• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک معمول سا بن گیا ہے کہ ہم ملکی سیاست، لیڈروں کی شاطرانہ چالوں، حکومتی رویوں اور اقتدار کو درپیش خطرات کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور ان مسائل کی جانب توجہ نہیں دیتے جو ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات کو عملی طور پر درپیش ہیں۔ عموماً یہ مسائل بیڈ گورننس کا حصہ ہیں اور سسٹم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے مشکلات کو آسانیوں میں بدلا جاسکتا ہے۔ حکومتیں بڑے بڑے مسائل اور اہداف میں الجھی رہتی ہیں اور ان کی بلا سے کہ ان کی بری گورننس سے لوگوں کا کتنا وقت ضائع ہوتا ہے اور انہیں کتنی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ یہ سوچ اور انداز بدیسی حاکموں اور غلامانہ دور کا ورثہ ہے جسے بدلنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ معاشرے کے مختلف طبقوں کو صحت اور تعلیم کے حوالے سے کیا کیا مسائل درپیش ہیں، ایک عام شہری کو تھانے، پولیس اور کچہری کے حوالے سے کس طرح توہین اور اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے اور سرکار کے نظام کی پیدا کردہ پیچیدگیوں میں کتنا وقت ضائع ہوتا ہے کئی کالموں کا موضوع ہے۔ کسی سرکاری دفتر سے معمولی اور جائز کام کرانے کے لئے سفارشیں اور رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے جبکہ دوسرے ممالک میں ایسے کام گھر بیٹھے ہوجاتے ہیں۔ فرق صرف سسٹم کا ہے لیکن ہمارے ہاں سسٹم ہمارے حاکموں کی سرد مہری، نااہلی اور عوامی مسائل میں عدم دلچسپی کی وجہ سے عوام دوست اور آسان نہیں بن سکا۔

سینکڑوں مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے میں آج صرف ان چند ایک مسائل کا ذکر کروں گا جن کا تعلق حکومتی واجبات کی ادائیگی سے ہے۔ کوئی تین دہائیاں قبل میں بینک کے سامنے میلوں لمبی قطاریں دیکھتا تھا اور ان قطاروں میں کھڑے گنہگاروں کا فقط قصور یہ تھا کہ وہ بجلی کا بل ادا کرنا چاہتے تھے۔ طویل عرصے تک یہ سزا دینے بعد کسی رحم دل حاکم نے ادائیگی کو آسان بنانے کے لئے تمام بینکوں کو بل وصول کرنے کی اجازت دے دی۔ اب وہ قطاریں سمٹ کر ایک دو گھنٹوں تک آگئی ہیں جبکہ ہر مہذب ملک میں آپ گھر بیٹھے اپنے بینک اکائونٹ سے کمپیوٹر کے ذریعے حکومتی واجبات کی ادائیگیاں کر سکتے ہیں۔ مہذب قومیں وقت کی قدر کرتی ہیں اور پسماندہ ممالک کے سرد مہر حاکم وقت کے ضیاع کا خود بندوبست کرتے ہیں۔

