں سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ ہماری آنکھیں کھولنے آتے ہیں لیکن کوئی مسیحا تو آئے چارہ گری کی خاطر، جو دے سکون و امن و اماں و انصاف کہ،زیست انصاف چاہتی ہے۔یہ کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا میں خواتین کو انصاف نہیں ملتا۔ احتسابی عمل کے فقدان کی وجہ سے ایک ایسی فضا پیدا ہوچکی ہے جس میں بدسلوکی اور تشدد کا ارتکاب آسان سے آسان تر ہوتا جارہا ہے۔

عورت دشمن قوانین

’’مالٹا‘‘ ناخواندہ اور وحشی قبائل کا دیس نہیں۔ یہ ترقی یافتہ ملک ہے شرح خواندگی صد فی صد ہے، لیکن اس کے باوجود مالٹا کے کرمنل کوڈ کی رو سے اگر کوئی مرد شادی کرنے کی نیت سے کسی لڑکی کو اغوا کرلے تو اسے نہ گرفتار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے یعنی ’’مالٹا‘‘ میں لڑکے کا اپنی من پسند لڑکی کو اغوا کرکے زبردستی اس سے شادی کرلینا، (خواہ لڑکی راضی نہ ہو) اخلاقی و قانونی طور پر جرم نہیں بلکہ جائز فعل ہے۔

اسی قسم کا قانون لبنان میں بھی مروج ہے۔ وہاں بھی لڑکا کسی لڑکی کو اغوا کرکے زبردستی شادی کرلے تو وہ بھی قانون کی گرفت میں نہیں آتا۔ ماضی میں ایسا ہی عورت دشمن قانون، کوسٹاریکا، ایتھوپیا، گوئٹے مالا، پیرو اور یوراگوئے کے ممالک میں بھی تھا۔ بعد ازاں خواتین کے شدید احتجاج پر ان ملکوں سے ظالمانہ قانون ختم کرا دیا گیا۔سنگاپور اور بہاماس میں بھی ایسے ظالمانہ قوانین رائج ہیں جن کے طفیل شوہر بیوی پرتشدد کرے تو اس سے باز پرس نہیں کی جاسکتی۔ جمہوریہ کانگو میں عورت حقیقتاً مرد کی غلام بنی رہتی ہے۔ وہاں مروج فیملی کوڈ 1987ء کی رو سے شوہر کو حکم رانی کے اتنے زیادہ اختیارات ہیں کہ لگتا ہے بیوی اس کی اجازت کے بغیر کھانا بھی نہیں کھا سکتی۔

چلی میں سول کوڈ کے آرٹیکل نمبر 1949 کی رو سے شادی کے بعد شوہر اپنی بیوی کی جائیداد کا مالک بن جاتا ہے۔

امریکا میں بھی بعض قوانین عورت سے امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔ ’’دی امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ‘‘ کے رو سے اگر کوئی امریکی مرد بیرون ملک کس لڑکی سے شادی کرتا ہے تو وہ حکومت کو یہ تحریری ضمانت دیتا ہے کہ وہ بچوں کے 18 سال کے ہونے تک اُن کی کفالت کرے گا، پھر وہ یہ ثابت کرنے کی خاطر ڈی این اے ٹیسٹ دکھاتا ہے کہ وہی بچوں کا باپ ہے، غرض طویل قانونی مراحل طے کرنے کے بعد ہی غیر ملکی عورت کے بچے امریکی شہری بن پاتے ہیں۔ یہ ہے امتیازی سلوک، یہ ہے ناانصافی۔

اقوام متحدہ کی قرارداد پر بھی عمل نہ ہوسکا

اقوام متحدہ نے 1979ء میں پہلی مرتبہ خواتین کے ساتھ نا انصافیوں کا نوٹس لیتے ہوئے خصوصی اجلاس بلایا تھا،

جس میں تمام ممالک نے اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر ’’ویمن کنونشن‘‘ منظور کیا، بعد ازاں 20 دسمبر 1999ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواتین کے خلاف امتیازی قوانین، تشدد اور صنفی رویے کے خاتمے سے متعلق قرارداد بیش تر ممالک نے متفقہ طور پر منظور کی تھی۔

کوئی تو انصاف کرے!!
رمشاء وسان

آج اس قرارداد کو منظور ہوئے 40 سال ہونے کو ہیں، لیکن آج بھی اکثر ممالک میں خواتین بہیمانہ تشدد و زیادتی سے دوچار ہیں۔ ان پر ظلم و زیادتی کرنے والے ہاتھوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اس اضافے کی بنیادی وجہ تو یہی نظر آرہی ہے کہ ذمے دار افراد کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔ اکثر ایسی شہادتوں کو بھی چھپایا جاتا ہے جن کے باعث تشدد کرنے والوں پر مقدمہ چلا کر سزا سنائی جاسکتی ہو۔

ملتانی مٹی سے لیپتی تختی پر آج کون سا لفظ لکھیں؟

جلتی بجھتی سی روشنی کے پرے ،سمٹاسمٹا ساایک مکان ،جہاں کے درودیوار پر اُداسی چھائی ہوئی ہے ۔یہ مکان خیر پور میرس ضلع میں کونڈ جی تحصیل کے قریب واقع گائوں پیر بڈھو وسان میں ہے ۔اس مکان میں 13 سالہ رمشا ءوسان جو چھٹی جماعت کی طالبہ تھی ،اپنے نازک پروں پر بھاری بھاری خواب رکھے محو پرواز تھی کہ ایک دن اغواہوگئی ،سات دن تک غائب رہی ،جب لوٹی تو اسے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ۔پولیس نے غیرت کے نام پر قتل قرار دے دیا ۔رمشاکا قصور یہ تھا کہ وہ چند جماعتیں پڑھ کر سوال جواب کرنے لگی تھی ،وڈیرہ شاہی پر ،بچیوں کے لیے جر گوں پر ،کاروکاری پر اپنے مستقبل پر ،ایسے ایسے سوال کرتی کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ،بس لمبی چپ ان کا جواب ہوتی ۔یہ بات وڈیروں تک بھی پہنچ گئی اور پھر وہی ہوا ،جس کا ڈر تھا ،نتیجہ بھی وہی نکلا ،جس کی اُمید تھی ،رمشا ء کی تختی پر بہت سے لفظ لکھے ہیں لیکن آج اب اس پر کون سا لفظ لکھا جائے گا، یہ سوچنا پڑے گا۔ بظاہر ہر قاتل گر فتار ہوگئے لیکن ٹی وی اسکرین پر اینکرز ایسے خاموش ہوگئے ۔جیسے یہ بھی کچھ بولیں گے تو ان کی زبانیں کاٹ دی جائیں گی ۔رمشاء کے قتل کو ایف آئی آر میں ’’کاروکاری ‘‘ کا معاملہ اور کاری کی گئی لکھا گیا ۔یعنی قتل کی وجوہ کو فوری جذبے کے تحت کیا جائے والا جرم بنوایا گیا ،جو کہ ملزم نے طیش میں آکر کیا ۔یہ صرف ’’رمشاء ‘ ‘کی کہانی ہے ،ہمارے چاروں طر ف ایسی کہانیاں بکھری پڑی ہیں ۔جب سے بر صغیر میں پولیس نظام رائج ہواہے ،ایسے قتلوں کو فوری جذبے کے تحت مجرمانہ فعل بتایا جاتا ہے ،جس سے قاتل بری ہوجاتے ہیں یا پھر کم سزا پاتے ہیں ۔لگتا ایسا ہے کہ نظام سیاست میں انصاف سے زیادہ قاتل بڑا ہے ۔ 

 انسانی حقوق پر ہونے والی بحث کے موضوعات تبدیل ہوگئے

سلامتی کونسل نے اقوام متحدہ کی قیام امن کارروائیوں میں عورتوں کی حیثیت اور ضروریات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پرتشدد تنازعات اور امن کے قیام کے لیے جو بھی کوششیں کی جائیں ان میں عورتوں کو بھی شامل کیا جائے۔ عموماً خواتین پر تشدد کی اطلاعات پوشیدہ رکھی جاتی ہیں، جس کے باعث رپورٹوں کو دستاویزی شکل دینا مشکل ہوتا ہے۔ اعداد و شمار خوف ناک ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے ہر ملک خواتین پر تشدد کی اطلاعات پوشیدہ نہ رکھے، تاکہ اقوام عالم کو مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرنے میں آسانی ہو۔‘‘ سلامتی کونسل نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ عورتوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کا تدارک، تفتیش، سزا، تلافی اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں اور دعوؤں کی پاس داری کرنا چاہیے۔ تشدد کا ارتکاب کرنے والے اگر سزا سے محفوظ رہیں گے تو متاثرہ خواتین کوانصاف میسر نہیں آئے گا۔‘‘

مشرق و مغرب

عورت مشرق کی ہو یا مغرب کی، ترقی پذیر ملک سے تعلق ہو یا ترقی یافتہ سے، صنفی امتیاز دنیا کے ہر خطے کی عورت سے روا رکھا جارہا ہے۔ امریکا جو خواتین کو حقوق دلانے کا خود کو چیمپئن سمجھتا ہے، وہاں بھی عورتوں کو مردوں کے مساوی ٹھہرانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ مردوں جیسا سلوک روا رکھا جائے۔

’’خلیج ٹائمز‘‘ کی سروے رپورٹ کے مطابق چین، سری لنکا، بلغاریہ، بھارت اور پاکستان سمیت برطانیہ، امریکا بھی خواتین کو ہراساں کرنے اور صنفی تفریق میں پیچھے نہیں ہیں۔ معاشی محرومی کا شکار سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت اور افریقہ سے ہر سال ہزاروں عورتوں اور لڑکیوں کو گھر کے مرد ہی گھریلو ملازمت کے بہانے مختلف ممالک میں اسمگل کردیتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں امتیازی قوانین کے نظام میں پائے جانے والے رویئے خواتین کی شکایات درج کرانے میں حائل ہوتے ہیں۔قانون سے ہی سماج بنتے ہیں۔ ترقی کرتے ہیں لیکن جب معاشرے کی گاڑی قانون کی پٹری سے اتر جاتی ہے، تب ایک نہیں لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں۔ جس معاشرے کی خواتین ناانصافی کی تنی ہوئی رسی پر چلتے چلتے اپنا توازن کھو بیٹھیں، اس معاشرے کو کیا کہا جائے گا۔تیسری دنیا کے غریب ممالک ناانصافی، جہالت اور بھوک کی ذلت میں کچھ اس طرح گھر گئے ہیں کہ ان کے پاس نہ تو اپنی محرومیوں کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی وہ اپنی خواتین کو تحفظ دے پا رہے ہیں۔ حیرت ہے حد سے زیادہ ترقی کرتی ہوئی دنیا میں آج بھی عورت معاشرتی مقام اور انصاف سے محروم ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک میں عورتوں کے خلاف امتیاز پر مبنی قوانین ہیں۔ بعض مواقع پر جب خواتین نے امتیازی قوانین کی خلاف ورزی کی تو ان پر نہ صرف تشدد کیا گیا بلکہ انہیں ظالمانہ سزائیں دی گئیں۔ گزشتہ چار دہائیوں پر محیط خواتین کی تحریکوں کے نتیجے میں آج خواتین کو روزمرہ زندگی میں درپیش خلاف ورزیوں کی بہتر آگاہی ہے۔ انہوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد میں بڑے معرکے سر کئے ہیں پھر بھی انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔

…حق کے لیے ڈٹ جائیں…
سیاہ فام خاتون کے ایک انکار نے تاریخ کا رخ بدل دیا

تاریخ عالم گواہ ہے کہ جس طرح کبھی کبھی کسی خاکستر سے اٹھنے والی ایک چنگاری قوم کی تقدیر بدل دیتی ہے، اسی طرح ایک جرات مندانہ انکار سے تاریخ کا رخ تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب کوئی عورت کسی بات سے انکاری ہوجائے تو بہت سے مردوں کا منہ حلق تک کڑوا ہوجاتا ہے جیسا کہ ایک سیاہ فام خاتون کے صرف ایک انکار نے مردوں کا پارہ ہائی کردیا لیکن اس کے انکار نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔

کوئی تو انصاف کرے!!
سیاہ فام خاتون ’’روزا پارکس‘‘

یہ بات ہے یکم دسمبر 1955ء کی جب امریکا کے شہر منٹگمری میں ایک سیاہ فام خاتون ’’روزا پارکس‘‘ ایک بس میں گھر جارہی تھی۔ راستے میں ایک سفید فام بس میں سوار ہوا تو سفید فاموں کی مخصوص نشستوں میں کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ کنڈیکٹر نے سیاہ فام خاتون ’’روزا‘‘ سے جو اپنی مخصوص نشست پر بیٹھی تھی، کہا۔ ’’سفید فام کیلئے اپنی نشست خالی کردو۔‘‘ لیکن روزا نے سیٹ چھوڑنے سے انکار کردیا جس پر بس میں موجود سفید فاموں نے ہنگامہ کردیا۔ کنڈیکٹر نے پولیس کو اطلاع دی، چند منٹوں میں پولیس آئی اور روزا کو زبردستی بس سے گرفتار کرکے عدالت لے گئی۔ عدالت نے واقعہ سنا اور اسی وقت روزا پر دس ڈالر جرمانہ عائد کردیا۔ جب سیاہ فاموں کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو انہوں نے نہ صرف بھرپور احتجاج کیا بلکہ سیاہ فام رہنما ڈاکٹر لوتھر کنگ جونیئر کی رہنمائی میں 380؍دن یعنی ایک سال 15؍دن تک شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کا بائیکاٹ کیا۔ بعدازاں تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ بالآخر نومبر 1956ء میں فیڈرل کورٹ نے امریکا میں سیاہ فاموں کے خلاف بشمول خواتین، تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کردیا اور امریکا کے برابر شہریوں کا درجہ دیا گیا۔ یوں انہیں تمام آئنی حقوق حاصل ہوگئے۔ ایک دن ایک سیاہ فام خاتون نے ’’روزا پارکس‘‘ سے کہا کہ جب آپ بس میں بیٹھتی ہیں تو دیگر خواتین آپ کے احترام میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ آپ کے انکار نے ہمیں جینے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔

21؍ویں صدی میں 15؍صدی کا گمان

نپولین نے کہا تھا۔ ’’دنیا کے مصائب کی وجہ برے لوگوں کا تشدد نہیں، اچھے لوگوں کی خاموشی ہے۔‘‘ غیرت کے نام پر قتل میں خاموشی بھی حائل ہے۔ 2018ء کے اواخر میں ایک روح فرسا رپورٹ منظرعام پر آئی۔ گرچہ پاکستان میں لوگ ایسی المناک خبروں کے عادی ہیں، پڑھنے والوں کو اس رپورٹ میں کوئی چونکا دینے والی بات نظر بھی نہیں آئی ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق دنیابھر میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے خلاف قانون سازی اور سزائیں نافذ ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں ہوئی۔ کل کی طرح آج بھی یہ جرم کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ہورہا ہے مگر افسوسناک صورتحال یہ ہےکہ اس جرم سے زیادہ شرمناک اس پر ہونے والا ردعمل ہے۔ آج کے دور میں بھی ایسے قبائل، برادریاں ہیں جو اس گھنائونے قتل کو جرم ہی نہیں سمجھتے۔ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ہماری روایات ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کسی ایک مذہب یا تہذیب سے مختص نہیں ہے۔ قدیم رومن تہذیب قرون وسطیٰ کی یورپی تہذیب میں بھی یہ رسم تھی۔ عرب دنیا میں غیرت کے نام پر قتل اسلام سے پہلے کی عام رسم تھی۔ گویا یہ نام نہاد قتل کسی نہ کسی شکل میں ہر تہذیب و تمدن میں رائج تھا جو اسی طرح چلتی ہوئی برصغیر میں بھی آگئی۔ خوش قسمتی سے ترقی اور علم و شعور کے ساتھ یہ اور ایسی بے شمار رسوم ناپسندیدہ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار پائیں لیکن بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا کے کچھ حصوں میں ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیبی ترقی کے سفر میں ہم 15؍ویں صدی میں کھڑے ہیں۔ پاکستان بھی ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے جہاں آج بھی غیرت کے نام پر قتل عام بات ہے۔ گرچہ حالیہ برسوں میں اس جرم کے خلاف سخت قوانین نافذ ہوئے مگر اعدادوشمار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اس جرم میں کوئی واضح کمی نہیں ہوئی۔ کل کی طرح آج بھی مردوں کی غیرت ایسی جاگ رہی ہے کہ بے غیرتی سے قتل ہورہے ہیں۔ نہ مجرم گرفتار ہوتے ہیں نہ خواتین کو انصاف ملتا ہے۔

تازہ ترین