• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کا اخبار جنرل (ر) پرویز مشرف کے حوالے سے رنگارنگ خبروں اور تصویروں سے بھرا ہواہے۔ جب سے جنرل (ر) پرویز مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ قائم ہوا ہے، وہ اسی وقت سے بیمار چلے آرہے ہیں۔ عدالت میں پیشی کے دنوں میں ان کی علالت کے حوالے سے زیادہ خبریں آنے لگتی ہیں۔ اب صورتحال میں بہت ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ گزشتہ روز وٹس ایپ پر میں نے دو تصاویر دیکھیں۔ ایک میں وہ مریضوں والا ’’یونیفارم‘‘ پہنے ہوئے تھے اور دوسرے میں ڈاکٹر آلہ ٔ تشخیص سے ان کا معائنہ کر رہا تھا اور اب اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ان کی بیماری کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔انہیں باہر بھیجا جانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہی خبر شائع ہوئی ہے کہ عدالتی فیصلہ آتے ہی مشرف کی طبیعت ٹھیک ہوگئی ہے اور وہ اسپتال سے گھر منتقل ہو چکے ہیں اور ہاں سپریم کورٹ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لئے سندھ ہائی کورٹ کافیصلہ برقرار رکھا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ سارے کام سپریم کورٹ کے کاندھے پر چڑھ کر نہ کرائے جائیں حکومت کو اس بارے میں واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ صحیح کہتی ہے لیکن ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے سارے انتظامی اختیارات بھی عملی طور پر اپنے ہی پاس رکھے ہوئے تھے۔ بہرحال سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ حکومت مشرف کے بیرون ملک جانے کا فیصلہ خود کرے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ کوئی شخص آئین شکنی کا مرتکب ہوا ہے تو حکومت کو اس بارے میں واضح موقف اختیار کرنا چائے ...... ادھر پرویز مشرف کے وکیل کاکہنا ہے کہ اس کے موکل بیمار ہیں ، علاج نہ ہوا تو فالج کا اندیشہ ہے چنانچہ ان کابیرون ملک جانا ضروری ہے۔ ویسے میرے کچھ جاننے والوں کو گزشتہ کچھ عرصے کے دوران فالج ہوا تھا ان کا علاج پاکستان میں ہی ہوا اور خدا کے فضل و کرم سے مکمل طور پر صحت مند ہیں.... اور پرویز مشرف کو تو صرف فالج کا خطرہ ہے ، فالج ہوا نہیں۔ ان کے وکیل اللہ جانے اتنے پریشان کیوں ہیں؟ اگر باہر بھیجے جانے کی بنیادیں اتنی ہی کمزور ہیں تو ڈاکٹر عاصم کو تو پہلی فلائٹ میں بیرون ملک روانہ کردینا چاہئے کہ اس بیچارے کو تو ہتھکڑیاں بھی پہنائی جاتی ہیں۔ عدالتوں میں بھی گھسیٹا جارہا ہے۔ جس کے زیراثر اس کی دماغی حالت خطرے کی سوئی کو چھو چکی ہے۔ کیا مالی کرپشن، آئین سے غداری سے بڑا جرم ہے؟
باقی رہا یہ مسئلہ کہ حکومت پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے گی کہ نہیں، تو صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف، پرویز مشرف کو ذاتی طور پر معاف کرچکے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ اور ان کے خاندان کو ان کےہاتھوں شدیدمصائب کاسامناکرنا پڑا تھا۔ مگر یہاں معاملہ آئین سے غداری کا ہےاور وزیراعظم اس پر کمپرومائز کرتے نظر نہیں آتے۔