چند روز قبل مجھے ایف بی آر کی اسسٹنٹ کمشنر کا نوٹس ملا کہ آپ 30مئی کو میرے سامنے پیش ہوں۔ آپ کے ذمہ اتنا ٹیکس ہے، اسے ادا کریں۔ 30مئی کی پیشی تھی اور نوٹس ملا 15جون کی شام کو جسے 14جون کو ایک نجی پوسٹل سروس سے بھجوایا گیا تھا۔ کسی زمانے میں ایسے نوٹس پہ فون نمبر درج ہوتا تھا اور بات کر کے معاملہ حل کیا جا سکتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب میرے سامنے چیلنج ٹیکس جمع کرانا تھا۔ ایک مہربان نے صحیح تبصرہ کیا کہ پاکستان میں ٹیکس اور حکومتی واجبات ادا کرنے کے لئے ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان، عثمان بزدار اور شبر زیدی کی حکومت ٹیکسوں کی ادائیگی اور اہمیت پر بڑا زور دیتی ہے لیکن نظام کو آسان بنانے کے لئے کچھ نہیں کرتی کیونکہ انہیں زمینی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں۔ ’’ٹیکس بھی دو اور ذلت بھی برداشت کرو‘‘ ہمارا حکومتی ماٹو ہے۔ میں ٹیکس ادا کرنے کے لئے ایک بڑے پرائیویٹ بینک گیا۔ ان کا جواب تھا کہ ہمیں حکومتی ٹیکس لینے کی نہ تربیت حاصل ہے، نہ ہی سسٹم سے آگاہی ہے۔ اس لئے نیشنل بینک کی مجاز برانچ میں جائیں۔ میرا بار بار کا تجربہ ہے کہ تمام حکومتی محکموں کی مانند نیشنل بینک کی بیوروکریسی بھی تکبر، بے اعتنائی اور سرد مہری کا نمونہ بن چکی ہے۔ میں نیشنل بینک کی ایک بڑی برانچ میں جاکر لائن میں لگ گیا۔ نصف گھنٹے کے بعد باری آئی تو کلرک صاحب نے چالان مانگا۔ خوش قسمتی سے میں اپنے وکیل سے چالان بنوا کر لے گیا تھا۔ پیش کیا تو جواب ملا کہ جس کلرک کے پاس(Password) ہے، وہ چھٹی پر ہے۔ آپ کسی اور برانچ میں جائیں۔ بعد از خرابی بیسار دوسری برانچ ڈھونڈی۔ وہاں جاکر قطار میں کھڑا ہوگیا۔ باری آئی تو رقم وصول کرکے کلرک نے رکھ لی اور کہا کہ انتظار کریں ایف بی آر کی رسید بننے میں نصف گھنٹہ لگے گا۔ مختصر یہ کہ میں ٹیکس ادا کرنے کے جرم میں چار پانچ گھنٹے ضائع کرنے اور اذیت برداشت کرنے کے بعد گھر پہنچا تو احساس ہوا کہ میں نے گویا بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے، جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں یا دفتری مدد حاصل ہے انہیں اس مسئلے کا علم نہیں کیونکہ ان کے کلرک یہ کام کرتے ہیں لیکن جس ٹیکس پیئر(Payer) نے خود یہ فرض سرانجام دینا ہے ان کا ایک دن بہرحال برباد ہونا لازم ہے، اذیت اور جسمانی سزا اپنی جگہ پر۔

اگلے ماہ سے کاروں کے ٹوکن ٹیکس ادا کرنا ہوں گے۔ میرا کئی برس پر محیط تجربہ ہے کہ ٹوکن کی ادائیگی کا مطلب چار پانچ گھنٹوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ چند برس قبل میں ٹوکن لینے کے لئے قطار میں کھڑا دیکھ رہا تھا کہ مجبوری نے ٹائوٹ سسٹم پیدا کردیا ہے۔ ٹائوٹ آپ سے ایک سو روپے رشوت وصول کر کے پندرہ بیس منٹوں میں ٹوکن ٹیکس ادا کردیتا ہے۔ حکومت کو کئی بار تجویز دی کہ محکمہ ایکسائز کے محدود دفاتر کے بجائے پنجاب بینک کی تمام برانچوں کو ٹوکن ٹیکس کی وصولی کی اجازت دے دیں لیکن آسانی پیدا کرنا ہمارے حاکموں کی ترجیح نہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ اس بار جناب عثمان بزدار صاحب بھی ذاتی کار کے ٹوکن کے لئے صبح سے لے کر دوپہر تک قطار میں کھڑے پسینے سے نہا رہے ہوں اور علامہ اقبال کے اس مصرعے کی تصویر بنے ہوں ؎

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

اللہ پاک کے فضل و کرم سے مختلف شہروں میں ڈیفنس ہائوسنگ کے علاقے کروڑوں کی آبادی پر مشتمل بذات خود شہروں کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔ ملٹری لینڈ کنٹونمنٹ کا محکمہ ڈیفنس کی آبادیوں سے ہائوس ٹیکس وصول کرتا ہے۔ اول تو بےانصافی ملاحظہ فرمائیں کہ اگر کسی نے گھر کرایے پر دیا ہے اور وہ سارا سال یا کئی ماہ خالی رہا ہے جس کا ثبوت بھی موجود ہے تو بھی محکمہ سارے سال کا ہائوس ٹیکس وصول کرتا ہے۔ منطق یہ ہے کہ ہم ٹیکس آمدنی پر نہیں بلکہ اینٹوں گارے پر لگاتے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی اسی طرح ٹیکس لگاتا اور وصول کرتا تھا۔ دوسرا ظلم یہ کہ ہائوس ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن نیشنل بینک کی صرف دو تین برانچیں ٹیکس وصول کرنے کی مجاز ہیں نتیجہ لمبی لمبی قطاریں اور پانچ چھ گھنٹے کی سزا۔ کیا دنیا کا کوئی ملک اپنے ٹیکس پیئرز(Payers)سے ایسا سلوک کرتا ہے؟ ہمارے حاکم آسانیاں پیدا کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟ جو اب ان شاء اللہ پھر کبھی!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین