• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہاتھوں سے معذور، پاؤں سے لکھنے والا پُرعزم نوجوان، شفاقت علی

ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں ، جو ارادے ، عزم و حوصلے کے اتنے پکّے ہوتے ہیں کہ بڑی سے بڑی مصیبت، مشکل حالات یہاں تک کہ معذوری بھی اُن کے خوابوں کی راہ میں حائل نہیں ہوپاتی۔ وہ اپنی قوّت ِ ارادی، محنت، لگن اور جہدِ مسلسل سے نہ صرف دوسروں کے لیے مثال بنتے ہیں، بلکہ اپنے روشن دماغ کی بد ولت معاشرے میں نمایاں مقام بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی باہمّت اور باصلاحیت لوگوں میں ایک نام شفاقت علی کا بھی ہے، جو پنجاب کالج ،پسرور میں پری انجینئرنگ کے طالب علم ہیں۔ با ہمّت، باصلاحیت، پُر عزم شفاقت علی دونوں ہاتھوں سے معذورہیں، لیکن وہ اس محرومی سے خائف ہیں، نہ پریشان، وہ تمام تحریری کام پاؤں سے انجام دیتے ہیں۔ قلعہ احمد آباد تحصیل ضلع نارووال کے ایک گاؤں سنگھے سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے گورنمنٹ ہائی اسکول، قلعہ احمد آباد سے میٹرک میں 965نمبرز حاصل کر کے ایک روشن مثال قائم کی ۔گوکہ شفاقت علی کے والد رفاقت علی ناخواندہ ہیں اور کھیتی باڑی کے پیشے سے منسلک ہیں، مگر ان کی شدیدخواہش ہے کہ بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اُن کا اور گاؤں کا نام روشن کرے۔ پانچ بہن بھائیوں میں سے شفاقت علی دوسرے نمبر پر ہیں۔ سب سے بڑی ہمشیرہ کی شادی ہو چکی ہے، جب کہ چار بہن بھائی زیر ِتعلیم ہیں ۔

معذوری کے باوجود تعلیم حاصل کرنے اور اپنی پہچان بنانے کی دُھن میں مگن شفاقت علی کا کہنا ہے کہ ’’ مجھے پڑھائی کا شوق اُس وقت پیدا ہوا، جب مَیں اپنے محلّے کے تمام بچّوں کو اسکول جاتا دیکھتا تھا، مگر خود معذوری کے باعث ان کے ساتھ نہیں جا پاتا تھا۔ میرا بھی دل چاہتا تھا کہ اُن کی طرح دوڑوں، بھاگوں، کمر پہ بستہ ڈالے اسکول جاؤں، میڈلز لوں۔بس اِک دن مَیں نے اپنے ابّا سے بہت ضد کی اور اُن کے ساتھ اسکول چلا گیا۔ پہلے پہل استادِ محترم نے مجھے اسکول میں داخلہ نہیں دیا، لیکن پھرمیرے شوق کودیکھتے ہوئےاور والدین کے اصرار پر مجھے داخلہ مل گیا اور یوں معذور ی کے باوجود مَیں علم کی دولت سمیٹنے میں مشغول ہوگیا۔اور یہی شوق ہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیےمہمیز کا کام کرتا رہا ، بالآخر اللہ کریم نے مجھے میری محنت کا صلہ یوں دیا کہ مَیں میٹرک میں 965نمبر زلے کر اپنےا سکول میں نمایا ں پوزیشن حاصل کر نے میں کام یاب رہا۔آج تمام گاؤں والے اپنے بچّوں کو میری مثال دیتے ہیں۔ مَیں نے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھ کر اُن تمام افراد بالخصوص نوجوانوں کے لیے مثال قائم کی ہے، جو ذرا سی مشکل ، پریشانی یا معذوری کو بہانہ بنا کر کام چوری کرتے یا پڑھائی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ معذوری کوئی بوجھ نہیں ہے، جس کی وجہ سے دوسروںکے احسان تلے زندگی گزاری جائے۔ مَیں آج جو بھی کام یابیاں سمیٹ پایا ہوں، اس کے پیچھے والدین کی دعائیں اور میرے اساتذہ کی کڑی محنت پوشیدہ ہے۔ پیروں سے تحریری کام کرنا کسی صُورت آسان نہیں ، مگر میرے محسن، شفیق اساتذہ کی بہ دولت یہ مشکل مراحل طے کرتا ہوں۔اب کالج کے پرنسپل ،جناب عامر حمید کی جانب سے بھی مجھے تمام تر سہولتیں مہیّا کی گئی ہیںتاکہ میری پڑھائی کا حرج نہ ہو۔‘‘شفاقت علی محض دو سال کے تھے، جب اُن کے پَیروںنے کام کرنا چھوڑ ا، تعلیم کی کمی کے باعث پہلے پہل والدین کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اچانک بچّے کوکیا ہوگیا ہے۔ ماں ننّھے شفاقت کو گود میں لیے گھنٹوں روتی رہتی، رات رات بھر بچّے کی سلامتی و صحت یابی کی دعائیں مانگتی ، مگر کچھ اثر نہ ہوا۔ سرکاری اسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹر کی بھی سمجھ نہ آسکا کہ بچّے کو کیا بیماری ہے، جس کی وجہ سے بر وقت علاج بھی نہیں ہو سکااور شفاقت دونوں ہاتھوں، پیروں سے معذور ہوگئے۔ تب کسی نے بتایا کہ یہ پولیو یافالج کا حملہ ہے۔ بعد ازاں، والدین اسے علی پور سیداں لے گئے، جہاں کے ڈاکٹر کی دوا نے اتنا اثر تو دکھا یا کہ اُس کی ٹانگیں ٹھیک ہو گئیں، مگردونوں ہاتھ ٹھیک نہ ہو سکے۔ جب شفاقت کےاسکول میں داخلے کا وقت ہوا، تو اُس نے سوچا کہ ’’ میرے تو ہاتھ ہی نہیں ہیں،تو میرا توتعلیم حاصل کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔‘‘مگر پھر ایک روز شفاقت نے پا ؤں سے لکھنے کی کوشش کی اور محسوس کیا کہ اگر وہ ہمّت کرے، تو پاؤں سے لکھنے میں کا م یاب ہو سکتا ہے۔اور پھر یہ پہلی کوشش رفتہ رفتہ کام یابی کی منزل تک لے گئی۔کام یابیوں کے اُفق پر اپنا نام درج کروانے کے شوقین شفاقت علی کا کہنا ہے کہ ’’جب مَیں کالج جاتاہوں، تو مجھے اپنی معذوری کا افسوس توضرور ہوتا ہے، مگر مَیں ہمّت نہیں ہارتا ۔ میرے معمولات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنا ، کالج جانا ، وقت پر اپنا کام کرنا اور رات جلدی سوجانا شامل ہے۔مَیں پڑھ لکھ کر انسانیت کی خدمت کرناچاہتاہوں ۔دنیا کو دِکھانا چاہتا ہوں کہ معذور افراد کسی سے کم نہیں ہوتے، وہ بھی عام لوگوں کی طرح جو چاہیں کر سکتے ہیں۔دنیا مذاق بھی اُڑاتی ہے اور حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے، لیکن مَیں لوگوں کی باتوں پہ کان نہیں دھرتا، اپنی کام یابی سے سب کے منہ بند کروانے کا قائل ہوںکہ محنتی انسان کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔ ؎ عزم راسخ ہو تو دیتی ہے صدا خود منزل…حوصلہ ہو تو کوئی راہ بھی دشوار نہیں۔‘‘

تازہ ترین