میرے خیال میں تمام طبقوں پر یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ وزیراعظم اپنے فیصلوں پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور وہ ایسے معاملات میں بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ ماضی میں وہ ایک نہیں کئی دفعہ ایسے مراحل سےگزر چکے ہیں جہاں ایک ’’ہاں‘‘ان کےلئے بہت مفید ہوتی مگر انہوں نے ’’ہاں‘‘ کی بجائے ’’ناں‘‘ کیا اور اس کے نتیجے میں بدترین مصائب کاسامنا کیا..... پرویز مشرف کا معاملہ کسی فردِ واحد کامعاملہ نہیں ہے حالانکہ اصولاً یہ فردِواحد ہی کامعاملہ سمجھا جانا چاہئے تھا، مگر بدقسمتی سے اسے مختلف رنگ دے دیئے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں وزیراعظم کو چاہئےکہ وہ سارے امکانات سامنے رکھ کر فیصلہ کریں۔ نوازشریف کی حب الوطنی، معاملہ فہمی، تدبر اور بہادری میں کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ وہ ہر وقت ‘’’تخت و تاج‘‘ سے دستبردارہونے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ماضی میں دو مرتبہ ایساکر بھی چکے ہیں تاہم جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے پرویز مشرف کے معاملے میں پہلے دن سے میراموقف یہی رہا ہے کہ یہ شخص آئین سے غداری اور اسکے علاوہ دوسرے سنگین جرائم کا مرتکب تو ہواہے مگر ہمارے ہاں کے معروضی حالات کے پیش نظراس معاملے میں ’’مٹی پائو‘‘ والی پالیسی صحیح ہے۔ میں نے تو یہ بات مسلسل لکھی تھی کہ یہ معاملہ یہیں ختم کردیں کیونکہ حکومت پرویز مشرف کا بال تک بیکا نہیں کرسکے گی، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ قوم پرویز مشرف کے جرائم معاف کردے گی ایسا نہیں ہوگا لیکن ایک وسیع تر قومی مفاد میں وزیراعظم پاکستان کو اپنے دل پر پتھر رکھ کر موصوف کو باہر جانے کی اجازت دے دی جانی چاہئے۔ اس وقت وزیراعظم ملکی ترقی کے لئے گرانقدر منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایسے منصوبے ہیں جن کی تکمیل کی صورت میں پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ جمہوریت بھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ بظاہر فوج اور حکومت ایک پیج ہی پر نظر آ رہے ہیں اور یوں یہ توقع کی جارہی ہے کہ ملکی ترقی میں جو سپیڈ بریکرز آ رہے ہیں، اس مرتبہ پاکستان اس سانحہ کا سامنا کئے بغیر ترقی کی منزلیں بہت سرعت سے طے کرتا ہوا اقوام عالم میں ایک ممتاز مقام کا حامل ہو جائے گا چنانچہ میری گزارش ہے کہ ہم پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اور عوام کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لئے یہ کڑوی گولی نگل لیں بصورت ِ دیگر اگر کوئی بڑا نہیں تو چھوٹے موٹے ’’بحرانوں‘‘ سے ہمیں بہرطور گزرنا پڑے گا.....!!
میں یہ سب باتیں خوشی سے نہیں کہہ رہا۔ اسی طرح دل پر پتھر رکھ کر کہہ رہا ہوں جس طرح وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دل پر پتھر رکھ کر درگزر سے کام لیں ، قوموں کی زندگی میں ایسے دور آیا ہی کرتے ہیں اور ان سے گزرنا ہی پڑتا ہے مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بادل نخواستہ کیا ہوا فیصلہ بھی اللہ کی رحمت سے بروقت اور صحیح فیصلے کے ثمرات سامنے لاتا ہے۔ اس حوالےسے کابینہ کے کچھ ارکان میرے ہم خیال ہیں اوروہ چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف اگرچہ بیمار و یمار کوئی نہیں، مگر انہیں باہر جانے کا راستہ دے دینا چاہئے۔ ہمارے وزیراعظم نیک نیت انسان ہیں سب سے زیادہ بھروسہ بھی اللہ ہی پر کرتے ہیں چنانچہ میرا مشورہ ہے کہ وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پرویز مشرف کا معاملہ اللہ ہی پر چھوڑ دیں۔ بے شک وہ انصاف کرنے والا ہے۔
تازہ ترین